تعزیت  احساس کی میت پر

سفینہ سلیم

تعزیت ایک لفظ نہیں، ایک کیفیت ہے۔ یہ دکھ کی وہ رم جھم ہے جو دل کی ویران زمین پر برس کر زخموں کو بھگو دیتی ہے۔ یہ ایک سناٹا ہے جو بین کرتا ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ تعزیت صرف دوسروں کے لیے نہیں، خود سے بھی کی جا سکتی ہے؟ جب ہمارے اندر کا چراغ بجھ جائے، جب ضمیر کی تپش ٹھنڈی ہو جائے، جب احساس کا پیکر مٹی میں مل جائے، تو پھر تعزیت خود سے نہ ہو تو اور کس سے ہو؟
آج ہم ایسے دور کے مسافر ہیں جہاں انسان زندہ ہے، مگر انسانیت دم توڑ چکی ہے۔ دل دھڑک رہا ہے، مگر جذبوں کا خون ہو چکا ہے۔ چہرے روشن ہیں، مگر آنکھیں ویران۔ یہ ایک ایسا قافلہ ہے جو لاشیں اٹھائے بڑھ رہا ہے، لیکن جنازہ کسی کو دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ میتیں جسم کی نہیں، روح کی ہیں۔ہمارے اندر جو احساس تھا، جو دوسرے کے درد پر آنکھ نم کر دیتا تھا، وہ اب بس ایک بھولی بسری داستان بن چکا ہے۔ آج ہم کسی کے آنسو کو محض پانی سمجھتے ہیں، کسی کی چیخ کو پس منظر کا شور، اور کسی کی بربادی کو محض ایک خبر۔ گویا دل کا آئینہ دھندلا ہو چکا ہے، اور احساس کا دریا سوکھ چکا ہے۔
ہمیں اپنے ہی اندر جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس خاموش قبرستان میں جہاں کبھی ہمارے خواب، ہمارے ارادے، ہمارے اصول دفن ہو چکے ہیں۔ ہر قبر پر ایک نام کندہ ہے: احساس، غیرت، مروّت، درد، شرم، سچائی۔
کیا یہ سچ نہیں کہ آج ہمیں اپنے اندر کے مرنے والے انسان کی تعزیت کرنی چاہیے؟ ایک وہ وقت بھی تھا جب ہم کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے، اور ایک آج ہے کہ ہماری نگاہیں صرف اسکرینز پر ٹھہر کر سب کچھ دیکھتی ہیں، مگر دل پر کچھ نہیں گزرتا۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل کی ویرانی پر نوحہ کہیں، اپنی بے حسی کے جنازے میں شرکت کریں، اور اپنے ہی ضمیر کی قبر پر بیٹھ کر سوگ منائیں۔ یہ تعزیت الفاظ کی نہیں، آنکھوں کے سناٹے کی ہوگی۔ یہ وہ مرثیہ ہوگا جو صرف خاموشی سے پڑھا جائے گا، کیونکہ اب کوئی سننے والا نہیں بچا  حتیٰ کہ ہم خود بھی خود کوسننا نہیں چاہتے۔
کبھی کبھی سوچتی ہوں، اگر ہمارے اندر کا انسان مر گیا، تو باقی بچا کیا؟ ایک جسم جو صرف سانس لیتا ہے؟ یا ایک مٹی کا پْتلا جو چلتا پھرتا ہے مگر جیتا نہیں؟ ہمیں اپنی ہی بے حسی کا ماتم کرنا ہوگا، اور شاید یہی پہلا قدم ہو گا بیداری کا وہ بیداری جو ایک مردہ قوم کو زندہ کر سکتی ہے۔اس لیے آج اگر آپ میں ذرا سی بھی رمق باقی ہے، تو خود سے تعزیت کیجئے۔ اس احساس کے مرنے پر جو کبھی کسی کے آنسو کو اپنا دکھ سمجھتا تھا۔ کیونکہ اگر ہم نے یہ اعتراف نہ کیا، تو کل تاریخ ہماری قبروں پر یہ لکھے گی
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جینا تو سیکھا، مگر محسوس کرنا بھول گئے۔
ہم نے اپنی روحوں پر ایسی ملمع کاری کر لی ہے کہ سچ کی کوئی کرن اندر تک رسائی ہی نہیں پا سکتی۔ ہمارے چہروں پر سجی مسکراہٹیں اندر کے ویران صحرا کی خبر نہیں دیتیں۔ دل کی زمین بنجر ہو چکی ہے، جہاں کبھی محبت کے بیج بوئے جاتے تھے، اب وہاں خود غرضی کی جھاڑیاں اْگی ہیں۔ ہم دوسروں کے غم کو دل سے نہیں، زبان سے تولتے ہیں؛ تعزیت بھی رسمی ہو چکی ہے، دعا بھی ایک روایت۔ اور شاید اسی لیے احساس کا مرنا ہمیں تکلیف نہیں دیتا، کیونکہ ہم نے درد کو محسوس کرنا نہیں، صرف بیان کرنا سیکھ لیا ہے۔

لیکن یاد رکھیے، ہر بے آواز چیخ، ہر بے نشاں آنسو اور ہر دبایا گیا دکھ ایک دن صدائے احتجاج بن کر ابھریگا اور جب وہ وقت آئے گا، تو نہ علم کی طاقت کچھ کر پائے گی، نہ مال کی برتری صرف وہی بچے گا، جو اندر سے زندہ ہوگا جو اب بھی کسی کا دکھ اپنا سمجھتا ہے، جو اب بھی خاموشی میں چیخوں کو سن لیتا ہے۔ تو اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو پا لیں، تو ہمیں اپنی روح کی خاک چھاننی ہوگی، اور اس جگہ بیٹھنا ہوگا جہاں احساس دفن ہے جہاں مکمل سچائی سے، ہم خود سے تعزیت کرسکیں۔

ای پیپر دی نیشن