گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کے موجود حالات کے مطابق پاکستان اس وقت شدید اندرونی و بیرونی خطرات میں گھِرا ہوا ہے۔ایک طرف امریکہ جو اس وقت خود حالتِ جنگ میں ہیں، اسے اسرائیل کے مفادات کا بھی تحفظ کرنا ہے، اس کی یمن کے ساتھ بھی اس وقت جنگ چل رہی ہے، غزہ کے ساتھ بھی ،حزب اللہ کے ساتھ بھی اور ایران کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا ہے۔دوسری طرف یورپ کے ساتھ اس نے ایک نیا محاذ کھول لیا ہے اور یورپ کے بتیس ممالک اب امریکہ کے ایک قسم کے مخالف تصور کیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کے پاس ٹائم نہیں کہ وہ پاکستان کو وقت دے سکے یا پاکستان کے معاملات کی جانچ پرکھ کر سکے۔ابھی تو صدر ٹرمپ کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کی دی گئی مبارکباد کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔کبھی جو ولسن ،کبھی ایلون مسک، کبھی رچرڈ گرنیل کبھی زلمے خلیل زاد یا اورکوئی بیان دے دیتا ہے لیکن اس سے پاکستان کے عوام کی تشنگی کم نہیں ہوتی۔عوام کو انتظار ہے کہ صدر ٹرمپ وزیراعظم شہباز شریف کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کریں۔یا کم از کم وزیر خارجہ روبیو اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار جو ڈپٹی وزیراعظم ہیں ان کے ساتھ ہی رابطہ کر لیں۔
پاکستان کے عوام آج کل کے ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں۔تین سال سے سیاسی نشیب و فراز سے گزر رہے ہیں۔تین سال کو ایک بہت لمبا عرصہ اس لیے کہتے ہیں کہ کسی بھی گورنمنٹ کا ایک پیریڈ ختم ہونے والا ہو جاتا ہے۔ یہ حکومت پاکستان و ہندوستان کی طرح پانچ سال کے لیے منتخب ہو یا امریکہ کی طرح چار سال کے لیے۔پاکستان میں عوام پچھلے تین سال سے مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایک ایسا آدمی جسے ان کے ضمیر کا قیدی کہتے ہیں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے۔جب کہ مخالفین ان کے بارے میں وہی نقطہ نظر رکھتے ہیں جو عمران خان اپنے مخالف سیاست دانوں کے بارے میں رکھتے تھے۔وہ ان کو کرپٹ، چور ،لٹیرا، نالائق اور نااہل قرار دیتے تھے۔اب عمران خان کے مخالفین سائفر، توشہ خانہ، عبدالقادر ٹرسٹ اور عدت کیس کو لے کر ان کو وہی القاب دے رہے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کے حامی کہتے ہیں کہ وہ ادھر پیچھے بیٹھ کر بڑی حکمت عملی سے ابھی تک تو ڈٹا ہوا ہے۔ وہ جھکنے کو تیار نہیں ہے۔عمران خان کے حامیوں کی ان کے حوالے سے جو بھی رائے ہے۔ لیکن ہر انسان لوہے اور ٹائٹن کا نہیں بنا ہوتا۔ انسان انسان ہوتا ہے گوشت پوست کا ہوتا ہے۔اس کے اندرونی اور بیرونی تغیرات اس کو کسی وقت بھی تھکایا جھکا سکتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ کل عمران خان لندن جانے یا سرور پیلس میں قیام کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔کچھ حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اپنی رہائی کے لیے منتیں کر رہے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ ان کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
گزشتہ تین سال سے پاکستان سیاسی عدم استحکام سے دو چار چلا آ رہا ہے۔معاشی نہ ہمواری بھی موجود ہے۔مہنگائی کے طوفان بڑھتے اور چڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔دہشت گردی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ٹرین کی ہائی جیکنگ کے بعد قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلانا پڑا۔جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ دہشتگردی کا بدترین واقعہ ہے۔اس سے پہلے بنوں چھائونی پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔جعفر ایکسپریس اراملے میں ابتدائی خبروں کے مطابق 200 دہشت گرد شامل تھے۔ان میں سے پاک فوج کے آپریشن کے دوران زیادہ تر بھاگ گئے جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے مطابق 33 کو مار دیا گیا، شہید ہونے والے مسافروں کی تعداد 26 بتائی گئی جن میں سکیورٹی کے اہلکار بھی شامل تھے۔اس کے بعد بھی دہشت گردی کے واقعات جاری ہیں۔
حالات پر نظر رکھنے والے دہشت گردی میں آنے والی تیزی سے اس شدت کو شریف اللہ کی حوالگی سے جوڑتے ہیں۔شریف اللہ 2022 میں کابل میں ہونے والے ایک دھماکے میں ماسٹر مائنڈ تھا جس میں 13 امریکی فوجی اور 170 مقامی شہری ہلاک ہوئے تھے۔امریکہ کے مطالبے پر شریف اللہ کو اس کے حوالے کر دیا گیا جس کا صدر ٹرمپ کی طرف سے باقاعدہ کانگرس کے پہلے اجلاس کے دوران شکریہ ادا کیا گیا۔بادی النظر میں شریف اللہ کی امریکہ کو حوالگی پاکستان میں دہشت گردی کی آگ کو مزید بھڑکا گئی۔ ملک میں بارود کا یہ کھیل دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ اب کی بار تو ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی پریشان نظر آتی ہے۔ کچھ غیر جانبدار اور کچھ بانی پی ٹی آئی کے حامی لوگ سمجھتے ہیں رجیم کوعمران خان کی صورت میں ملک کی 75فیصد پاپولیشن کی سپورٹ حاصل نہیں ہے۔ اس بات کو اسٹیبلشمنٹ بخوبی سمجھتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں میں کوئی شخص اٹھ کر ان کے درمیان صلح کروانے کے لیے اپنی خدمات نہ تو پیش کر رہا اور نہ اس جذبے کو اجاگر کر رہا ہے کہ ان کے درمیان صلح ہونی چاہیے۔
سوال یہ بنتا ہے کہ یہ سیاستدان ایسا کیوں نہیں سوچ رہے ؟ عدالتیں یہ کام کریں گی نہیں کیونکہ یہ ان کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ جو نئے جج بنتے ہیں وہ جانے والے ججوں کا استحصال کرکے کرسی پر بیٹھتے ہیں۔اس لیے ان کے لیے یہ حالات گولڈن حالات اور چانس ہیں جس کو وہ اویل کر رہے ہیں وہ کیوں صلح کروائیں گے۔ اس پر ہم پہلے بات کر چکے ہیں کہ عدلیہ کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے بیوروکریسی کی بات کریں کہ وہ معاملات کو درست کیوں نہیں کر رہی ؟ بیورکریٹس کو پتا ہے کہ اگر حکومت مضبوط ہو گی تو ان کی کمیشنیں جو لیتے ہیں وہ کم ہو جائیں گی،وہ حکومت کو مستحکم کیوں ہونے دیں گے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود حکومت میں جو تین بڑی پارٹیاں ہیں ان کو 8فروری کے نتائج کا پتا ہے انہیں پتا ہے کہ ہم مفاہمت کے لیے بیٹھیں گے تو وہ جو حقیقت ہے اس بات کو ہم جھٹلا نہیں سکیں گے ،ثبوتوں کو ہم جھٹلا نہیں سکیں گے تو پھر ہمیں سچائی ماننا پڑے گا۔
اب جس شخص کے پاس اقتدار ہے یعنی زرداری صاحب صدر پاکستان ہیں، گیلانی صاحب سینیٹ چیئر مین ہیں، تین صوبوں میں پیپلزپارٹی کے گورنر متعین ہیں تو کیا وہ استعفے دے کر گھر جائیں گے؟ ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کی نظر میں مفاہمت نہ ہونا اچھا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت نہیں ہوگی ان پانچ چھ بڑے آئینی عہدوں پر اقتدار پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ان کے کیسزبھی بند ہیں جو ان کے خلاف جاری کیس تھے وہ صدر کی امیونٹی ہونے کی وجہ سے وہ کیسز بھی بند ہیں۔ اس وجہ سے پیپلزپارٹی کو تو صلح سوٹ ہی نہیں کرتی۔کئی حلقوں کی نظر میں یہ صحیح ہے یا صحیح نہیں ہے کہ ن لیگ کو بھی تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین نزدیکیاں وارے میں نہیں ہیںکیونکہ مبینہ طور پر ان کو پتاہے اپنے رزلٹ کا ، لاہور کے حلقوں کا ،پنجاب کے حلقوں کا، پورے پاکستان کے حلقوں کا۔اگر وہ مانیں کہ ہاں جی زیادتی تو ہوئی ہے تو پھر وزیراعلیٰ کو گھر جانا پڑے گا، وزیراعظم کو گھر جانا پڑے گا۔
اگر قومی مفاد کی بات کی جائے تو اس کے سامنے ذاتی مفادات اور سیاست ہیچ ہونی چاہیے۔ صرف اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف ہی کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنا چاہیے بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر سیاسی پارٹی کا رابطہ ہونا چاہیے۔اسٹیبلشمنٹ پر بھی تحریک انصاف سمیت اور پارٹی کو اعتماد رکھنا چاہیے۔تحریک انصاف بھی اس حد تک نہ چلی جائے کہ اپنی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے کر اس کے خلاف نفرتوں کے پہاڑ کھڑے کر دے اور پھر یہ پہاڑ اور ان کی بلند چوٹیاں کسی بھی محب وطن کے لیے ان کو سر کرنا شاید ممکن نہ رہے؟