خواب خواب اندیشے

        لبنیٰ صفدر

شاعر خوابوں کے ریشم سے تانے بانے بنتا ہے۔ صندلیں تخلیات سے اس ریشم میں اپنے جذبوں کا رنگ بھرتا ہے۔ اُداس سانس کے ساتھ یہ دیا بجھتا نہیں اور روشن ہو جاتا ہے۔ یہ روشنی شاعر اور اُس کے ماحول تک محدود نہیں رہتی اِردگرد کی فضا کو بھی روشن اور معطر کر دیتی ہے۔ لطیف جذبوں کو پیشے کی سختیاں متاثر نہیں کر سکتیں اس لیے یہ سوچنا، یہ بات کرنا اور بحث کرنا بھی فضول ہے کہ فلاں شخص ڈاکٹری یا وکالت جیسے پیشے کے ساتھ شاعری کر رہا ہے۔ پیشے کا تعلق خارجی ضروریات سے ہے۔ شاعری داخلی واردات کا ردِعمل ہے۔ حال ہی میں مجھے ”خواب خواب اندیشے“ پڑھنے کا موقع ملا۔ شمیم آذر کی جذبوں سے بھرپور شاعری نے مجھے چونکا دیا۔ وہ نہ صرف اپنے شعبہ کے ساتھ ایک کمٹمنٹ کو نبھا رہے ہیں۔ بلکہ زندگی کے دوسرے پہلوﺅں کا بھی بغور مشاہدہ کرتے اور صفحہ قرطاس پر خوبصورتی سے بکھیر دیتے ہیں۔ ولی عالم شاہین نے ان کی شاعری پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھا ہے کہ ”شمیم آذر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اپنے شب و روز سے عاشقانہ انداز میں ٹوٹ کر محبت بھی کی ہے۔ اُن کے ہاں عشق کی ابتدائی واردات کی بازگشت، شہر اور وطن سے محبت، وطن کی بربادی، شکست و ریخت اور کشت و خون کے مظاہروں کے متوازی اقدار کی پامالی کا نوحہ ایک زیریں لہر کی طرح موجود ہے۔ شاعری میں داخلی کرب کا سراغ ملتا ہے۔ میں ولی عالم شاہین کے اس تبصرے سے متفق ہوں۔ ذرا ان اشعار میں قلبی واردات کی کیفیت کا اندازہ لگائیے:
اب وہ زنجیر رفاقت بھی نہیں ہے شاید
اور پھر اس پہ ندامت بھی نہیں ہے شاید
کتاب میں ہجر و وصال اور کرب کی نمایاں کیفیت اشعار میں آپ کو نظر آئے گی۔ اگرچہ اُردو شاعری کا یہ خاص موضوع ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہجر و ہجرت کے دکھ بھی الفاظ کا روپ دھار گئے ہیں۔ وطن سے دور رہ کر وطن کی مٹی سے محبت کی سوندھی سوندھی خوشبو غزلوں کے پیراہن سے اُٹھتی ہوئی محسوس کی جا سکتی ہے۔ جدائی اور نارسائی کا دکھ خود بول رہا ہے کہ پردیس آنے والوں کے دل وہیں پر دھڑکتے ہیں جہاں پر اُن کی خاک کو نمو ملی تھی۔ دوریاں اور مجبوریاں دھیرے دھیرے سلگتی رہنے والی اس آنچ کو بڑھاتی رہتی ہیں۔
اک شہر تھا بسا ہوا خواب و خیال میں
گم ہو کے رہ گیا ہے کسی ماہ و سال میں
گاﺅں کی وہ ندی وہ درختوںکے سلسلے
مبہم سے کچھ نقوش خیالوں کے جال میں
اس جیسے بے شمار اشعار کو تکلم کا ذریعہ بنا کر شاعر اس غم کو اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ شمیم آذر کی شاعری میں مجھے اس بات کا بھی احساس ہوا کہ وہ ماضی اور ماضی سے جڑی ہر چیز کو سینے سے لگا کر اور سینت سینت کر رکھنے والے لوگوں میں شامل ہیں۔ وہ کسی یاد کو پیچھے دفن کر کے نہیں آئے بلکہ قیمتی سامان کی طرح اپنے ساتھ رکھ کر محو سفر ہیں۔
جگمگاتے ہیں در و بام مہکتی ہیں رُتیں
کون گزرا تری مانند اِدھر سے اب کے
پھر کہیں کہیں جذبات و احساسات کروٹ بدل کر ایک نئے انداز سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ شاکی دکھائی دیتے ہیں بھول جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ خود سے باتیں کرتی ایک غزل جس میں وہ اپنے آپ کو یاد آوری کروا رہے ہیں کہ وہ ماضی کے دکھ سے نکلنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں:
اب وہ زنجیر رفاقت بھی نہیں ہے شاید
اور پھر اس پہ ندامت بھی نہیں ہے شاید
کتاب میں غزلوں کی نسبت نظموں کی تعداد زیادہ ہے۔ جو شاعر کے صنفی رجحان کا پتہ دیتی ہے۔ ”کشمکش“، ”میں آدم ہوں“، ”ہمیں مہمان سمجھو“، ”رفاقتوں کے عظیم لمحے“، ”آخری شب،“ ”ایک لمحہ“، ”محو خیال“، ”اندیشے“، ”اصول سفر“ اور ایسی بہت سی خوبصورت نظمیں آپ کو ضرور اپنی جانب متوجہ کریں گی۔ جابجا فردیات بھی آپ کے ذوقِ سخن کی تسکین کرتی ہیں۔ شمیم آذر نے اپنے بارے میں کتاب کے آخر میں لکھا ہے کہ
”میرے آباﺅ اجداد کا تعلق یوپی کے شہر گورکھپور سے تھا۔ پہلی ہجرت کے بعد ابتدائی سولہ برس مشرقی پاکستان دوسری ہجرت کے بعد 28 برس کراچی تیسری ہجرت کے بعد 16 برس ملائیشیا اور اب تاحال کینیڈا میں مقیم ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ بھلا شاعری اور مسیحائی کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ شمیم آذر کہتے ہیںکہ عام خیال کے برخلاف مجھے شخصیت کی تشکیل میں مسیحائی اور جراحی کے عملیاتی امتزاج نے میری شاعری کی تخلیاتی دنیا کو اور وسیع کر دیا۔
مری نمو بھی اسی سے میرا وجود بھی یہ
یہ سرزمین مگر پھر بھی اجنبی کیوں ہے
میں وہی ہوں کہ جسے تو نے خدائی دی تھی
پھر مجھے واقفِ اسرارِ دو عالم کر دے

ای پیپر دی نیشن