سفینہ سلیم
یہ دنیا، یہ کائنات، یہ آسمان اور زمین—سب کچھ کسی خودکار نظام کے تحت نہیں، بلکہ ایک ایسی عظیم ہستی کے حکم کے تابع ہے جس کی قدرت کی کوئی حد نہیں، جس کی حاکمیت ہر چیز پر محیط ہے، اور جس کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ یہ ہستی اللہ رب العزت ہے، جو ہر چیز کا خالق، ہر شے کا مالک اور ہر فیصلے کا مختار ہے۔
یہی ایمان انسان کے دل میں سکون، بھروسے اور اطمینان کی روشنی پھیلاتا ہے کہ وہ کسی بے یار و مددگار دنیا میں نہیں، بلکہ ایک ایسی ذات کے زیرِ سایہ ہے جس کی رحمت سب پر حاوی ہے اور جس کی طاقت کے سامنے سب بے بس ہیں۔
ذرا نظر اٹھا کر آسمان کی وسعتوں کو دیکھیے، ستاروں کی جھرمٹوں کو غور سے دیکھیے، زمین پر بہتے دریا، سرسبز پہاڑ، تیز و تند ہوائیں اور بارش کے قطرے—یہ سب کس کے اشارے پر چل رہے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اتنا منظم اور حیرت انگیز نظام بغیر کسی طاقتور ہستی کے خود بخود چل رہا ہو؟ یقیناً نہیں!
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگران ہے۔"
یہ کائنات ایک طے شدہ نظام کے تحت رواں دواں ہے، اور اس نظام کو چلانے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ سورج روزانہ طلوع اور غروب ہوتا ہے، چاند اپنی منازل مکمل کرتا ہے، سمندر کی لہریں ایک مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھتیں، ہوائیں زمین کو معتدل رکھنے کے لیے چلتی ہیں—یہ سب کچھ کسی اندھی طاقت یا اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ اللہ کی قدرت اور اس کی مرضی کے تابع ہے۔
انسان سمجھتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا خود مالک ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ صرف وہی چاہ سکتا ہے جو اللہ چاہے، اور وہی حاصل کر سکتا ہے جو اللہ اسے عطا کرے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے، مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے۔"
یہ حقیقت ہمیں اس گمان سے باہر نکالتی ہے کہ ہماری تقدیر ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اصل میں، ہر شے اللہ کی قدرت میں ہے۔ کسی کا امیر ہونا، کسی کا غریب رہنا، کسی کا کامیاب ہونا، کسی کا ناکام رہ جانا—یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں۔
انسان آج جتنی بھی ترقی کر لے، جتنی بھی بڑی بڑی ایجادات کر لے، وہ قدرت کے ایک معمولی اشارے کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔ ایک معمولی وائرس پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کر سکتا ہے، ایک زلزلہ پورے شہروں کو مٹی میں ملا سکتا ہے، ایک طوفان مضبوط ترین عمارتوں کو زمین بوس کر سکتا ہے۔ تو پھر انسان کس چیز پر گھمنڈ کرتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یاد دلایا: "اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے۔"
انسان لاکھ سائنسی ترقی کر لے، لیکن اللہ کی قدرت کے سامنے اس کا علم محض ایک قطرے کے برابر ہے۔ وہ صرف اتنا ہی جان سکتا ہے جتنا اللہ اسے عطا کرے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت بے مثال اور لامحدود ہے۔ زمین و آسمان، چاند، سورج، ستارے، پہاڑ، دریا، سمندر، اور ہر چھوٹی بڑی مخلوق اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اللہ نے کائنات کو ایک مخصوص نظام کے تحت پیدا کیا اور وہی اسے چلا رہا ہے۔
ہم دن اور رات کی تبدیلی، موسموں کا آنا جانا، بارش کا برسنا، بیج سے درخت کا اگنا اور انسان کی تخلیق کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ کی قدرت کس قدر وسیع ہے۔ انسان جتنی بھی ترقی کر لے، وہ اللہ کی بنائی ہوئی تخلیقات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت کو پہچان لینا ہی کافی نہیں، بلکہ ضروری یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو اللہ کے حکم کے مطابق گزارے۔ جب انسان اللہ کی رضا پر یقین کر لیتا ہے، تو اسے سکون ملتا ہے، وہ پریشانیوں میں بے صبری نہیں کرتا، اور اپنی ہر کامیابی اور ناکامی کو اللہ کی حکمت سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔
اگر کوئی مصیبت آتی ہے، تو وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے۔ اگر کوئی خوشی ملتی ہے، تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت ہے۔ اور جب ایسا یقین انسان کے دل میں آ جاتا ہے، تو وہ دنیا کی فکریں چھوڑ کر اللہ کی محبت میں سرشار ہو جاتا ہے۔
اللہ کی قدرت اور حاکمیت پر غور کرنا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم کسی بے مقصد دنیا میں نہیں رہ رہے، بلکہ ایک ایسے رب کے تابع ہیں جو ہر چیز پر قادر ہے۔ جب انسان یہ یقین کر لیتا ہے، تو اس کی زندگی میں سکون، محبت، عاجزی اور بھروسہ آ جاتا ہے۔
آئیے، ہم سب اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کو مقدم رکھیں، اس کی رضا کو اپنا مقصد بنائیں، اور اس کے فیصلوں پر راضی رہ کر کامیاب زندگی گزاریں۔ اللہ کی قدرت پر ایمان ہی ہماری حقیقی کامیابی ہے، اور یہی ایمان ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیاب بنا سکتا ہے