حمید نظامی اور ان کا نوائے وقت قائد اعظم کی آواز اور پاکستان کی جدوجہد کا ہر اول دستہ۔ 

شبانہ ایاز

shabanaayazpak@gmail.com
"اگر میری قوم میں حمید نظامی جیسے باشعور نوجوان ہوں تو میری قوم کا مستقبل بہت تابناک ہے،‘‘
 قائد آعظم نے یہ بات آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک پاکستان کی جدوجہد زور پکڑ رہی تھی۔
حمید نظامی 
 3 اکتوبر 1915 کو سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے، جو کہ فیصل آباد سے دور ایک ریلوے جنکشن ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے انگریزی میں ماسٹرز کیا۔ وہ انتہائی خوددار آدمی تھے اور ان کی ابتدائی زندگی بڑی جدوجہد سے عبارت تھی۔
جب وہ اسلامیہ کالج لاہور میں طالب علم تھے، انہوں نے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے منتخب صدر بنے۔ ایک طالب علم رہنما اور نڈر صحافی کے طور پر اپنے متحرک کردار کی وجہ سے، وہ قائداعظم کے پسندیدہ نوجوان تھے۔ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے صحافت کو اپنے کیریئر کے طور پر چنا اور پنجاب حکومت کی پریس برانچ میں مختصر وقت کے لیے کام کیا۔ پنجاب حکومت کے زیر اہتمام ایک سکیم کے تحت تربیت حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے کچھ عرصہ نیشنل کانگریس میں ، ڈاکٹر ستیہ پال کے ساتھ ایک اردو روزنامے میں بھی کام کیا۔
1940 کا سال حمید نظامی کی زندگی میں ایک اہم مقام کی حیثیت رکھتا تھا جب انہوں نے قائد اعظم کے حکم کی تعمیل میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ایک اخبار کے مدیر کے طور پر 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد، نوائے وقت کی پندرہ روزہ اشاعت کی بنیاد رکھ کر کیا۔حمید نظامی صحافت میں نئے نہیں تھے۔انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی،ساتھ ساتھ انہوں نے خبریں جمع کرنے اور رپورٹنگ کرنے کا ہنر اس وقت حاصل کیا جب وہ ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا میں ایک نوجوان رپورٹر کے طور پر ملازم تھے۔ مسلمانوں کی ملکیت اورینٹ نیوز آف انڈیا کے مینیجر بننے سے پہلے وہ ایک سیاسی جریدے ’ساربان‘ کے شریک مدیر بھی رہے۔
 عصری مسائل سے نمٹنے کے لیے حمید نظامی کے اندازِ فکر کو، خواہ وہ سیاسی، سماجی یا معاشی، ہمیشہ درست اور واضح ہونے کی وجہ سے سراہا گیا۔ وہ فرسودہ تصورات سے نکلنے اور درست اور عقلی نظریات کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وہ چیز تھی جو ان کے آخری ایام تک ان کے طرز تحریر میں مزید ترقی کرتی رہی۔ ملک خضر حیات ٹوانہ کو مسلم لیگ سے نکالنے کے بعد 1944ء میں جب قائد اعظم لاہور تشریف لائے تو انہوں نے حمید نظامی سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ وہ لاہور سے ایک ایسا اخبار شائع کریں جو مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے خیالات کی 100 فیصد نمائندگی کرے۔روزنامہ نوائے وقت 22 جولائی 1944 کو قائداعظم کی خواہش، دعا اور پیغام کے ساتھ نکلا۔ حمید نظامی نے نوائے وقت کو اپنی تمام تر حدود و قیود کے ساتھ مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے لیے ایک طاقتور آواز والا اخبار بنایا۔
 حمید نظامی اور ان کا نوائے وقت پاکستان کی جدوجہد کے صف اول دستے میں شامل ہوئے۔ حمید نظامی 1942 میں دوسری بار پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ 15 دسمبر 1942 کو اپنے پندرہ روزہ نوائے وقت کو ہفتہ وار میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جولائی 1944 میں نوائے وقت کو روزنامہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ حمید نظامی اور نوائے وقت دونوں کو حکومت وقت کے قہر کا تقریباً تین سال تک،سامنا کرنا پڑا جب تک خضر حیات ٹوانہ کی حکومت گر نہیں گئی، ’’نوائے وقت‘‘ کو کوئی سرکاری اشتہار نہیں دیا گیا۔ 
 آزادی کے بعد بھی میاں ممتاز دولتانہ نے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کے صرف پانچ دن بعد نوائے وقت کو مجبور کرنے کی کوشش کی۔ جب حمید نظامی نے جھکنے اور بکنے سے انکار کیا، حکومت نے اخبار کا اعلامیہ منسوخ کر دیا، یہی نہیں، کسی اور کو خفیہ طور پر نوائے وقت شائع کرنے کی ترغیب دی گئی۔ یہ کھلی جنگ تھی، آخر کار جون 1952 میں حکومت نے ہار مان لی اور ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنا کام دوبارہ شروع کیا۔ اس سارے معاملے نے حمید نظامی کے جذبے کو کبھی پست نہیں ہونے دیا۔
حمید نظامی حقیقی معنوں میں یہ سمجھتے تھے کہ مخالفین سے نمٹنے کے لئے قلم کی طاقت بندوق کی طاقت سے زیادہ ہے، خاص طور پر ان دنوں جب ہر مسلمان کسی نہ کسی طرح، تحریک پاکستان میں شامل تھا۔ حمید نظامی نے اپنے قلم کا استعمال بلا خوف و جھجھک کیا۔ وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بے خوف تھے۔ حمید نظامی کا تعلق صحافیوں کی اس فصل سے تھا جو اس دور میں پیدا ہوئے تھے جب صحافت کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا تھا اور اس پیشے کو مقدس سمجھا جاتا تھا، جس میں اصولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ، جب حمید نظامی نے یہ قدم اٹھایا، تو انہیں پہلے ہی خوب اندازہ تھا کہ انہیں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ جانتے تھے کہ قائداعظم کیا چاہتے ہیں۔، کیونکہ وہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم رکن رہے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ کے پروگرام کو مسلمانوں میں پھیلانے اور اسے مقبول بنانے کے لیے بہت قربانیاں دی تھیں۔
 حمید نظامی اور نوائے وقت نے پاکستان کی جدوجہد میں جو اہم کردار ادا کیا اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے مسلمانوں کے ذہنوں میں ان تمام نظریات کو مسترد کروا دیا جو پاکستان کے تصور کے متضاد تھے۔ اور ایسے مذموم خیالات کو آگے بڑھانے والوں کا مقابلہ حمید نظامی نے قلم کی طاقت سے کیا۔حمید نظامی پاکستان کو ایک جدید مسلم جمہوریہ ریاست ، اقبال کی تعلیمات اور قائداعظم کے دیے گئے رہنما اصولوں پر عمل کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے نوائے وقت کے لیے جو پالیسی مرتب کی اس کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ ان لوگوں کو مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے جنہوں نے پاکستان کے تصور اور تخلیق کی مخالفت کی، خواہ وہ نام نہاد پرانے سیاست دان ہوں یا مختلف رنگوں کے نئے یا متضاد عقائد کے خود ساختہ محافظ اور ان کے پیروکار۔ ان کی (حمید نظامی کی) رائے میں قائد اور قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والوں سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
وہ ایک صاف گو، نڈر اور مخلص صحافی تھے۔ ان خوبیوں سے انہوں نے اپنے آپ کو لیجنڈ بنا دیا۔ انہوں نے تحریک پاکستان کے پورے دور میں اور بعد میں استحکام پاکستان کے لیے پاکستان کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ وہ ملک میں جمہوریت کے مضبوط ترجمان تھے۔
1958 کے پہلے مارشل لاء نے انہیں بہت نقصان پہنچایا جو ان کی زندگی کے لیے مہلک ثابت ہوا اور وہ فروری 1962 میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حمید نظامی (1915-1962)
خدا تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔امین

ای پیپر دی نیشن