نوائے وقت کے ناقاِبل فراموش کردار!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان                                                                  
تجا ہلِ عا رفانہ        
 نوائے وقت کو عظیم یادگار اور امر کرنے میں کچھ ایسے کرداروں کا ہاتھ ہے جن کی وجہ سے نوائے وقت ایک عظیم الشان اخبار کا روپ دھارا۔ جس ا دارے میں بڑی شخصیات ہوتی ہیں وہ ادارے پھلتے پُھولتے ہیں۔ آج میںنوائے وقت کے ایسے کرداروں کا ذکر کروں گی جنہوں نے اسکی ساکھ اور عظمت کو چار چاند لگائے۔ اس وقت بھی پاکستان میں لگ بھگ00 7سے زیادہ اخبارات و جرائد نکلتے ہیں۔ لیکن جو اعتبار، ساکھ اور عظمت نوائے وقت کی ہے اُس میں ہم جیسے صحافیوں کا پسینہ، لہو اور عرق ریز یاں شامل ہیں۔ کردار کی طاقت اور قلم کی بے باکی و سچائی نے نوائے وقت جیسے اخبار کو موء قر ترین جریدہ بنایا۔آج بھی نوائے وقت کو تمام اخبارات میں عظمت اور توقیرحاصل ہے۔ قائد اعظم کے فرمان پر حمید نظامی مرحوم نے 23 مارچ 1940 کوجاری کیا تھا ۔نوائے وقت کی تاریخ سے سب آگاہ ہیں لیکن میں آج نوائے وقت کے اُن عظیم کرداروں پر روشنی ڈالوں گی جنکے خون ِ جگر، قلم کی روانی، کردار کی سچائی نے اخبارکو چار چاند لگا دئیے۔ ہمارے نوائے وقت کے ان عظیم کرداروں پر روشنی ڈالو ں گی جن کے خون جگر، قلم کی روانی ،کردار کی سچائی نے اخبار کو چار چاند لگائے ۔اخبار کی بسم اللہ حمید نظامی مرحوم جیسی دبنگ شخصیت نے کی ۔وہ روایتی انسان نہیں تھے۔ ان میں جوش ،لگن اور جستجو تھی۔ حمید نظامی نے صحافت میں ایک ایسا بیج بویا جو صحافت کی دنیا میں ایک تناور درخت بن گیا اور آج نوائے وقت اعلیٰ صحافتی اقدار کی علامت ہے۔ مجید نظامی صاحب باہر سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔ انہوں نے اخلاقی روایات کے ساتھ کچھ جدتوں کا اضافہ کیامگر دونوں بھائیوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ وہ اپنے اسلاف، اپنی تہذیب اور اپنی مٹی سے جُڑے رہتے تھے۔ بعدازاںعارف نظامی صاحب بھی اپنے چچا کے ساتھ شامل ہو گئے۔ وہ روشن خیالات کے حامل تھے لیکن اپنی روایات کے امین بھی تھے۔ انہوں نے’’ دی نیشن ‘‘کو ایک نیا ٹچ دیا ۔یہ تینوں مالکان تھے۔ نوائے وقت میں ان تینوں کی اخلاقیات، تہذیب اور شائستگی سے ایسے ایسے لوگ جڑے جنہوں نے نوائے وقت کو ایک ادارہ نہیں، ایک تہذیب، ایک معاشرہ اور ایک قوم بنا دیا ۔اگر میں اُن سب لوگوں کے نام اور ان کے کردار ںکی کارکردگی بیان کرنا شروع کروں تو اس کے لیے کم و پیش 100 کالم درکار ہیں۔ اس لیے سب کا ذکر نا ممکن ہے۔نوائے وقت کے پڑھے جانے والے سب سے قیمتی ادارتی صفحات ا ور کالمی صفات رہے ہیں۔نوائے وقت کے ادارتی صفحات کی اتنی ویلیو ہے کہ حکمرانِ وقت اُن کا روز مطالعہ کرتے ہیں۔ نوائے وقت کے ادارتی صفحات سے حکومتی پالیسیاں تبدیل ہوئی ہیں۔نوائے وقت کی پہلی لیڈی رپورٹر عبدالقادر حسن کی اہلیہ ر فعت تھیں۔ نوائے وقت سے بہت بڑے اور عظیم صحافی منسلک رہے ہیں ۔ان میں اپنے وقت کے صحافیوں پر روشنی ڈالوں گی کیونکہ اتنی جگہ نہیں کہ سب کا احاطہ کر سکوں دوسرے ان کرداروں کو میں نے آنکھوں سے کام کرتے دیکھا ہے ۔میں نے پہلی مرتبہ نوائے وقت 93 19 ء میں جوائن کیا تھا ۔میرے کیریئر کا آغاز روزنامہ جنگ سے ہوا تھا ۔جہاں بہت مشہور اور لبرل صحافی تھے ۔جنگ میں میری تنخواہ آئیڈیل تھی ۔بہت مراعات تھیں اور سب سے جونیئر اور کمسن ہونے کی وجہ سے میں بہت لاڈلی تھی لیکن کسی بات سے ناراض ہو کر میں نے استعفی دیا اور اگلے دن یوں ہی منہ اٹھا کر نوائے وقت آگئی۔ مجھے نوائے وقت میں میری کارکردگی اور لکھنے کی وجہ سے کافی لوگ جانتے تھے۔ نظامی صاحب نے مجھے فوراً جاب دے دی تو میں نے بڑی معصومیت اور ذرا رعونت سے کہا میری تنخواہ میری مرضی کے مطابق رکھیں۔ اس وقت اسد اللہ غالب ڈپٹی ایڈیٹر تھے ۔اسد اللہ غالب مجھے اشارے سے کہنا چاہتے تھے کہ میں یوں بے تکلفی سے بات نہ کروں۔ لیکن میں ان کا اشارہ نہ سمجھ سکی اور پھر نظامی صاحب سے بولی میں کام اپنی مرضی سے کرتی ہوں مجھے کسی کی مداخلت اچھی نہیں لگتی ۔اسد اللہ غالب کے چہرے پر تشویش پھیل گئی۔ مگر نظامی صاحب بولے آپ پالیسی سے انحراف کیے بغیر اپنی مرضی سے کام کر سکتی ہیں ۔مجید نظامی صاحب نے اسد اللہ غالب سے کہا کہ انہیں ان کا کام سمجھا دیں۔ اسد اللہ غالب صاحب نے کمرے سے نکلتے ہی کہا آپ کسی نواب خاندان سے ہیں۔ نظامی صاحب سے کبھی کسی نے اس طرح بے تکلفی سے بات نہیں کی۔ میں نے کہا ہر بات صاف ہونی چاہیے۔ اسد اللہ غالب بولے آپ جنگ اخبار میں ایسے رہتی تھیں مگر یہاں کچھ روایات کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔ جونہی ڈپٹی ایڈیٹر سے بریفنگ لے کر باہر آئی تو ایک نسبتاً کالا سا آدمی مجھے نظامی صاحب کے کمرے کے باہر ملا وہ لپک کر میرے پاس آیا اور بولا بی بی۔ آپ کیا منہ اٹھا کر سر پر دوپٹہ اوڑھے بغیر نظامی صاحب کے پاس چلی گئیں۔ آپ آئندہ سے سر پر دوپٹہ اُوڑھا کریں ۔میں نے منیر چپڑاسی کی بات سنی اور گھورتے ہوئے کہا مجھ سے یہ ڈھکوسلے بازی نہیں ہوتی ۔سر پر کیا سینگ اُگے ہوئے ہیں کہ سر ڈھانپ لوں۔ خبردار تم نے مجھے ایسے کہا۔میں تمہاری شکایت کر دوں گی ۔منیر چپڑاسی تھا اور ایک لفظ نہیں پڑھا ہوا تھا ۔اس کی ایک آنکھ پتھر کی تھی اور بہت کایاں تھا۔ لوگوں کی نوکریوں سے کھیلنے یا لوگوں کی نوکریاں لگوانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہوتا تھا ۔نظامی صاحب اُس پر بہت بھروسہ کرتے تھے جس کا وہ خوب فائدہ اٹھاتا۔ ایڈٹوریل سیکشن میں اس وقت پروفیسر سلیم ، جاوید حسنین ،اسد اللہ غالب اور تین دیگر شخصیات ہوتی تھی ۔ان میں سے پروفیسرسلیم اور جاوید حسنین خوشگوار اور صاحب علم شخصیات تھے ۔ میرے ذمہ کالم لکھنا ،خواتین ایڈیشن اور الیکشن سیل میں طارق ا سماعیل ساگر کی معاونت کرنا تھی۔ اُن دنوں عطاالحق قاسمی صاحب ادبی ایڈیشن کے انچارج اور ریاض الرحمن ساغر فلمی ایڈیشن کے انچار چ تھے۔ نذیر نا جی، عبدالقادر حسن ،عرفان صدیقی ،قیوم نظامی ، مشاہد حسین سید ،انور قدوائی ،عطاالحق قاسمی اور بڑے بڑے عالم فاضل کا لم نگار ہوتے تھے۔ تقریبا 200 کے لگ بھگ مشہور و معروف کالم نگار تھے ۔ جنگ اورنوائے وقت کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ یہاں میں جب کسی سے بات کرتی تو سب نظر جُھکا کر بات کرتے۔ مختصر گفتگو کرتے۔ اس دوران مجھے یہاں کچھ دقیانوسیت محسوس ہوئی اور میں نے سوچا کہ مجھے دوبارہ روزنامہ جنگ واپس چلے جانا چاہیے۔ میں ایک دن فیملی میگزین کے ایڈیٹر علی سفیان آفاقی کے پاس بیٹھی تھی۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے ۔میں نے کہا یہاں مجھے گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔ اب تک چار آدمی اصرار کر چکے ہیں کہ میں سر پر دوپٹہ اوڑھا کروں ۔میںجب دوپٹہ تمیز سے اُڑھتی ہوں تو سر پر کیا لینا ضروری ہے ۔میرا سر ڈھانپنے سے اہم جسم ڈھانپنا ہوتا ہے۔ وہ بولے کہ 1990 میں آپ کو نظامی صاحب ہی نے ہی فیملی میگزین میں سب ایڈیٹر کے لیے سلیکٹ کیا تھا۔ مگر آپ نے کہا کہ ابھی آپ پڑھ رہی ہیں۔ باقی کسی کی باتوں کی پرواہ نہ کریں۔ کیریئر بنانے کے لیے یہ شاندار ادارہ ہے جو ایک بار نوائے وقت آ جاتا ہے وہ زندگی بھر یہاں سے نہیں جاتا۔ لیکن ٹھیک تین ماہ بعد میں نے نوائے وقت چھوڑ دیا ۔دوبارہ 1997 میں جوائن کیا اور تا حال میںنوائے وقت سے ہی منسلک ہوں۔ اس مرتبہ میں نے رپورٹنگ جوائن کی ۔سعید آسی صاحب چیف رپورٹر تھے ۔ جب میں پہلی بار ان سے ملی تو مجھے پہلی ہی ملاقات میں اچھے لگے۔ انتہائی سادہ، کم گو اور نرم مزاج۔۔۔ میں غلطی سے اُس وقت کے کامرس رپورٹر کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ 10 منٹ بعد کامرس رپورٹر آیا اور نہایت بدتمیزی سے بولا بی بی ۔یہ میری کرسی ہے۔ آپ اس پر کیوں بیٹھی ہیں۔ میں نے ترکی بہ ترکی کی جواب دیا کہ کرسی پر آپ کا نام تو نظر نہیں آرہا اور اس عمر میں مجھے الہام تو ہونے سے رہا۔ آپ کسی دوسری کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اس آدمی کو امید نہیں تھی کہ میں اُسے ایسا کرارا جواب دوں گی ۔وہ بھی بپھر کر بدتمیزی سے بولا میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ میری کرسی چھوڑیں میں نے کام کرنا ہے ۔ میرا چہرہ سرخ ہو گیا ۔میں نے غصے سے کہا مجھے جانتے ہیں مگر میں آپ کو نہیں جانتی اور اچھا ہے کہ نہیں جانتی ۔مجھے بدتمیز ،بداخلاق لوگوں کو جاننے کا شوق نہیں۔ اتنے میں سعیدآسی صاحب جلدی سے اٹھ کر میرے پاس آئے اور نہایت احترام سے بولے کہ آپ میری کرسی پر تشریف لے جائیں ۔میں نے کہا آپ تو میرے باس ہیں۔ میں آپ کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتی ہوں لیکن سعید آسی صاحب نے مجھے اپنی کرسی پر بٹھادیا اور خود کونے میںپڑی کرسی پر جا کر بیٹھ گئے۔ حق ہے کہ وہ دن اور آج کا دن ہے میں سعید آسی صاحب کی دل سے عزت کرتی ہوں۔ یہاں تک کہ جب سعید آسی صاحب ڈپٹی ایڈٹر اور اخبار کے تمام اختیارات کے مالک بن گئے۔ ان کی محبت عزت احترام میں کمی نہ آئی۔ بعد میں سعید آسی صاحب کی جگہ اُسی کامرس رپورٹر کو چیف رپورٹر بنا دیا گیا جس نے ہم سب کا جینا مرنا حرام کر دیا ۔یہ آدمی سب سے زیادہ سعید آسی اور مجھ سے خائف رہتا تھا۔ سعید آسی بہت صبر والے اور خاموش طبع تھے ۔تب میں مسلسل سعید آسی صاحب کا دفاع کرتی اور چیف رپورٹر سے باقاعدہ لڑائی کیا کرتی ۔ نوائے وقت کے اہم کرداروں میں عباس اطہر ،ارشاد عارف، سعید آسی، توصیف خان اور ایاز خان کے بغیر نوائے وقت کی تاریخ نا مکمل ہے۔ عباس اطہر کا نہایت اہم کردار تھا۔ ایڈیٹوریل میں عا طف بٹ، سلیم اختر، جی این بھٹ ہیں۔  نیوز روم میں ایاز خان کے ساتھ دلاور چوہدری، ارشد رانا، ندیم فاروقی،مظہر چوہدری، طاہر مقبول نامی گرامی صحافی تھے۔ شاہد رشید نظامی صاحب کے اسسٹنٹ تھے۔  رپورٹنگ سیکشن میں شعیب الدین احمد، اسد علی ،محسن گورایہ ،مزمل سہروردی ،سلمان غنی، سلمان جعفری ،بدر منیر ،جاوید یوسف، اعجاز شیخ،سیف اللہ سپرا ،جاوید شہزاد ،طاہر ملک اور میں شامل تھے۔ کمپوزنگ روم بھی کھچا کھچ بھرا ہوا ہوتا تھا اور اس میں تین شفٹیں لگتی تھیں۔ میگزین سیکشن میں طارق اسماعیل ساغر، خالد بہزاد ہاشمی، اصغر عبداللہ، خالد یزدانی، محمود بشیر ، خالد کشمیری ،پرویز حمید، فضل حسین اعوان، عمران نقوی ،مظہر شیخ اور بیشمار لوگ تھے ۔پھول میگزین اختر عباس بہت شاندار نکالتے تھے۔ فیملی میگزین میں علی سفیان آفاقی کے علاوہ شاہد نذیر چوہدری ،نجیب خالد ،فرزانہ چوہدری یامین صدیقی وغیرہ تھے ۔ ندائے ملت میں ،انیس الرحمن، فرابی ،رابعہ عظمت وغیرہ تھے۔ دی نیشن میں سلیم بخاری ،مسعود شورش، ایما نویل سرفراز، حسیب احمد ،شفیق اعوان، عائشہ ہارون، امل مسعود  وغیرہ تھے۔ا سکے علاوہ نوائے وقت فورم تھا۔ ایک سیکشن فوٹو گرافرز کا تھا۔ اکاونٹس سیکشن اور سر کولیشن، ایکسچینج کے علاوہ پریس اور کاپی پیسٹر زکے الگ الگ سیکشن تھے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ ایک درجن دیگر سیکشن تھے جہاں ایسی ایسی کایاں اور شرارتی شخصیات تھیں جو ماحول کو زعفران زاربنائے رکھتی تھیں۔ نوائے وقت کے چپڑاسی، گارڈز ، ڈرائیورز اور ریسپنشٹ بھی اپنی اپنی جگہ بہت شہرت کے حامل تھے۔ تقریبا تین درجن نائب قاصد تھے۔ لائبریری اور ریفرنس سیکشن اتنے بڑے تھے کہ چوتھی منزل ان کے لیے وقف تھی ۔ اخبارات کے لیے تہہ خانے میں تمام اخبارات کی فائلیں موجود تھیں۔ لفٹ کے لیے چھ ملازمین تھے۔ مسجد بہت بڑی تھی جس کے لیے قاری اور ملازمین تھے۔ غرض کہ نوائے وقت اپنی ذات میں ایک’’ شہر اعلیٰ‘‘ تھا۔ تقریبا ایک ہزار سے زائد ملازمین صرف لاہور میں تھے۔ جبکہ کراچی ،اسلام آباد، کوئٹہ اور ملتان وغیرہ کے دفاتر الگ تھے۔ نوائے وقت سے لگ پانچ ہزار سے زیادہ افراد وابستہ تھے۔ ایک دن کسی بات پر ناراض ہو کر میں نے نظامی صاحب سے کہا کہ نوائے وقت کی یہ بلند بالا بلڈنگ ،اس کے عظیم ستونوں ،محرابوں، مشینوں ،ٹائلوں سے نہیں بلکہ ہم صحافیوں کے وجود سے قائم ہے۔ نظامی صاحب نے بڑا تاریخی جواب دیا ۔مجھے معلوم ہے کہ نوائے وقت کی آب یاری میں آپ سب کا خون شامل ہے اور آپ تو نوائے وقت کا گرانقدر حصہ ہیں آپ سب نوا ئے وقت کی تاریخ میں امر رہیں گے۔

    

ای پیپر دی نیشن