سفینہ سلیم
ضمیر انسان کی اندرونی دنیا کی گہری بازگشت ہے کیونکہ انسان کی داخلی دنیا ہمیشہ ایک پیچیدہ اور گہری حقیقت رہی ہے، جہاں ہر احساس، ہر سوچ، اور ہر فیصلہ ایک مخصوص توازن کے تحت عمل میں آتا ہے۔ اس دنیا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سراسر انسانی ضمیر کے ترازو کی مانند ہے، جو نہ صرف خارجی حالات بلکہ اندرونی کیفیات کو بھی پرکھتا ہے۔
ضمیر کو ہم اس داخلی ترازو سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو ہمیشہ انسان کے عمل اور اخلاق کی میزان کی طرح کام کرتا ہے۔ جیسے ترازو کی ہر پلیٹ پر وزن رکھا جاتا ہے، ویسے ہی انسان کا ضمیر اپنے اندر کی سب حسیات، جذبات، اور خیالات کو تولتا ہے۔ اس ترازو کی پندلی پر گرتا ہوا ہر جذبہ، ہر احساس ایک نیا توازن پیدا کرتا ہے، جو کسی وقت بہت ہلکا ہوتا ہے، اور کبھی وہ توازن گہرا اور بھاری بھی ہو جاتا ہے۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انسان کی ہر داخلی تحریک ایک نتیجہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے، جو نہ صرف اس کی ذاتی فلاح بلکہ اجتماعی مفاد کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔
کیونکہ انسان کے احساسات اور جذبات ایک ایسی داخلی دنیا ہیں جو اس کے ضمیر کی پہچان کو شکل دیتی ہیں۔ حسیات کا تعلق اس کی موجودہ حالت یا ماحول سے ہے، جیسے آسمان پر بادلوں کی حرکت، زمین کی ٹھنڈک، یا دل کی دھڑکن۔ یہ سب چیزیں انسان کے حواس کے ذریعے محسوس کی جاتی ہیں اور یہ ضمیر کی ترازو پر وزن ڈالتی ہیں۔ جیسے ایک کانچ کے گلاس پر پانی کا بوجھ بڑھتا ہے اور وہ کسی لمحے ٹوٹ کر چھن چھن کی آواز پیدا کرتا ہے، ویسے ہی انسان کی حسیاتی دنیا میں ہونے والے تجربات اس کے اندر کی دنیا کو کسی نیا سنگیت، نیا ردھم، اور نیا جذبہ عطا کرتے ہیں۔
لیکن جب ان حسیات کی بات آتی ہے تو حساسیات کی دنیا بھی جڑتی ہے، جہاں انسان کا ضمیر اپنے ماضی کے تجربات اور جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ یہ یادیں، گہرے جذبے، اور دیرینہ سوچیں ایک ذہنی اور روحانی وزن بن جاتی ہیں جو اس کے توازن کو متاثر کرتی ہیں۔ جیسے ہر پرت پر جمی ہوئی مٹی وقت کے ساتھ ایک نئی تہہ بنا لیتی ہے، ویسے ہی انسان کی یادیں اور تجربات اس کے ضمیر کے ترازو میں ایک نئی پرت کا اضافہ کرتے ہیں، جو اس کی شخصیت کو زیادہ پیچیدہ بناتا ہے۔
اگرچہ ضمیر انسان کے باطن کی روشنی ہے، لیکن جب یہی روشنی بجھ جائے تو انسان جیتے جی مردہ ہو جاتا ہے۔ مردہ ضمیر انسان کی شخصیت کو اس طرح کھوکھلا کر دیتا ہے جیسے کوئی عمارت اندر سے دیمک زدہ ہو جائے—ظاہر میں قائم مگر اندر سے بوسیدہ۔ ایسا انسان اپنی ذات سے بے خبر، صرف مفادات کے پیچھے بھاگتا ہے اور سچائی، اخلاق اور انسانیت جیسے اوصاف اس کی زندگی سے مفقود ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جاگتا ہوا ضمیر انسان کی روح کو تروتازہ رکھتا ہے، اس کے ہر عمل کو زندگی بخشتا ہے۔ ایسا انسان نہ صرف اپنی ذات سے باخبر ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ جاگتا ہوا ضمیر انسان کی آنکھوں میں چمک، باتوں میں وزن، اور عمل میں خلوص پیدا کرتا ہے، جو اس کی شخصیت کو ہشاش بشاش، باوقار اور بااعتماد بناتا ہے۔
ساتھ ساتھ روح اور روحانیت وہ غیر مرئی دنیا ہے جو انسان کے اندر کی پاکیزگی کو جلا دیتی ہے۔ یہ وہ سطح ہے جہاں انسان کی حقیقت اور اس کا ضمیر ایک اعلیٰ مقصد کی طرف رجوع کرتا ہے۔ روحانی دنیا میں انسان کا ضمیر اللہ کی رضا، انسانیت کے ساتھ حسن سلوک، اور اخلاقی اقدار کی طرف رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ یہاں ضمیر کا ترازو اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ انسان کی روح کتنی صاف ہے، اور اس کا طرزِ عمل کس حد تک بلند ہے۔
روحانی دنیا وہ میدان ہے جہاں انسان کے اندر کا "میں" اپنے خالق کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ دنیا خاموش ہوتی ہے، مگر اس کی گونج پوری ہستی میں محسوس ہوتی ہے۔ اگر حسیاتی اور حساسیاتی دنیا زمین کی سطح پر پھولتے پھیلتے جذبات ہیں، تو روحانی دنیا وہ آسمانی ہوا ہے جو ان پھولوں کو زندگی عطا کرتی ہے۔
یہاں دل کی باتیں زبان سے نہیں بلکہ خامشی سے ادا کی جاتی ہیں۔ جیسے صحرا میں تنہا کھڑا درخت آسمان کی طرف دیکھتا ہے، ویسے ہی انسان کی روح اپنے اندر کی تشنگی کے ساتھ رب کی طرف جھکتی ہے۔ روحانی کیفیت انسان کو جھنجھوڑتی بھی ہے اور سنوارتی بھی۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب انسان دنیا کی بھیڑ میں تنہا ہوتا ہے، مگر اس تنہائی میں اسے خدا کی موجودگی کا کامل یقین ہوتا ہے۔
ضمیر کی ترازو روحانیت میں سب سے زیادہ فعال ہو جاتی ہے، کیونکہ یہیں سے صحیح اور غلط کا واضح ادراک پیدا ہوتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں روحانی توازن وہ قطب نما ہے جو انسان کو سیدھی راہ پر رکھتا ہے۔ جیسے روشنی کے بغیر سائے بے معنی ہو جاتے ہیں، ویسے ہی روحانیت کے بغیر ضمیر صرف ایک خاموش مشین رہ جاتا ہے، جو نہ سوچتا ہے، نہ فیصلہ کرتا ہے۔
روحانیت انسان کے اندر ایک نور پیدا کرتی ہے، جو اس کے افعال کو نیت سے جوڑتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں نیکی صرف عمل نہیں بلکہ عبادت بن جاتی ہے، اور بدی صرف گناہ نہیں بلکہ خود سے دوری۔ یہ داخلی دنیا کی وہ سطح ہے جہاں ضمیر کے ترازو میں سب سے نازک مگر سب سے بھاری اللہ اور انسان کے بیچ کے تعلق کی پیمائش کی جاتی ہے۔
کیونکہ روحانی تجربات انسان کی داخلی کیفیت میں ایک گہرا اثر ڈالتے ہیں، اور یہ اثرات اس کے فیصلہ کرنے کے عمل میں ایک توازن پیدا کرتے ہیں۔ جیسے کسی باغ میں خزاں کا موسم آتے ہی درختوں کی شاخیں نڈھال ہو جاتی ہیں، لیکن بہار آتے ہی ان پر دوبارہ زندگی کے رنگ بکھر جاتے ہیں، ویسے ہی انسان کی روح پر گزرنے والے روحانی تجربات بھی اسے ایک نئی زندگی کی طرف لے جاتے ہیں، جو اس کے ضمیر کے توازن کو مزید استحکام عطا کرتے ہیں۔
اور اس استحکام سے روحانیت انسان کے ضمیر کے ترازو کو ایک اعلیٰ اور پاکیزہ سطح پر لے آتی ہے، جہاں وہ نہ صرف اپنی ذات کے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی اچھے فیصلے کرتا ہے۔ اس ترازو کی اہمیت یہ ہے کہ یہ انسان کو ہر عمل، ہر سوچ اور ہر جذبات میں حقیقت اور اخلاقی معیار کی طرف راغب کرتا ہے۔
انسان کا ضمیر جب اپنی اصل حالت میں ہوتا ہے، تو وہ شفاف اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے اندر کی حقیقت کو پوری طرح سے جاننے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ہر عمل کا ایک اعلیٰ مقصد بناتا ہے۔ جیسے چاند کی چمک اس کی پوری سطح کو روشن کرتی ہے، ویسے ہی انسان کا شفاف ضمیر اس کی ہر حرکت، ہر سوچ، اور ہر عمل میں نیک نیتی اور سچائی کا آئینہ بن جاتا ہے۔ اس حالت میں ضمیر کسی بھی بیرونی اثرات سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ انسان کے اندر کی صفائی اور اس کی روحانیت اس کی رہنمائی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ شفاف دنیا انسان کو ایک نئے وڑن سے دیکھنے کی طاقت دیتی ہے، جہاں ہر رنگ، ہر جزو اور ہر حقیقت ایک نیا مطلب رکھتا ہے۔
انسان کی اندرونی دنیا کا ضمیر ایک ایسا ترازو ہے جو حسیاتی، حساسیاتی، اور روحانی تجربات کے توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ جیسے ایک اچھا تاجر اپنی ترازو کی پینچ کو بڑی احتیاط سے دیکھتا ہے، ویسے ہی انسان کا ضمیر بھی اپنے اندر کی تمام کیفیات کو جانچتا ہے۔ اس ترازو پر ہر خیال، ہر عمل اور ہر جذبہ ایک خاص وزن ڈال کر انسان کو اس کے درست اور غلط کے بیچ فرق کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جیسے دریا کی لہریں کبھی ساکت اور کبھی بگڑ کر شور مچاتی ہیں، ویسے ہی انسان کی اندرونی دنیا میں آنے والے جذبات کبھی نرم ہوتے ہیں، اور کبھی وہ ایک طوفان کی مانند ابھرتے ہیں، جس سے ضمیر کا توازن پرکھنا اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔
جب انسان اپنی اندرونی دنیا کو صاف اور شفاف رکھتا ہے، تو وہ ایک ایسا شخص بن جاتا ہے جو نہ صرف خود کے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی ایک بہتر رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسی اندرونی توازن کے ذریعے انسان اپنے ضمیر کو گہرائی سے
جانچتا ہے، اور وہ ایک ایسی دنیا میں قدم رکھتا ہے جہاں اس کی ہر حرکت ایک اعلیٰ مقصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ یہ توازن ہی ہمیں حقیقی معنوں میں انسانیت کے راستے پر گامزن کرتا ہے، جہاں نہ صرف ہم اپنی روحانی صفائی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں بلکہ دنیا کی فلاح کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک جاگتا ہوا، تروتازہ اور شفاف ضمیر وہ آئینہ بن جاتا ہے جس میں انسان نہ صرف اپنی اصل صورت دیکھتا ہے بلکہ دوسروں کے درد، خوشی، اور حقائق کا عکس بھی پہچانتا ہے۔ یہی ضمیر ہمیں اچھائی کی راہ دکھاتا ہے، اور برائی کے اندھیروں سے بچاتا ہے۔ اور یہی وہ ترازو ہے جو انسان کی زندگی کا اصل معیار بن کر، اسے ایک متوازن، باکردار، اور بامقصد ہستی میں ڈھالتا ہے۔