معزز قارئین! آج سوچا ہے کہ آپ کو سیاسی نقب زنوں کے کچھ واقعات بتائے جائیں۔ غلام مصطفے جتوئی نے جب 1986ء میں نیشنل پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تو پیپلزپارٹی سمیت سیاسی جماعتوں سے ناراض کارکن اس میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔کچھ لوگوں کوجتوئی صاحب نے ،ایس ایم ظفراور پختونخوا سے سابق وفاقی وزیر حنیف خاں وغیرہ کو تحریک استقلال سے ناراض کارکنوں کو ساتھ ملانے کے لئے ہمارے پاس بھیجا۔ان دنوں چوہدری اعتراز احسن ،ملک حامد سرفراز ،سید منظورگیلانی ،چوہدری طارق عمر ،فیصل آباد سے شیخ تاجدین ایڈووکیٹ، عنائت گل ،چوہدری صفدر علی بندیشہ ،تحریک استقلال برطانیہ کے صدر بیرسٹر ظہوربٹ اور میرا شمار ناراض لوگوں میں ہوتا تھا۔ہم نے مل کرتحریک استقلال (دستوری گروپ) کے نام سے ایک متبادل جماعت بھی بنالی تھی۔یہ جماعت تونہ چل سکی البتہ غلام مصطفے جتوئی ہمیں اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے۔بعدمیں"اسلامی جمہوری اتحاد" (IJI)کے نام سے ایک پلیٹ فارم پیپلز پارٹی کا انتخابی میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے بنا جس کاصدرغلام مصطفے جتوئی کوبنایا گیا۔ٹکٹوں کے کوٹے میں سے پنجاب میں 24نشستیں جتوئی صاحب کی جماعت نیشنل پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں۔جن کی تقسیم کے لئے پارٹی کی مرکزی قیادت نے سنٹرل کمیٹی کے رکن اللہ بچایو لغاری کومامورکیااورانہوں نے لاہورکے انٹرنیشنل ہوٹل میں ڈیرے لگالئے۔ خواہشمندوں نے ٹکٹوں کے حصول کے لئے ہوٹل میں دن رات ایک کردیئے۔گوجرانوالہ سے ایک صوبائی حلقے کے لئے میں بھی امیدوارتھا،اس لئے میرے بھی کم وپیش دوہفتے یہیں آتے جاتے گذرے۔ہرکسی نے اللہ بچایولغاری کی مقددر بھر خدمت کی۔ان کے اعزاز میں ظہرانے اورعشایئے بھی دیئے گئے۔لغاری صاحب نے ایک سوسے زائد خواہشمندوں سے فی کس دو،دوہزار روپے بھی وصول کرلئے۔ایک روز معلوم ہوا کہ وہ جتوئی صاحب سے ملنے سندھ گئے ہیں تاکہ ٹکٹوں کی حتمی منظوری حاصل کی جاسکے۔اس روز کے بعد سے وہ کسی کو نظر نہیں آئے۔
جب انتخابات کی تاریخ سرپرآگئی توٹکٹ کے خواہشمندوں کوتشویش لاحق ہوئی۔سب نے اپنے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں تومعلوم ہواکہ جناب اللہ بچایولغاری چوبیس کے چوبیس ٹکٹ دولاکھ فی ٹکٹ کے حساب سے میاں شہباز شریف کوفروخت کرکے چلتے بنے ہیں۔اس کے دودن بعد میں بذریعہ ہوائی جہاز لاہورسے نواب شاہ جا پہنچا۔ رات نواب شاہ کے علاقے کیٹی جتوئی میں ٹھہرا اورصبح ناشتے پر جتوئی صاحب کواللہ بچایوکی واردات سنانے کی بجائے صرف اپنے ٹکٹ کی خواہش کااظہارکیا۔جتوئی صاحب نے کمال مہربانی سے لاہور میاں نواز شریف کو فون پر کال ملائی۔جتوئی صاحب نے میرااچھا تعارف کروایا اورٹکٹ کے لئے بھی زوردے کرکہا۔میں بہت پر امیدہوکر واپس لاہور آگیا۔مگر ٹکٹ نہ مل سکا۔
بعد میں معلوم ہواکہ جتوئی صاحب کو یقین دلاکر میاں نواز شریف نے گوجرانوالہ سے ٹکٹ کسی اور صاحب کو دے کرجتوئی صاحب کاکوٹہ پوراکردیا ہے۔اللہ بچایو کی واردات اگر میں جتوئی صاحب کو نہ بتاسکا تو باقی سب نے بتادی ،مگر ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔
آج 2023ء میں بھی کسی کو معلوم نہیں۔ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ملتان سے ہمارے ایک تحریک استقلال کے ساتھی تھے،شیخ ظہوراحمد۔ وہ ہفتے میں کم وپیش دوبار ایک قومی اخبار کے صفحہ اول اورکبھی بیک پیج پر اپنے سیاسی بیان کو اپنی اورایئر مارشل اصغر خاں کی تصویرلگاکر اشتہارکی شکل میں شائع کرواتے جسکا چنگھاڑتا ہوا مواد ،پڑھنے والوں کی فوری توجہ حاصل کرتااوریوں وہ دیکھتے ہی دیکھتے سیاست کے افق پر بہت نمایاں ہوگئے۔اس ڈرامے کے باوجود تحریک استقلال کی اعلی قومی یاصوبائی قیادت میں ان کا انتخاب نہ ہوسکا۔کیونکہ اصغر خاں کو صرف کام پسند تھا ،اشتہاربازی انہیں متاثر نہ کرسکتی تھی۔
اگرچہ شیخ ظہور اسکے باوجود بھی تحریک استقلال میں ہی رہے مگر میرے دورہ ملتان کے دوران ان کے بارے میں کچھ گفتنی اورکچھ ناگفتنی باتیں سننے کوبھی ملیں۔کچھ اور معاملات بھی تھے جو تحریک استقلال کے راہنما بابو فیروز دین انصاری نے بھی بتائے۔ملک حیدر عثمان صاحب ملتان میں ہیں وہاں ہائی کورٹ میں وکالت بھی کرتے ہیں اوراٹارنی جنرل پاکستان ملک منصور عثمان کے والد گرامی ہیں۔ شائد یہ کالم پڑھ کر شیخ ظہور کے متعلق کچھ بتا سکیں کیاسچ تھا اورکیا جھوٹ۔ایسے ہی آج کل ایک صاحب اپنی اورشہبازشریف کی تصویر کے ساتھ اپنے بیانات کو شیخ ظہور کی طرز پر شائع کروا کر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس دنیا میں ان سے زیادہ شہباز شریف کاکوئی وفادارنہیں۔اب آیئے ذرا گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی طرف۔ گذشتہ دنوں انہوں نے نہائت فخر سے بتایا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں سرکاری دورے پر جاتے رہے ہیں۔
ہمیں یہ تومعلوم ہے کہ ایم۔کیو۔ایم پرویز مشرف کی منظورنظر محبوبہ رہی ہے اوراس کے غنڈوں نے وکلا ئتحریک میں کراچی کے کئی وکلاء کو شہید بھی کیا تھا۔جسے وکلاء صاحبان آج بھی "سانحہ 12مئی"کے نام سے یادکرتے ہیں۔ٹیسوری نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنا مشکل وقت چوہدری شجاعت حسین کے ہاں گزار ااورایک سال تک ان کی مہربانی سے مستفید ہوتے رہے۔
چوہدری شجاعت حسین اورچوہدری پرویز الہی نے پرویز مشرف کے مارشل لاء میں جب نواز شریف اورشہباز شریف جدہ چلے گئے تھے تو حمزہ شہباز کی بھی ہر طرح سے حفاظت کی تھی۔بلکہ شجاعت حسین تو حمزہ شہباز کی ہر فرمائش بھی پوری کرواتے،اس کے گھر کی چادر اورچاردیواری کے بھی محفوظ رکھنے میں اپنا کردار اداکیا۔مگر افسوس کہ شجاعت صاحب چوہدری پرویز الہی کے گھر کی چادر اورچاردیواری کی حفاظت کرسکے اورنہ ان کی آزادی کی۔اسے کہتے ہیں اقتدار کے کھیل۔
٭…٭…٭