کالم —— بریدہ سَر
ملک کاشف اعوان ™
bureedahe.sar@gmail.com
عورت اس کرّہ ارض کا ایک مظلوم کردار ہے —— یہ ایک ڈھکوسلا ہے —— ایسا شاید اس دنیا کے سو فیصد مرد سوچتے ہیں۔ بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جان بوجھ کر عورت کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ فیمینزم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عورتوں کے مسائل پر بات کرنے کے لیے نت نئے پلیٹ فارم بن رہے ہیں، بل پاس ہو رہے ہیں اور قانون بن رہے ہیں۔ عورت مارچ کے نام پر ان مظالم کو دنیا پر آشکار بھی کیا جا رہا ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ عورت بہت مضبوط ہو رہی ہے اور اب مردوں کو شاید دَب کر اور سر جھکا کر جینا پڑے گا مگر —— یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں عورت کو اپنی زندگی جینے کی آزادی نہیں ہے۔ جی ہاں! عورت ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم کردار ہے۔
ہماری اپنی عورتوں کا استحصال ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے اسی معاشرے میں تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ ہم کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیے سب اچھا ہے… سب اچھا ہے کی گردان کیے چلے جاتے ہیں۔ عورت پر ظلم ہمارے کوہستانِ نمک کی برساتی ندیوں کی مانند سالہا سال سے جاری و ساری ہے۔ ہمارے ہاں پوٹھوہار کی برساتی ندی بظاہر اوپر سے خشک اور ریتلی دکھائی دیتی ہے مگر اس اوپری خشک تہہ کے نیچے مسلسل پانی کا بہاو¿ جاری رہتا ہے۔ جہاں اس برساتی ندی کے پوشیدہ پانی کو موقع ملتا ہے، کوئی شگاف یا نرم تہہ میسر آتی ہے تو خشک سَوتوں کی مانند پھوٹ نکلتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے معاشرے میں ہماری اپنی عورتوں سے رَوا ظلم کی کہانی بھی ہے۔ اور یہ کہانی لکھنے والے کوئی غیر نہیں —— ہم خود ہی ہوتے ہیں… ان کے باپ، بھائی، شوہر، بیٹے… ہم سَب، ہم خود۔
ہمارے ہی ہاتھوں جاں گسل ہوتی ہماری اپنی یہ عورت اپنے اندر غم کا جوار بھاٹا دبائے بظاہر خشک اور چمکتی دکھائی دیتی ہے مگر اس کے اندر دکھ کی سیلن زَدہ ندی مسلسل بہتی رہتی ہے۔ پھر کہیں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ یہ پوشیدہ ندی چشمے کی مانند ابل پڑتی ہے، سب کی نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔ نظروں کے سامنے آتی ہے تو اہلِ جہاں کو اس کی مظلومیت ایک دو دن نظر آ جاتی ہے ورنہ بہہ تو یہ ندی روزِ اوّل سے رہی ہوتی ہے۔
شہر بھر کے اخباروں کی شہ سرخی تھی کہ دسمبر کے یخ بستہ موسم میں ایک خاتون دو بچوں سمیت تلہ گنگ کے ایک چھوٹے سے گاو¿ں بَھلو مار میں ڈیم کے سَرد پانیوں میں ڈوب مری ہے۔ شہر بھر کے لیے یہ ایک عام خبر تھی اور بھلو مار کے رہائشیوں کے یہ ایک المناک واقعہ۔ رہ گئے ہم تم —— تو ہماری بے حسی کے اَزلی لبادے کو دیمک نہ لگ سکی۔ یہ خاتون بھی ہمارے پدرسری معاشرے کے اسی اندھے موڑ کا شکار ہوئی جس کا شگار ہر گھر کی ہر عورت ہے مگر اک جبرِ مسلسل برداشت کرتی اپنے سینے پر صبر کی بھاری سِل رکھے کہیں اپنے باپ کی پگڑی، کہیں اپنے بھائی کی ناک، کہیں اپنے شوہر کی عزّت تو کہیں اپنے بچّوں کے بچپنے کی خاطر پل پل مرتی اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔
بھلو مار کی سرد اکڑی لاش زَدہ خبر بنی یہ 28 سالہ خاتون ہماری خانگی زندگی کے ایسے المیے کی شہ سرخی ہے جو ہر خاندان میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔ جبری شادی اور غیر موافق جوڑ کی صورت میں بزرگوں کے فیصلے کی بلّی چڑھتیں ہماری اپنی بہنیں بیٹیاں زندہ رہنا بھول جاتی ہیں۔ کہیں انہیں ماں کے دوپٹے یا باپ کی پگڑی کا احساس کرنا پڑتا ہے تو کہیں وَٹہ سَٹہ کا طوق گلے میں ڈالے اپنے بھائی کا گھر بچانے کی خاطر اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگانی پڑتی ہے۔ ان کی رضا مندی پوچھنے کا رَواج کہاں ہے بھلا۔ کبھی جانوروں کی منڈی میں بکنے آئی بے زبان بھیڑ بکریوں کی رضا مندی بھی کوئی پوچھا کرتا ہے؟ میرے ایک جاننے والے اپنی ہمشیرہ کی شادی کا دعوت نامہ مجھے دینے آئے تو میرے پوچھنے پر بتایا کہ اپنے دَادپوترے سے کر رہے ہیں اس کی شادی۔ بہن کی رضا مندی پوچھنے سے متعلق سوال پر سینہ پھلا فخر سے گویا ہوئے —— “ہم اتنے بے غیرت نہیں ہوئے ابھی کہ دھی بہن سے اس کی مرضی پوچھیں۔” گویا بہن بیٹی سے اس کی رضا مندی پوچھنا بے غیرتی کی علامت ہے۔
دسمبر کی سَرد ٹھٹھرتی رات کو ڈیم کے برف ہوتے پانیوں میں برف بنتے دو ننھے دماغوں نے ضرور سوچا ہو گا کہ اگر شادی کرتے سَمے ہماری ماں سے رضا مندی پوچھ لی جاتی یا پھر اسے باعزّت طریقے سے گلے کا طَوق بنے رشتے سے پیچھا چھڑانے کی اجازت دے دی جاتی تو ہم بھی اپنی پوری زندگی جی پاتے۔ اسلام تو آسانیاں بانٹنے کا دین ہے۔ اسلام نے تو عورت کو انسانیت کے دَرجے پر فائز کیا تھا۔ اسلام نے تو ناچاقی کی صورت میں زندگیاں برباد کرنے کی بجائے باعزّت طریقے سے علیحدگی کا اختیار دیا تھا۔ ہم جو بزعمِ خود اپنی عورتوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے والے ان کے مالک بنے ہوئے ہوتے ہیں اور با آوازِ بلند کانوں کو ہاتھ لگاتے اپنے ہر فیصلے پر شریعتِ محمدی کی مہر لگاتے خود کو وقت کا نعمان بن ثابت گردانتے ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک دیتے ہیں یا ان کی خانگی زندگی میں چپقلش اور ناچاقی کو دیکھتے ہوئے بھی انہیں گھورتے ہوئے کہتے ہیں کہ طلاق اللہ کو سخت نا پسند ہے۔ خبردار جو علیحدگی کا سوچا تو —— اس گھر سے تمہارا جنازہ اٹھنا چاہئیے۔ اس وقت ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس شریعتِ محمّدی کا نفاذ کرنے والی دونوں جہانوں کی پاک اور مقدّس شخصیّت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس ان کے چہیتے خطیب حضرت قیس بن ثابت کی بیوی حاضر ہوئی اور اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انہیں کوئی نصیحت و وعظ نہیں فرمایا بلکہ انہیں حق مہر واپس کرنے کا کہا اور ان کی علیحدگی کروا دی۔ ہم جن کا کلمہ پڑھتے ہیں اگر انہوں نے عورتوں کو یہ آسانی دی ہے تو پھر ہم اپنی عورتوں کو ڈیم کے سرد پانیوں میں چھلانگ لگانے کے لیے کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
ہمارے ہاں مشرقیّت اسی چیز کا نام ہے کہ عورت کو جس کے سَر منڈھ دیا جائے وہ ساری عمر اسی کھونٹے سے بندھی رہے۔ چاہے وہ اسے سخت نا پسند کرتی ہو، وہ مرد اسے زَد و کوب کرتا رہے، چرسی شرابی جواری زانی ہو یا چاہے چور اچکا و ڈکیت ہو —— اس عورت کو تا عمر اسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہو گی۔ واپسی کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ خود ہم مرد ہر قدم پر چار چار شادیوں کا رونا روتے رہتے ہیں مگر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری عورتوں کے لیے بھی عقدِ ثانی کا رستہ کھلا ہے۔ مغرب کو تو خیر ہم در خوئے اعتنا ہی نہیں سمجھتے مگر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خود صحابہ کبّار نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کی اور انہیں طلاق دی۔ اسامہ بن زید، عثمان بن عفّان، امام حسن مجتبیٰ (رضوان اللہ اجمعین) حتّٰی کہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا سیّدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دینا (بعد میں رجوع کر لیا گیا تھا) اسلام کے سب سے سنہری دور کے واقعات نہیں ہیں؟ کیا صحابہ کرام کا یہ فعل ہمارے لیے دلیل نہیں ہے کہ جہاں آپس میں ذہنی موافقت نہ ہو وہاں راستے جدا کر لیے جائیں۔ ایک ہی کھونٹے سے تو فقط جانور ہی باندھے جاتے ہیں۔ عورتیں تو اشرف المخلوقات ہیں۔ انہیں بھی زندہ رہنے کا حق ملنا چاہئیے۔
نکاح و طلاق تو خیر بہت آگے کی باتیں ہیں۔ ہم تو چھوٹی چھوٹی معمولی باتوں پر اپنی عورتوں کی زندگی اجیرن کر دینے والے لوگ ہیں۔ عورتوں کی پیدائش پر باقاعدہ افسوس کا اظہار کرنے کا رواج ابھی ایک عشرہ ہوا ختم ہوا ہے۔ عورت کی تعلیم و تربیت پر ناک کٹ جانا یا عورتوں کی اونچی آواز میں گفتگو کرنے و قہقہہ لگانے پر سیخ پا ہو جانا تو آج بھی اسی شدّ و مَد کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری عورتیں اپنی پسند کا کھا نہیں سکتیں، پہن اَوڑھ نہیں سکتیں، دیکھ پرکھ نہیں سکتیں، گنگنا نہیں سکتیں، لکھ نہیں سکتیں اور اظہار نہیں کر سکتیں۔ یہ غیر مرئی ظلم رَوا رکھنے والے سب کے سب باپ، بھائی اور شوہر نہیں ہوتے بلکہ بیٹے اور پوتے و نواسے بھی اپنا حصّہ بقدر جثہ پورا ڈالتے ہیں۔ میں ایک انہتر سالہ بارعب خاتون کی ڈبڈباتی آنکھوں سے امڈتی بے بسی کو نہیں بھلا سکتا جب وہ خودکلامی کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں —— “دِل کب نہیں کرتا میرا۔ دل کی مگر کون سنتا ہے۔ اب اس عمر میں بیٹوں اور پوتوں کے ہاتھوں رسوا نہیں ہونا چاہتی کیونکہ انہیں یہ پسند نہیں ہے۔ اب اس عمر میں ایک نیا گھر کہاں سے کھوجنے جاو¿ں میں۔ دل کا کیا ہے۔ دل کو مَار لیا ہے میں نے۔” ایک ماں انہتر سالہ زندگی گزار کر بھی اپنے دل کی نہیں مان سکتی۔ جو وہ چاہتی ہے اس کا اظہار نہیں کر سکتی۔ پہلے باپ، بھائی اور شوہر تھے تو اب بیٹے اور پوتے اس کے حاکم ہیں۔ میں سر جھکائے سوچ رہا تھا کہ یہی اگر مردانگی ہے کہ ہماری ماں کو قدم قدم پر اپنے دل کو مَارنا پڑے تو لَکھ لعنت ہے ہماری اس مَردانگی پر۔
ہم اکثر بے معنی حرکتیں اور کام کرتے ہیں کہ ہمارا دل چاہ رہا ہوتا ہے۔ اپنی عورتوں کو بھی ایسی بے معنی حرکتیں کرنے دیا کریں کہ ان کے پاس بھی تو دِل ہی ہوتا ہے۔ خدارا! اپنی عورتوں کو جینے دیں۔