میرے والد گرامی جامعہ اشرفیہ لاہور کے شعبہ تجوید وقرأت کے سابق سینئر استاد اور ملک کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا قاری فضل الہٰی زہد و تقویٰ، صبر واستغناء اور علم و عمل کے پیکر تھے۔ آپ برصغیر پاک و ہند کے نامور قاری حضرت مولانا قاری عبدالمالک لکھنوی کے شاگرد خاص، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے مرید اور حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کی مجالس میں بھی شریک رہتے جہاں آپ نے کئی مرتبہ امیر شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی زیارت اور مصافحہ کی سعادت حاصل کی آپ تقریبًا 60 سال تک قرآن مجید کی خدمت کی اور تجوید و قرأت کو فروغ دینے میں شب و روز مصروف رہے، جامع مسجد خضریٰ سمن آباد اور پھر جامع مسجد عکس جمیل مین مارکیٹ سمن آباد میں امام و نائب خطیب اور بطور مدرس40 سال تک دینی خدمات سرانجام دیں۔
آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے والدہ 5 سال کی عمر میں ہی انتقال کر گئیں تھیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن و دین کی دولت سے منور کرنا تھا۔سیالکوٹ کے مشہور ’’مدرسہ شہابیہ‘‘میں نمازا ور تراویح پڑھنے کے دوران آپ کے دل میں دین کی خدمت کا جذبہ موجزن ہوا۔ نابینا حافظ قرآن کی امامت نے آپ کے دل میں خیال ڈالا کہ اگرایک نابینا حافظ قرآن کو اللہ تعالیٰ اس قرآن کی بدولت اتنی عزت دے سکتے ہیں تو میرے پاس آنکھوں کی نعمت ہے کیوں نہ میں بھی حافظ قرآن بن جاؤں۔واپس گھر آکر اپنی خواہش کا اظہار اپنے والد غلام حید ر مرحوم سے کیا تو انہوں نے آپ کے شوق اور اصرار کو دیکھتے ہوئے گھر پر قرآن مجید پڑھانے کے لیے ایک قاری صاحب کا انتظام کر دیا۔اس دوران آپ کو معلوم ہوا کہ لاہور میں مدرسہ دارالقرآن و الترتیل لٹن روڈ لاہور میں ایک بہت بڑے قاری مولانا قاری عبدالمالک لکھنوی قرآن مجید پڑھاتے ہیں…آپ اسی شوق میں لاہور پہنچے اور وہاں پر مولانا قاری سید علی مرحوم(مزنگ والے) کو اپنے حالات اور شوق سے آگاہ کیا تو انہوں نے حضرت مولانا قاری عبدالمالک لکھنوی سے بات کر کے ان کی تعلیم کا آغاز کروادیا۔۔اسی دوران آپ نے مدرسہ تجوید القران رنگ محل لاہور میں مولانا قاری حاجی محمد دین جو کہ نابیناتھے ان سے قران مجید حفظ کیا۔ اور پھر مولانا قاری عبدالمالک لکھنوی جب مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ پرانی انارکلی لاہورمنتقل ہوئے تو آپ بھی ان کے ساتھ بطور شاگرد اور خادم کے وہاں آگئے ۔یہاں پر جامعہ اشرفیہ لاہور کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی صاحب مدظلہ، مولانا قاری حسن شاہ ، حضرت مولانا قاری اظہار احمد تھانوی، مولانا قاری نور محمد اور دیگر نامور شخصیات کے ہم سبق ہونے کا آپ کو اعزاز حاصل ہوا۔ قاری عبدالمالک لکھنوی نے جامعہ عثمانیہ گول چوک اوکاڑہ میں علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد خاص، حضرت مولانا عبدالحنان ہزاروی کے پاس آپ کو مزید تعلیم کے لیے بھیج دیا جہاںآپ نے 19 سال کی عمر میں پڑھنے کیساتھ ساتھ پڑھانا بھی شروع کر دیا۔
اس دوران اساتذہ نے دیپالپور کی مشہور قاضی فیملی میں قاضی فیض احمد مرحوم کے صاحبزادی سے آپ کی شادی کروا دی آپ نے کچھ عرصہ دیپالپور کے مین بازار میں موجود ہسپتال(جو کہ اب کالج بن چکا ہے) کی مسجد میں بطور امام و خطیب اور مدرس کی خدمات بھی سرانجام دیں اور پھر بعد میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے موجودہ مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مدظلہ کی خواہش اور اصرار پردیپالپور سے جامع مسجد خضریٰ سمن آباد لاہور منتقل ہوگئے جہاں ایک روز مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مدظلہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا صوفی محمد سرورکے ہمراہ تشریف لائے اور آپ کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں شعبہ تجوید و قرأت میں بطور مدرس پڑھانے کی دعوت دی جس کو والد محترم مولانا قاری فضل الہی نے قبول کرتے ہوئے جامعہ اشرفیہ لاہور میں بھی تدریس کا آغاز کر دیا۔
آپ خضری مسجد سمن آباد سے مرکزی جامع مسجد عکس جمیل چوک مین مارکیٹ سمن آباد لاہور میں بطور امام و نائب خطیب اور دینی کتابوں کے مدرس کے فرائض انجام دینے لگے۔ وفات تک یہاں آپ نے تقریبا 40سال کا عرصہ گذار دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم 6 بھائیوں اور 4 بہنوں کو بھی خود قرآن مجید پڑھانے اور حفظ کرانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آپ کی تیسری نسل میں بھی آج حافظ قرآن بچے موجود ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔آپ نے زہد و تقویٰ اور استغناء میں زندگی گزار دی جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث ولی کامل حضرت مولانا صوفی محمد سرور نے ایک مرتبہ جمعۃ المبارک کو عصر کے بعد منعقد ہونے والی اپنی مجلس میں مریدین کے سامنے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ سمن آباد لاہور میں ایک اللہ کا ولی قاری فضل الہی رہتے ہیں میں نے ان سے ملاقات اور زیارت کی ہے….آخر وقت تک کہیں آنے جانے کے لیے ہمیشہ اپنے پاس سائیکل ہی بطور سواری رکھا اور وہ بھی وفات سے چند روز قبل کسی طالب علم کو ہدیہ کر دی۔ آخری عمر میں آپ تقریبًا 8 سال شوگر، بلڈ پریشراور گردوں کے عارضہ میں اس تکلیف کا بڑے صبر واستقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی و دیگر احباب کا آپ سے عیادت اور ملاقات کا سلسلہ برقرار رہا۔ آخری ڈائیلسزکے دوران بھی والد مرحوم نے اچانک میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے مخاطب کر کے انتہائی محبت اور پراعتماد انداز میں میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا جنازہ کا جتماع جامعہ اشرفیہ لاہور یا پھر جہاں میں عرصہ تقریبًا 40 سال سے جامع مسجد عکس جمیل مین مارکیٹ سمن آباد میں بطور امام و نائب خطیب گذارا ہے وہاں باہمی مشورہ سے رکھنا... آخری وقت میں خود ہی لیٹے ذکر اور دیگر معمولات میں مصروف رہے اور پھر اچانک ایک ہجکی کی آواز آئی اورذکر دوران ہی روح پرواز کر گئی۔ وفات کے بعد چہرہ مزید روشن اور رونق افروز ہوگیا، نماز جنازہ جامع مسجد عکس جمیل چوک مین مارکیٹ سمن آباد لاہور میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی صاحب مدظلہ نے پڑھائی۔جامعہ اشرفیہ لاہور کے اساتذہ، علماء کرام اور عزیز و اقارب سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے بہت بڑی تعداد میں نماز جنازہ میںشرکت کی بعد میں مرحوم کو مقامی قبرستان شیرشاہ اچھرہ لاہور میں جہاں جامعہ اشرفیہ لاہور کے دیگر نامور اساتذہ اور علماء کرام مدفون ہیں وہاں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت راہ