پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کیخلاف ہندوتوا کا ایجنڈا رکھنے والی بھارت کی مودی سرکار کی انتہادرجے کو پہنچی سازشوں نے آج یہ حقیقت پھر عیاں کردی ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کیلئے الگ خطہ ارضی کے حصول اور تحریکِ قیام پاکستان کا باعث بننے والے دو قومی نظریے کی بنیاد خود متعصب ہندو لیڈرشپ نے رکھی تھی جنہوں نے برطانوی وائسرائے ہند سے ملی بھگت کرکے مسلمانوں کی مذہبی آزادی سمیت انکی آبرومندی کے ساتھ زندگی گزارنے کی ہر سہولت و آزادی پر ناروا قدغنیں لگا دیں۔ مسلمانوں کیلئے اچھی ملازمتوں کا حصول بھی شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۔ جنونی ہندو ان پر حملے کرکے اور ان کا ناحق خون بہا کر انہیں گائے ذبح کرنے کی سزا بھی دیتے رہے اور مساجد میں جا کر نماز ادا کرنا بھی ان کیلئے ناممکن بناتے رہے۔ ہندو انتہاپسندوں کی اسی سوچ اور رویے نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لئے الگ خطہ ارضی کے حصول کی جوت جگائی اور دو قومی نظریہ اجاگر ہوا۔ ہندو بنیا کا مسلمانوں کیخلاف یہ تعصب حاوی نہ ہوتا تو مذہبی سماجی اقتصادی آزادیوں کے ساتھ غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمانوں کی گزر بسر ہوتی رہتی جس کا قائداعظم نے 22 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ قومی کنونشن کے افتتاحی سیشن میں اپنے مفصل خطاب کے دوران حوالہ بھی دیا اور واضح طور پر باور کرایا تھا کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے رویے کے باعث ہمیں ایک وفاق کو رد کرنے کی راہ دکھائی ہے ورنہ ہمارے سامنے برطانیہ اور آئرلینڈ کی ایک یونین اور چیکوسلواکیہ اور پولینڈ کی ایک یونین کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ایک کنفیڈریشن کے طور پر کام کیا۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمان اور ہندو اپنی الگ الگ شناخت کے ساتھ کنفیڈریشن کی صورت میں ایک وفاق کے ماتحت رہ سکتے تھے مگر ہندو کے تعصب نے ہمیں ایک وفاق کے خیال کو رد کرنے کی راہ دکھا دی ہے اور اب ہم 1935ء کے ایکٹ کو سنوارنے اور بہتر بنانے کے خیال کو ترک کر رہے ہیں۔ قائداعظم نے اپنی اسی تقریر میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ ارضی کے حصول کی ضرورت کو اجاگر کیا، اسکے ممکنہ خدوخال پر روشنی ڈالی اور اگلے روز 23 مارچ کو قائداعظم کی اس تقریر کی بنیاد پر ہی شیربنگال مولوی فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی۔
قائداعظم نے اپنی اس تقریر میں واضح طور پر باور کرایا تھا کہ ہندو اور مسلمان الگ الگ فلسفہء مذہب رکھتے ہیں دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے اور دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں باہمی شادیاں نہیں ہوتیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے وہ دو الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر قائم ہیں۔ ان کا تصور حیات اور طرز حیات الگ الگ ہے اور یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف تاریخوں سے وجدان اور ولولہ حاصل کرتے ہیں۔ انکے مشاہیر الگ الگ ہیں اور ان کا تاریخی سرمایہ جدا جدا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے بھی گذشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ اوورسیز کنونشن کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم کے انہی فرمودات کا حوالہ دے کر دوقومی نظریئے کی حقانیت کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے بچوں کو دوقومی نظریہ اور قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ رکھنا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان زندہ باد کے پر جوش نعرے بھی لگوائے۔ انہوں نے پاکستان کے بدخواہ عناصر کو جذبہ حب الوطنی سے لبریز یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ان کی کوئی مکروہ سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ پاکستان دوقومی نظریئے کی مضبوط بنیاد پر کھڑا ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ بے شک یہی دو قومی نظریہ ہے جسے متعصب ہندو نے اپنے طرز عمل اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے اپنے رویوں سے پروان چڑھایا چنانچہ قائداعظم نے اپنی 22 مارچ 1940ء کی تقریر میں اس نظریئے کو اجاگر کیا اور یقینی طور پر پاکستان کا قیام بھی اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا۔ یہی دو قومی نظریہ آگے چل کر نظریہ پاکستان کے قالب میں ڈھلا۔ نظریہ پاکستان کا ماخذ بھی قائداعظم کی 22 مارچ 1940ء والی تقریر ہے اور جب اگلے روز 23 مارچ کو مسلم لیگ کے جاری سالانہ کنونشن میں قائداعظم نے قرارداد لاہور پیش ہونے کے بعد مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوان قائد حمید نظامی کو دوقومی نظریہ اور ممکنہ طور پر شروع ہونے والی تحریک پاکستان کیخلاف متعصب ہندو پریس کے زہریلے پراپیگنڈے کے توڑ کیلئے اخبار نکالنے کا کہا تو درحقیقت قائداعظم نے حمید نظامی کو دو قومی نظریے اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا کردار سونپا تھا۔ حمید نظامی کے بعد معمارِ نوائے وقت مجید نظامی نے بھی قائداعظم کے ودیعت کردہ اسی کردار کو نبھایا اور حرزجاں بنایا اور آج بھی محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی سربراہی میں ادارہ نوائے وقت پوری استقامت کے ساتھ ملک کی نظریاتی سرحدوں اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کا کردار نبھا رہا ہے جو پاکستان کے بدخواہ نام نہاد لبرل عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
مجھے آج یہ سطور لکھنے کی ضرورت بھی اسی قبیل کے ایک کالم نگار کے دو روز قبل ایک موقر اخبار میں شائع ہونے والے کالم کو پڑھ کر محسوس ہوئی جس میں انہوں نے اپنی منفی سوچ کے تحت قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے اسے اقلیتوں کے تحفظ والی سوچ سے تعبیر کیا اور ادارہ نوائے وقت اور محترم مجید نظامی کے بارے میں اپنی ذہنی گراوٹ کا اظہار کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کو ان کا ساختہ نظریہ قرار دیا۔ ان حضرت نے ہذیانی کیفیت میں یہ تک کہہ دیا کہ آج کے جدید ذہن کو آپ نظریہ پاکستان کا مخصوص ورژن نہیں بیچ سکتے۔ مجھے انکے یہ الفاظ پڑھ کر اس لئے زیادہ افسوس ہوا کہ انکے والدِ گرامی محترم عطاالحق قاسمی نے اپنی صحافت و کالم نگاری کا آغاز اسی ادارہ نوائے وقت سے وابستہ ہو کر کیا تھا جو محترم مجید نظامی کے جلو میں نظریہ پاکستان اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی اور نگہبانی کرتے رہے اور اس فیلڈ میں اپنا نام مقام بنا کر شہرت حاصل کی۔ وہ آج بھی محترم مجید نظامی کا تذکرہ حدِادب کے تقاضے نبھاتے ہوئے پورے احترام کے ساتھ کرتے ہیں اور وہ اپنے اس صاحبزادے کو بھی، جو آج ایڑیاں اٹھا کر اپنا قد اونچا کرنے اور اپنے والد محترم جیسا بالا مقام حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں، نظریہ پاکستان کی رکھوالی کی سوچ کے تحت ہی بطور کالم نگار نوائے وقت سے وابستہ کرانے کے خواہش مند تھے جس کا انہوں نے میرے ساتھ تذکرہ بھی کیا تھا۔ ان حضرت کو نوائے وقت اور محترم مجید نظامی کے بارے میں اپنی ذہنی گراوٹ کا اظہار کرنے سے پہلے اپنے والد محترم کی نوائے وقت کے ساتھ طویل وابستگی کا ہی خیال کرلینا چاہیے تھا۔ بہرحال یہ انکے اپنے ظرف کا معاملہ ہے۔اس قبیل کے عناصر قائداعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں11 اگست 1947ء کو کی گئی انکی تقریر کا ہی بطور خاص کیوں حوالہ دیتے ہیں، اس پر بھی آج مجھے ضرور بات کرنی ہے۔
یہ کم ظرف عناصر اس تقریر میں قائداعظم کے صرف ان الفاظ کو پکڑ کر بیٹھے ہیں جن میں انہوں نے آزاد و خودمختار پاکستان کے ممکنہ خدوخال سے متعلق اپنے ذہن میں موجود خاکے پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ ہندو مسلمان سکھ عیسائی اور کسی دوسری اقلیت کا ہی کیوں نہ ہو، صرف پاکستانی شہری ہوگا اور اس حیثیت میں ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ انہیں قائداعظم کی اس تقریر کے ابتدائیہ کے وہ الفاظ شاید سمجھ ہی نہیں آئے کہ ’’اس وقت میں کسی سوچی سمجھی بات کا اعلان تو نہیں کر سکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی وہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ میں پہلی اور سب سے اہم جو بات زور دیکر کہوں گا وہ یہ ہے کہ یاد رکھیئے! آپ خودمختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں کہ آپ نے فیصلے کس طرح کرنے ہیں‘‘۔ اس تناظر میں یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ قائداعظم نے بلا امتیاز تمام شہریوں کے حقوق والے الفاظ پاکستان کے سسٹم کے حوالے سے اپنے ذہن میں موجود خاکے کی بنیاد پر ادا کئے تھے کوئی حتمی فیصلہ صادر نہیں کیا تھا جبکہ انکی 22 مارچ 1940ء کی تقریر میں پوری صراحت کے ساتھ دو قومی نظریہ کے ماتحت قیام پاکستان کے مقاصد اجاگر کئے گئے تھے جو خالصتا ایک مسلم ریاست کی تشکیل پر مبنی تھے۔ قائداعظم پاکستان کے سسٹم کے اسی تصور کو قیام پاکستان کے بعد اپنی مختلف تقاریر اور انٹرویوز میں اجاگر کرتے رہے۔ جو مخصوص مقاصد والی سوچ کے حامل عناصر کے شوریدہ ذہنوں میں کبھی سما نہیں پاتا۔آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمانوں کو بھی مکمل مذہبی سماجی اقتصادی آزادی حاصل ہوتی اور انہیں متعصب ہندو کی جانب سے اچھوت کا درجہ نہ دیا جاتا تو انہیں اپنے لئے الگ خطہ ارضی کے حصول کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوتی۔ قائداعظم کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کے متذکرہ الفاظ درحقیقت اسکی جانب ہی اشارہ تھے کہ پاکستان میں کسی مذہبی سماجی اقتصادی آزادی پر ایسی کوئی قدغنیں نہیں ہوں گی جیسی متعصب ہندو نے مسلمانوں پر لگائی ہوئی تھیں۔ انکی یہ سوچ تو فتح مکہ کے بعد حضرت نبی آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہء حج کے ان زریں الفاظ سے ہی مطابقت رکھتی ہے کہ آج سے کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔ اس زریں سوچ میں آپ کو سیکولر ریاست کیلئے قائداعظم کی کسی خواہش کی جھلک کہاں سے نظر آگئی۔
قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں جن دوسرے نکات پر روشنی ڈالی، نظریہ پاکستان کا غلط رخ دکھانے والے عناصر ذرا ان پر بھی توجہ دے لیا کریں جن کا ریاست پاکستان میں اطلاق ضروری ہے۔ ان نکات کے تحت امن و امان کا قیام، کرپشن، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری کا خاتمہ اور مملکت پاکستان کو خوش و خرم اور خوشحال دیکھنا قائداعظم کا مطمع نظر تھا۔ بچگانہ سوچ کے حامل یہ عناصر قائداعظم کے ان نکات پر کیوں اپنے تجسس کا اظہار نہیں کرتے کہ مملکت پاکستان میں اب تک ان نکات کو عملی جامہ پہنانے کی نوبت کیوں نہیں آ پائی۔ ’’حضرت کالم نگار‘‘نے تو جوش اظہارِ تعصب میں اپنے بچپن کے زمانے کا تذکرہ کرتے ہوئے گلوکار غلام علی کا بھی غلط حوالہ دے دیا کیونکہ انکے بچپن میں غلام علی نہیں مہدی حسن 70ء کی دہائی کے آخر میں بھارت کے دورے پر گئے تھے اور وہاں نظریہ پاکستان کے حوالے سے ’’حضرت کالم نگار‘‘ جیسے خیالات کا ہی اظہار کیا تھا جس کی بالخصوص نوائے وقت نے گرفت کی تو پاکستان واپس لوٹتے ہی مہدی حسن سب سے پہلے نوائے وقت آفس میں آئے اور محترم مجید نظامی سے ملاقات کرکے بھارت میں کی گئی اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ بیدار سرمدی صاحب اس سارے منظر کے گواہ ہیں جو اس وقت نوائے وقت کے میگزین ایڈیٹر تھے۔ گلوکار غلام علی تو ان ’’حضرت کالم نگار‘‘ کے عہدِ شباب میں 2015ء میں بنارس گئے تھے اور وہاں ایک مندر میں بھجن گایا تھا۔ شاید یہ حضرت اپنے بچپنے کے زمانے سے ابھی تک باہر نہیں نکل پائے۔ ان کی تشفی کیلئے اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر محترم عطا الحق قاسمی کا احترام ملحوظ خاطر ہے۔ وما علینا الالبلاغ