نوائے وقت اور پاکستان

ہندو ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو زیر اثر رکھنے کیلئے مشترکہ جہدوجہد کی باتیں کرتے تھے تاکہ انگریزوں سے چھٹکارا پانے اور ہندوستان کو آزاد کرانے کیلئے مسلمانوں کو استعمال کیا جا سکے پھر آزادی کے بعد ان کا اصل روپ سامنے آتا اور مسلمان ہندوؤں کے زیر اثر زندہ رہتے لیکن اسکے برعکس قائد اعظم ایسا ملک چاہتے تھے جس میں اللہ تعالیٰ اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین پوری طرح مکمل نافد کر سکیں۔ یہی شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا خواب تھا جو انھوں نے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ 23 مارچ 1940ء ایک تاریخ ساز دن تھا جب برصغیر ہندو پاک کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں 23 مارچ 1940ء کے کنونشن میں قرار داد لاہور منظور کی اور پنجاب ،سندھ ،سرحد ،بلوچستان اور کشمیر کے مسلمانوں نے اپنی منزل کا تعین کیا۔ قرار داد لاہور جسے قرار داد پاکستان کہا جاتا ہے اتفاق رائے سے منظور کی گئی اس دور میں پورے ہندو ستان میں ہندو پریس چھایا ہوا تھا۔ مسلمان میڈیا نہ ہونے کے برابر تھا ہندو پاکستان بننے کی جہدوجہد کو ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہے تھے پروپیگنڈا کے ذریعے تابڑ توڑ حملے کر رہیتھے۔ مسلمانوں کا میڈیا میں کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ قائد اعظم نے بڑے غور و خوض ،سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما حمید نظامی کا انتخاب کیا تاکہ پریس میں مسلمانوں کی ترجمانی ہو سکے۔ حمید نظامی نے اپنے قائد کے حکم پر 23 مارچ 1940ء کو پندرہ روز ہ نوائے وقت کا اجراء کیا۔ بعد ازاں یہ ہفت روزہ اور پھر 19 جولائی 1944ء کو باضابطہ طور پر روزنامہ نوائے وقت کی اشاعت شروع کی۔ قرارداد پاکستان کی منظور ی اور نوائے وقت کی اشاعت تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ قائد اعظم کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی نے نوائے وقت اور حمید نظامی کا حوصلہ بلند کیا۔ نوائے وقت کے ذریعے مسلم لیگ کا پیغام مسلمانوں کے گھر گھر میں پہنچا ہندوؤں کی سر پر ستی میں چلنے والے اخبار جب بھی قائد اعظم اور مسلم لیگ کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے نوائے وقت فوری موثر جواب دیتا۔ حمید نظامی اور نوائے وقت قائد کے ترجمان بن کے سامنے آئے۔ جرأت اوراخلاص سے ہندو پریس کا مقابلہ کیا۔ انھوں قائد کے سپاہی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔ کانگریسی رہنماؤں کی ریشہ دوانیوں اور دوغلی سیاست کو بے نقاب کیا جس سے وہ بوکھلا گئے۔ نوائے وقت نے اپنے اداریوں اور رپورٹس کے ذریعے مسلمانوں اور انگریزوں کو باور کرایا کہ مسلمان علیحدہ قوم ہیں ان کا رہنا سہنا ،مذہب، ثقافت ،زبان ،طرز زندگی، رسم و رواج ،ہندووں سے بالکل مختلف ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی آزاد مملکت ہی ان کا روشن مستقبل ہے۔ نوائے وقت نے انگریزوں اور کانگریس کی مسلمان دشمن پالیسیوں کو اجاگر کیا۔ انگریزوں نے مسلمان مغل حکمرانوں سے اقتدار چھینا تھا وہ کسی صورت مسلمانوں کی علیحدہ مملکت اور ہندوستان کا بٹوارہ نہیں چاہتے تھے۔ حمید نظامی نے اپنے اخبار کے ذریعے مسلمانوں کو ایک درست سمت دی اور یہ شعور ہی آزاد ی حاصل کرنے کا سبب بنا تحریک پاکستان کے دوران حمید نظامی کا کردار ایک ذمے دار رہنما سے کم نہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اب تک نوائے وقت دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی پاسداری کر رہا ہے۔ 1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لاء لگایا تو حمید نظامی نے حق اور سچ کا ساتھ دیا۔ انکے پیش نظر قائد اعظم کا اسلامی جمہوریت کا نظام ہی تھا جس میں پاکستان کی بقا تھی کیونکہ آج بھی جو ملک میں جمہوریت نظر آرہی یہ انکے پیش نظر نہ تھی۔ عظیم مقصد کیلئے انھیں مشکلات ،رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے صحافت کو وہ مقام دیا جو قائد کا خواب تھا۔ جب جنرل ایوب خان نے آمرانہ قوانین کے ذریعے پریس کا گلا بند کر دیا تو حمید نظامی ڈٹ گئے اس گھٹن کی وجہ سے وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئے اور 25 فروری 1962ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انھوں اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے بھائی مجید نظامی کو انگلستان سے بلایا جو وہاں تعلیم حاصل کر رھے تھے۔ نوائے وقت انکے حوالے کیا اور اپنے عظیم مشن کی تکمیل کا حکم دیا۔ مجید نظامی نے قائد اعظم اور حمید نظامی کا جانشین ہونے کا حق ادا کیا اور اپنی ڈیوٹی نبھائی۔ اپنے قلم اور زبان کے ذریعہ فوجی اور سول ڈکیٹروں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گے۔ وہ بڑا کٹھن وقت تھا قائد کے سہنری اصول اور بھائی کے مشن کو جاری رکھنے میں بڑی مشکلات آئیں لیکن جواں مردی سے مقابلہ کیا کوئی طاقت انہیں جھکا سکی نہ خرید سکی۔ انکے اخبارات کے اداریے حکمرانوں کو ہوش دلاتے رہے۔ وہ اسلامی جمہور یت کا درس دیتے رہے لیکن افسوس حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی جس کا نتیجہ سامنے ہے۔ 77سال گزرنے کے بعد بھی ہم بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ قائد اعظم کا سبق ہم نے بھلا دیا۔ مجید نظامی اور نوائے وقت نے کشمیر یوں کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ انکے ہو تے ہوئے کسی حکمران کو مسئلہ کشمیر پر کمزوری دکھانے کی جرات نہ ہوئی۔ انھوں نے حکومتوں پر واضح کیا کہ بھارت سے دوستی تب ہو سکتی ہے جب وہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں کے مطابق حل کرے۔ فلسطین اور کشمیر پر انکا واضح موقف تھا۔ مجید نظامی لگی لپٹی بغیر کھل کر بات کرتے تھے، نظریہ پاکستان اور کشمیر پر حکومتوں کا قبلہ درست رکھتے تھے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں بھی محترم مجید نظامی کا بڑا حصہ ہے۔ نوائے وقت آج بھی محترمہ رمیزہ نظامی کی قیادت میں اپنا جاندار کردار ادا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ حمید نظامی اور مجید نظامی کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔

ای پیپر دی نیشن