درختوں کے بغیر لاہور کا مستقبل کیا؟ 

قرةالعین شعیب 

لاہور جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا، اب آہستہ آہستہ اپنی ہریالی کھو رہا ہے۔ سڑکوں کے کنارے جو گھنے درخت کبھی سایہ فراہم کرتے تھے، وہ اب تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر یو ٹرن بنانے کے لیے سینکڑوں درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے، اور اس عمل نے نہ صرف شہر کے حسن کو متاثر کیا ہے بلکہ ماحولیاتی توازن کو بھی بگاڑ دیا ہے۔اس کے علاوہ دیگر سڑکوں پر بھی درمیان سے درخت غائب ہو چکے ہیں۔ نہر کے کنارے جو کبھی گھنے درختوں کا جنگل تھےاب خالی خالی نظر آتے ہیں۔ 
کچھ دن پہلے میں اپنی پسندیدہ سڑک سے گزری جو واپڈا ٹاون کے قریب ہے۔ یہ وہی سڑک ہے جہاں کے درخت بچپن سے میرے ساتھ جواں ہوئے تھے۔ مگر جب میں نے حال ہی میں اس سڑک کو دیکھا، تو دو یو ٹرنز کے قریب کئی درخت غائب تھے۔ ایک لمحے کے لیے میری آنکھوں میں آنسو آگئے، اور میرا دل رک سا گیا۔ یقین جانیے کہ میں نے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔ میرے لیے قبول کرنا مشکل ہوگیا۔ مجھے یوں لگا کہ میرے دوست درختوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ کسی اخبار میں خبر چھپی نہ شہر میں واویلا ہوا۔ شاید یہ بات سب کو بہت عجیب لگے کہ یہ لکھتے ہوئے بھی میرا دل غمگین اور اداس ہوگیا ہے۔ . ڈیوڈ ہورسبرگ نے ایک نظم لکھی تھیA heritage of trees . ,جب اس نے سفر کیا پشاور سے اٹک تک اور راستے میں اس نے قیمتی اور قدیم درختوں کو کٹا ہوا دیکھا تو یقیناً میری طرح اسی دکھ میں گرفتار ہوا ہوگا۔ اس نے اس قیمتی ورثہ کی تباہی کا نوحہ لکھا۔ 
درختوں سے میرا لگاو ہمیشہ سے گہرا رہا ہے۔ یہ صرف درخت نہیں ہوتے، بلکہ یہ یادوں، جذبات اور فطرت کی خوبصورتی کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان درختوں کی کٹائی محض لکڑی کاٹنے کا عمل نہیں بلکہ ہمارے ماحول، ہماری صحت اور ہمارے جذبات کے ساتھ ایک ظلم ہے ۔
ہم ترقی کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں، وہ کیا واقعی ترقی ہے؟ یو ٹرنز بنانے کے لیے درختوں کی قربانی دینا کیا واقعی ضروری تھا؟ ہم سڑکوں کو کشادہ تو کر رہے ہیں مگر فطرت کو تنگ کر رہے ہیں۔ ہم کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو رہے ہیں، جہاں نہ پرندوں کی چہچہاہٹ باقی رہے گی اور نہ ہی تازہ ہوا کا کوئی ذریعہ۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جہاں یو ٹرن بنانے تھے ان درختوں کو نکال کر سائیڈ پر لگا دیا جاتا۔ یا ان سڑکوں پر لگا دیا جاتا جہاں پر درخت کم ہیں۔ ان کی جگہ اتنے ہی نئے پودے لگائے جاتے ؟ ایک درخت کو بننے میں کتنے سال لگتے ہیں جب کہ کٹنے میں چند لمحے۔ 
ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک بنجر اور بے رنگ شہر چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم صرف ترقی کے نام پر فطرت کی بربادی کو برداشت کرتے رہیں گے؟ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ ترقیاتی منصوبوں میں درختوں کو بچانے کے متبادل طریقے اپنائیں اور نئی شجرکاری کو یقینی بنائیں۔ بلکہ درختوں کی کٹائی کے حوالے سے قانون بنانے کی ضرورت ہے جس میں درخت کو کاٹنے سے پہلے عدالت سے اجازت ضروری قرار دی جائے۔ اور اس پر جرمانہ بھی رکھا جائے۔ تب ہی ہم ماحول جو بچا سکیں گے۔ 
درخت صرف لکڑی کے ٹکڑے نہیں، بلکہ یہ زمین کی سانس ہیں۔ ان کی حفاظت ہمارا فرض ہے، ورنہ آنے والے وقت میں ہم صرف ان کی یادیں ہی سنبھالتے رہ جائیں گے۔ اور ہر طرف لوگ مصنوعی آکسیجن کے ماسک پہنے دکھائی دیں گے۔ عین ممکن ہے کہ اس سیارے پر زندگی ناپید ہو جائے۔ 
دوست درختوں کے لیے ایک نظم 
قرة العین شعیب 
بند مکانوں، تہہ خانوں 
اے سی والے کمروں 
اور مصنوعی پودوں سے بھرے دالانوں میں
میرا دم گھٹتا ہے
لیکن درخت مجھے جینے میں مدد کرتے ہیں
وہ راستے جو درختوں سے خالی ہوں 
میں ان پر چل نہیں سکتی
میری سانس اکھڑنے لگتی ہے
میں راستوں اور منظروں کو ہرا بھرا دیکھنا چاہتی ہوں
درخت میرے دوست ہیں
مجھے جینے میں مدد کرتے ہیں
اور میری اداسیاں بانٹتے ہیں
مگر سرمائے کے رسیا
میرے دوستوں کے دشمن ہیں
وہ انھیں کاٹ کاٹ کر
نت نئی ہاوسنگ اسکیمیں، شاپنگ مالز
سڑکیں اور پل بناتے ہیں 
اور چاہتے ہیں 
میں وقت سے پہلے مر جاوں
عمارتوں اور گاڑیوں کے ہجوم میں 
مَیں درختوں کو مرتا ہوا 
اور کٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی
میرے جینے کے لیے ان کا زندہ رہنا ضروری ہے!

ای پیپر دی نیشن