اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
ملک میں سیاسی بحران کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ بحران ہے کیا؟ اس کے اسباب میں کس کا کتنا کردار ہے؟ کیا سب ہی سیاستدان اس کے ذمہ دار ہیں یا اس میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی کوئی رول ہے؟آج یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بحران کے اسباب سامنے آسکیں اور ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔
واضح رہے کہ اس سیاسی ”طلاطم“ نے ہر شخص کو پریشان کر رکھا ہے۔ ان حالات میں غریب افراد کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو گئی ہے۔ ماہر معاشیات کے مطابق سیاسی کلچر میں ہلچل اور افراتفری ہو تو معیشت کا بگڑنا لازمی امر ہے۔ سیاستدان خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس سیاسی افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ جبکہ بعض سیاستدان اور تجزیہ کار اس کا ذمہ دار عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہراتے ہیں۔
بظاہر اس وقت ملکی معیشت جس ڈگر پر ہے یہ صحیح سمت کی نشاندہی کرتی ہے لیکن پی ٹی آئی نے 2022ءمیں عدم اعتماد کی قرارداد کے بعد ملک میں افراتفری، انتشار اور خلفشار کا جو ماحول پیدا کر رکھا ہے وہ کسی طرح بھی درست اور لائق تحسین نہیں۔
بانی پی ٹی آئی ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ سے جیل میں ہیں۔دنوں کا حساب کریں تو یہ 500سے زیادہ دن بنتے ہیں۔ ان پانچ سو دنوں میں پی ٹی آئی کو ابھی تک کوئی ایسا لیڈر میسر نہیں آیا جو پوری جماعت کو لے کر آگے چل سکے۔ اگرچہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی عدم دستیابی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے چیئرمین شپ کے لیے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد پارٹی کی چیئرمین شپ بیرسٹر گوہر خاں کو سونپ دی ہے۔ لیکن شایداُن میں وہ قائدانہ صلاحیتیں نہیں جو کسی سیاسی لیڈر میں ہونی چاہئیں۔اس لیے جماعت میں بحران کی کیفیت ہے اور پی ٹی آئی کا ہر لیڈر اپنا ہی راگ الاپ رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر جب خود یہ کہتے ہوں کہ وہ بانی کی ہدایات کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے تو ایسے میں پارٹی کے لیے کیونکر لیڈنگ رول ادا کر سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت پی ٹی آئی پر وکلاءکا قبضہ ہے جو مختلف پارٹی عہدوں پر براجمان ہیں۔ اکثر بیان وہی جاری کرتے ہیں۔ شیر افضل مروت تو بیان بازی میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، وہ جو کچھ کہہ جاتے ہیں بیرسٹر گوہر کی ذات کے لیے ایسا کہنا کسی طرح بھی انہیں زیب نہیں دیتا۔ اُن کے نیگیٹو ریمارکس سے پارٹی میں انتشار کا تاثر بڑھتا ہے۔ ایسے حالات میں جب پارٹی پر سخت بحرانی کیفیت ہے، مخالفین کو اس تناظر میں نیگیٹو بات کرنے اور تنقید کا موقع مل جاتا ہے۔
تاہم یہ بات طے ہے کہ پارٹی میں اس طرح کے طرز عمل اور انداز گفتگو سے کسی اور کا نہیں، پارٹی کا ہی نقصان ہو رہا ہے۔ پارٹی میں وکیلوں کے غلبے کے بعد سیاست کے اصل چہرے پارٹی سے غائب ہو گئے ہیں۔ رہنماﺅں پر مقدمات کی بھرمار ہے۔ گرفتاریوں اور کارکنوں کے خلاف سخت کریک ڈاﺅن نے پوری جماعت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اُن کے حوصلے پست کر دئیے ہیں۔ اسی لیے پی ٹی آئی سیاست سے زیادہ اب انتشار کی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اس تاثر میں کافی حد تک صداقت بھی ہے کہ پی ٹی آئی جب سے اقتدار سے الگ ہوئی ہے اُس نے سیاست میں مار دھاڑ کو فروغ دیا ہے۔ 9مئی کے پرتشدد واقعات نے پی ٹی آئی کے سیاسی امیج کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ واقعات نہ ہوتے تو شاید پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کا یہ حال نہ ہوتا۔ جس کا سامنا انہیں آج ہے اور جس قسم کی صورت حال سے وہ گزر رہے ہیں۔
ایک عام خیال ہے کہ سیاسی صورت حال کو بگاڑنے میں جہاں پی ٹی آئی کا اپنا رول ہے وہاں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی بعض تجزیہ کار اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
بات سچ بھی ہے کہ اس ساری صورت حال میں جہاں سیاستدانوں کے حصّے میں بدنامیاں آئی ہیں وہاں اسی ”بدنامی“ کے مہیب سائے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا پیچھا کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ جو کسی طرح بھی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے مناسب اور اچھی بات نہیں۔ عدلیہ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی کیسوں میں سیاسی فیصلے کرتی ہے، چند جج صاحبان کو اشارے کنایوں اور بعض کا نام لے کر بھی ایسے فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جس سے جانبداری کا تاثر ابھرتا ہے اور عدلیہ کی بدنامی ہوتی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی سیاسی رول نہیں ہونا چاہیے۔ بات درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو غیر جانبدار ہی رہنا چاہیے اور سیاسی جھمیلوں میں ہرگز نہیں پڑنا چاہیے۔ کیونکہ ہر فوجی افسر اور جوان نے اس بات کا حلف اٹھا رکھا ہے کہ سیاست میں اُن کا کوئی رول نہیں ہو گا۔
اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آرایک بار نہیں، کئی بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سیاسی لوگ اپنے معاملات خود دیکھیں۔ بات چیت کریں تاکہ سیاسی معاملات کا سیاسی حل نکل سکے۔ لیکن بانی پی ٹی آئی جیل میں بضد تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ کسی سے بات چیت نہیں کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے انکار کے بعد بانی پی ٹی آئی نے اب اپنی جماعت کی ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کو اب حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ تاہم حکومت مذاکرات کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ اگرچہ پہلے حکومت بات چیت کے لیے تیار تھی جبکہ بانی پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ حکومت یا اُس کی کسی کمیٹی سے بات چیت کے لیے تیار نہیں تھے۔ اب تیار ہو ئے ہیں تو حکومت اُن کی پیشکش کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ حکومت کا یہ مستحسن رویہ نہیں۔ حالات کو اعتدال پر لانے کے لیے ہمیشہ حکومت ہی پہل کرتی ہے۔ اگر ماضی میں پی ٹی آئی نادانی کرتی رہی ہے، اُس کا رویہ مذاکرات کے حوالے سے غیر معقول رہا ہے تو کم از کم حکومت کو ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔
اطلاعات آ رہی ہیں کہ اسپیکر ایاز صادق کا دفتر اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ کوشش میں ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کر سکے۔ بات چیت ہو گی تو سیاسی استحکام بھی آئے گا۔ معیشت میں آج ہم جو بہتری دیکھ رہے ہیں وہ بہتری مزید آگے کی طرف جائے گی۔
چونکہ معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے حکومت کو بالکل بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی ماضی میں جو کچھ کرتی رہی ہے اُسے بھول کر حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرے، تبھی ملک میں امن آئے گا۔ نئے چراغ جلیں گے اور معیشت مزید استحکام کی طرف گامزن ہو گی۔
پی ٹی آئی کو بھی اپنے ”کردار“ پر غور کرنا چاہیے وہ خود اپنے معاملات کی تصحیح نہیں کرے گی تو ہرگز بھی ابتلاءکے اس دور سے باہر نہیں نکل سکے گی۔ یہ سنبھلنے کا وقت ہے، ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پی ٹی آئی کے مذاکرات کے حوالے سے دو مطالبات ایسے ہیں جسے شاید نہ مانا جائے۔ ایک مطالبہ یہ سامنے آیا ہے کہ اُن کا مینڈیٹ انہیں واپس کیا جائے جبکہ دوسرے مطالبے میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی شامل ہے۔ حکومت کے لیے یہ دونوں مطالبے ناقابل قبول ہیں اس لیے مذاکرات میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کے لیے اپنے ان دونوں مطالبات سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔ وقت اور حالات کو بہتر بنانے کے لےے مدلل دلیل یہی ہے کہ 2028ء کے الیکشن کا انتظار کریں۔ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتریںاور مقابلہ کریں۔ سیاست میں تشدد اور مار دھاڑ کا راستہ بیکار کا راستہ ہے۔ اس سے بچیں۔ اس میں خود اُن کا اپنا ہی فائدہ ہے۔