لو جی!!! امریکہ بھی تاریخ کے نازک مور پر کھڑا ہے 

ڈاکٹرعارفہ صبح خان             
تجا ہلِ عا رفانہ   
سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے صدارت چھوڑنے سے ایک دن پہلے بڑا انکشاف کیا کہ میں جمہوریت کے لیے بڑا فکرمند ہوں اور یہ کہ امریکہ تاریخ کے نازک موٹرزے گزر رہا ہے. پہلے تو مجھے خوشی کا اظہار کر لینے دےںکیونکہ پچھلے 40 سال سے یہ سن سن کر کانوں کے پردے ہل گئے ہیں کہ پاکستان تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے ۔ہم مزاح نگاروں نے تاریخ کے اس نازک موڑ پر بہت سے لطائف خفیف و شدید گھڑے پھپتیاں کسیں تمسخر اڑایا ۔مگر ہمارے حکمران جو نہی اپنی کرپشن کی وجہ سے پھنسنے والے ہو جاتے ہیں یا اقتدار خطرے میں پڑتا ہے تو وہ دو ہی باتیں کرتے ہیں کہ کربھارت حملہ کرنے والا ہے اور پاکستان تحریک کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ہم سب ہم میں سے محب وطن کالمسٹوںنے اس بات پر شدید دکھ صدمے اور احتجاج کا اظہار بھی کیا لیکن حکومت کے سر پر کبھی جوں نہیں رینگتی ۔سوچنے کی بات ہے کہ بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھتی ہے یا اس کا ذہنی توازن خراب ہے کہ وہ جنگ کرے گا ۔اس وقت بھارت ایشیا کا دوسرا سپر پاور بن رہا ہے ۔ترقی اور خوشحالی نے بھارت کے قدم ،گھٹنے ،کمر، سینہ، گردن، ہاتھ سر سب چوم لیے ہےں۔وہ اپنی انتھک کامیابیوں کو جنگ میں کیوں جھونکنے لگا ۔ان کے ہاں معیشت اور معاشرت دونوں ترقی پر ہیں اور انڈیا کے نام کا ڈنکا سب سے زیادہ 57 اسلامی ممالک میں بجتا ہے۔ اس لیے انڈیا کبھی بھی جنگ کی حماقت نہیں کر سکتا۔البتہ ہمارے حکمران یہی کہتے ہیں کہ کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ بھارت افغانستان ایران سے روز دہشت گردی میں کئی پاکستانی ناحق مارے جاتے ہیں۔ آج تک یہ عمل تو رکا نہیں باقی نازک موڑ پر ریسرچ کی حقیقی ضرورت ہے تاکہ اصل کچا چٹا سامنے آئے۔ لیکن ریسرچ میں جان اور مال دونوں خرچ ہوتے ہیں ،دوسرے پاکستانیوں کی فطرت ثانیہ میں ریسرچ کے ذرات ہی نہیں ہیں ۔اس لیے پاکستان مسلسل 40 سال سے تاریخ کے نازک موڑسے گزر رہا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ یہ موڑ آخر کتنا بڑا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آر ہا یا پھر پاکستان گھٹنوں کے بل تاریخ کے موڑسے گزر رہا ہے ۔یہ ہم جیسے محب وطن پاکستانیوں کے لیے المیہ ہے اسی لیے جو بائیڈن کے منہ سے یہ ُسن کر ایک لمحے کو دل خوشی سے جھوم گیا کہ پاکستان کے علاوہ بھی کوئی ملک ہے جو تاریخ کے نازک موڑسے گزر رہا ہے۔امریکہ میں میرے کچھ رشتہ دار کولیگز اور جاننے والے رہتے ہیں جو گزشتہ -40 45 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں .یعنی پاکستان جب تاریخ کے نازک موڑ تک پہنچتا تھا تو یہ ذرا پہلے ہی امریکہ شفٹ ہو گئے تھے. میں نے دیکھا کہ جب یہ لوگ پاکستان آتے ہیں تو اپنی جان کو رو کر ایک یا دو درمیانے درجے کے پرفیوم بطور گفٹ لے آتے ہیں ۔ پاکستان میں شاپنگ کرتے ہوئے سستی مارکیٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ہوٹلنگ پر گھر میں پکی ہوئی دال سبزی پر گزارا کرتے ہیں۔ آنے جانے کے لیے بھا¶ تا ﺅکر کے سواری کا انتخاب کرتے ہیں۔ہر وقت پیسوں کو خرچ کرتے ہوئے شدید متفکر رہتے ہیں ۔حرام ہے کہ کبھی اپنے پاکستانی رشتہ داروں کولیگز یا دوستوں کو -40 50 ہزار ڈالر ہی تحفے میں یا ضرورت کے تحت بھیج دیں۔ معلوم نہیں امریکہ میں بھاڑ جھانکتے ہیں یا کتے نہلاتے ہیں یا پھر برگر ڈیلیور کرتے ہیں یا ڈش واشنگ کرتے ہیں مگر ان کا پورا نہیں پڑتا ۔ہمارے ہاں تو ایک ملازمہ بھی جا کر دھڑلے سے شاپنگ کرتی ہے مزے سے دہی بھلے چاٹ کھاتی ہے۔ 
ایک کلرک بھی بیوی بچوں کو مال سے شاپنگ کراتا اور ہوٹلنگ کراتا ہے ۔ہم تو کھلے ہاتھ سے پیسہ خرچ کرتے اور سال میں درجنوں سوٹ بناتے ہیں۔ اس لیے جو بائیڈن کی بات میں وزن لگا کہ یقینا امریکہ تاریک کے نازک موڑ سے ہی گزر رہا ہوگا ۔البتہ جو بائیڈن نے جمہوریت کے لیے جس فکر کا اظہار کیا ہے وہ بالکل پاکستانی حکمرانوں کی سوچ جیسی ہے ۔اسرائیل نے جس درندگی اور سفاکی سے فلسطین کو کھنڈرات میں تبدیل کیا ہے، روس اور یوکرائن میں جو کچھ ہوا ،جو بائیڈن کے چار سالوں میں انسانی حقوق کی جو پامالیاں ہوئیں ۔امریکہ نے پاکستان ،انڈیا، افغانستان، ایران، شام، لبنان، ترکی اور کینیڈا سے سے تعلقات بگاڑے۔انسانی حرمت کے پرخچے اڑائے۔ معاشی گراف اور اخلاقی گراوٹوں سے امریکہ کا مقام گرایا۔ یہ بھی امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا بار ک اوبامہ کے بعد امریکہ کا امیج خراب۔ ہوا جو بائیڈن اورڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور قابل مذمت اور قابل مرمت ہے ۔یہ دراصل جو بائیڈن کی اپنی نااہلی ،نالائقی ،ناآقبت اندیشی اور مطلق انانیت ہے۔ اگلے دن ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف لیا اور تقریر کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلادور اکتسابی اور اہمقانہ تھا لیکن اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حالات واقعات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری 2025 کو آزادی کا دن قرار دیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ سب سے پہلے امریکہ ہے یہ بات میرے دل میں کھبُ گئی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مشرف دور میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا اور پھر پاکستان سب سے پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن ٹرمپ کی بہت سی باتوں میں صداقت کی بو آتی ہے ۔میں اسے خوشبو قرار نہیں دے سکتی کیونکہ ہم اکثر توقعات بڑھا کر خوش فہمی میں مارے مارے جاتے ہیں ۔ٹرمپ کی باتوں سے بدبو بھی نہیں آرہی کیونکہ بہت سے معاملات کو ڈونلڈ ٹرمپ نے حقائق کے ترازو میں تولا ہے ۔یہ جملہ بہت بڑا اور کامیابی کا استعارہ ہے کہ ہم جنگ ختم کریں گے اور امن کے داعی بنیں گے۔ دنیا نے جنگوں کے نتیجے میں بے وقت موت کا رقص دیکھا ہے ،زخمی اپاہج معذور اور بیمار افراد خطہ ارض پر پھیلائے ہیں۔ وہی عمارتیں بازار درسگاہیں شہر اور ملک جو صدیوں میں تشکیلی مراحل سے گزرتے ہیں وہ چند ہی لمحوں میں بمبوں میزائلوں اور گولیوں سے ملبے بن جاتے ہیں اب دوبارہ فلسطین کا کوئی اصلی روپ نہیں دیکھ سکے گا ،کیونکہ بدبخت اسرائیل نے فلسطین کو کھنڈر اور ملبہ بنا دیا ہے ۔نیا فلسطین 21 صدی کے نصف تک تعمیر ہوگا لیکن نہ وہ لوگ ہوں گے نہ وہ فلسطین کی صورت ہوگی نہ وہ جذبہ ہوگا اور نہ وہ رونق ہوگی ۔کسی ملک کو تہس نہس کر کے کسی اور ملک کو آخر کیا ملتا ہے؟؟؟ محض مذہب کی بنیاد پر حسدو رقابت،جلن اور انتقام حقیقت میں دوسرے مذہب کی شکست اور ذلت ہوتی ہے ۔دنیا میں سب کچھ مذہب فرقے ذات نسل کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جو یہ کرتا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ اس کے مذہب میں سچائی ابدیت انسانیت اخلاق اور رواداری نہیں ہے۔ ٹرمپ نے آتے ہی اسرائیل فلسطین میں جنگ بندی کرا دی ہے ۔بہت جلد روس اور یوکرین میں صلح ہو جائے گی لیکن کشمیر کا بھی ٹرمپ تصفیہ کرا دیں تو ہم ٹرمپ کارڈ کو مانیں۔ اس مرتبہ امریکہ روس اور چین کے قریب ہو جائے گا بہتر ہوگا کہ امریکہ ایران لبنان شام یمن افغانستان کی جان بھی بخش دے۔ ٹرمپ نے مہنگائی اور ٹیکسوں میں کمی کا اعلان کر کے سارے امریکیوں بلکہ دنیا کے دل جیت لیے ہیں ۔امریکہ سے وابستہ تمام ممالک میں تبدیلیاں متوقع ہیں پاکستان میں حکومت معیشت معاشرت اور تہذیبی سطح پر بدلا¶ آئے گا ۔پاکستان میں جلدی حکومت بدلے گی پاکستان عوام اس حقیقی تبدیلی کے منتظر ہےں۔ ٹرمپ کا ایک دورہ پاکستان میں کارگر ہو گا۔ میرا قلم تو وائٹ ہا¶س تک نہیں جا سکتا لیکن دل سے نکلی ہوئی سچی بات ٹرمپ کے دل میں اتر سکتی ہے کہ پاکستانی عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں اور تاریخ کے نازک موڑ سے اب آخر کار گزر جانا چاہتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن