معاشرتی زوال کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے

عالم سلام کے عظیم فلسفی ومئورخ علامہ ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’مقدمہ ابن خلدون ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ دنیا میں عروج و ترقی کے زینوں تک پہنچنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے ۔‘‘ تاریخ عالم اخلاقی انحطاط کا شکار ہوکرتباہ و برباد ہونے والی اقوام کی داستانوں سے بھری پڑی ہے جو کہ سبھی نے پڑھ رکھی ہیں، سبھی جانتے ہیںمگر عمل کوئی نہیں کرتا کیونکہ ہمارے ساتھ سانحہ یہ ہوا کہ الفاظ کی تعلیم تو دی گئی مگر حرمت الفاظ کا شعور نہ دیاگیا بایں وجہ آج کا انسان سماجی ومعاشرتی ادب و احترام سے بہت دور دکھائی دیتا ہے جس طرف بھی نگاہ اٹھائو ! اکثریتی طور پر نفسا نفسی ، خود غرضی ،بے سکونی ،لاپرواہی اور بد اخلاقی کے ڈیرے ہیں ۔ کرخت ،چیختے چلاتے لہجے اور سخت گیر رو یے معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور ایسے مفاد پرستی نے اپنے پنجے گاڑ ے ہیں کہ انسان انسان کو کھارہا ہے ۔۔حالا نکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں ارشاد فرمائی:’’مسلمان وہ ہے ،جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ’’ زبان درازی سے زیادہ بری خصلت آدمی کیلیے اور کوئی نہیں‘‘ بلاشبہ معاشرے کی خوبصورتی میانہ روی ،تحمل مزاجی ،رواداری اور عدل و انصاف میں ہے اگر ان کا فقدان ہو تو جارحیت ، شدت پسندی ،بے راہ روی ، اضطراب ، پریشانی ،نا شکری،عدم برداشت اور لاقانونیت جیسے رویے جنم لیتے ہیں اور یہی ہوا ہے۔اب ہم پتھر کا جواب اینٹ سے دینا ،کمزور کو دبانا اور طاقت کے زور پر جھکانا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں ۔معمولی بچوں کے جھگڑے پر بھی مرنے مارنے پراتر آتے ہیں حالانکہ ہم ایک ایسے عظیم ترین نبیؐ کی امت ہیں جس نے طائف کی گلیوں میں سنگ ریزوں سے لہولہان ہو کر بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے ۔۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ان جارحانہ اور غیر مہذبانہ رویوں کی وجہ کیا ہے ؟ وہ کونسے عوامل ہیں جو ہماری معاشرتی اساس کو کمزور کر رہے ہیں اور مدارس کیا کردار ادا کررہے ہیں ؟ تو واضح ہے کہ جب کسی انسان کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں ، حقدار کو حق نہ ملے ، طبقاتی نا ہمواری کا ماحول ہو اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی نہ ہوجبکہ اشرافیہ ہر قسم کے قانون سے بالاتر نظر آئے ، خواہشات اور ضروریات خواب و خیال بن جائیں تو عدم برداشت و عدم رواداری کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہے ایسے میں وہی شخص نرم گفتار اور بردبار رہتا ہے جس کا اللہ پر کامل ایمان ہوتا ہے ورنہ ایسے میں انسان اپنا دشمن ہوجاتا ہے چہ جائیکہ وہ دوسروں سے اچھا برتائو کرے جبکہ خوش اخلاقی اور شیریں کلام کی اہمیت مسلمہ ہے کہ پرانے وقتوں میں بادشاہ عوام کے لیے اتنا سوچتے تھے کہ بسا اوقات عوام الناس کے ساتھ ہونے والے حادثات خوابوں میں اشارے مل جاتے تھے اور اس کے مطابق اقدامات کی کوشش کی جاتی تھی مگر آج کے حکمران اپنے مفادات کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھتے ۔ایسا ہی ایک بادشاہ تھا جو خوابوں پر یقین رکھتا تھا اوراس کے خواب ممکنہ حادثات و واقعات کی نشاندہی بھی کرتے تھے ۔ایک دفعہ بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے تمام دانت گر چکے ہیں ۔بادشاہ نے نجومی بلوایا اور اس سے خواب بیان کیا ۔نجومی نے خواب سنا تو اس کا رنگ فق ہوگیا اور اعوذ باللہ اعوذباللہ کہنے لگے ۔بادشاہ نے گھبرا کر دریافت کیا : ’’کیا تعبیر ہے اس خواب کی ؟‘‘نجومی نے ڈرتے ڈرتے کہا : ’’چند سال کے بعد آپ کے خاندان کے سب افراد وفات پا جائیں گے اور آپ سلطنت میں اکیلے رہ جائیں گے اور دشمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے ۔یہ سُن کر بادشاہ کو طیش آگیا اور اسے کوڑے لگانے کے بعد قید خانے میں پھینکنے کا حکم دے دیا۔اس کے بعد دوسرانجومی حاضر کرنے کا حکم دیا ۔وہ آیا اور بادشاہ نے اسے خواب سنایا اور تعبیر پوچھی ۔۔نجومی خوش رُوئی سے مسکرایا اور بولا :’’  بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو!خوشی کی بات ہے۔بادشاہ نے پوچھا :’’وہ کیسے ؟‘‘ نجومی نے جواب دیا :’’اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کی عمر لمبی ہوگی ، آپ خاندان میں سب سے آخر میں فوت ہونگے اور تمام عمر بادشاہ رہیں گے ۔‘‘ بادشاہ تعبیر سن کر بہت خوش ہوا اور انعام و کرام دیکر رخصت کیا ۔۔بات ایک ہی تھی مگر مختلف طریقوں سے کہی گئی تو نتائج بھی مختلف نکلے۔ افسوس ہمارے پاس دینی اور دنیاوی تمام علوم میں خوش خلقی اور ایک دوسرے کو برداشت کر کے ساتھ چلنے کی نصیحت کی گئی ہے مگرہم دنیاوی لذتوں کے حصول میں زیاں کا احساس ہی کھو چکے ہیں ’’ان الانسان لفی خسر ‘‘ بے شک انسان خسارے میں ہے ‘‘ آئے روز عدم برداشت کے لرزہ خیزواقعات اورغیر مہذبانہ خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں کہ کرونا ، ڈینگی اور اب اومی کرون اور اب اسموگ جیسی ہولناک وبائوں سمیت دیگر المناکیوں کے باوجود خوف آخرت کرتا دھرتا سمیت کسی کی بھی آنکھ میں نہیں ہے۔عوام سوچ رہے ہیں کہ ایسے حالات میںجب خدائی آفات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے پھر بھی سیاستدانوںکے پاس اتنا وقت ہے کہ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں اور ایک دوسرے کی آڈیو ویڈیو بناکر وائرل کریں جبکہ بد دیانتی،فحش گوئی اور فحاشی کے لیے ذات ،قوم اور وراثت شرط نہیں ہوتی ؟ اب کیا الیکٹرانک میڈیا کے پاس یہی اہم ایشو رہ گیا ہے کہ نا عاقبت اندیش افراد کے معاشقوں، اور جارحانہ رویوں کو سر عام دکھائیں بلکہ طلاق کو قید سے آزادی کے لیے شرط قرار دینے والوں کو عوام کے سامنے ہر رات چینلوں پر بٹھائیں ؟ بیروزگاری بنیادی مسئلہ بن چکی ہے جبکہ ارکان اسمبلی کو اپنی بقا کی جنگ سے فرصت نہیں ہے !نان ایشوز میں حقیقی مسائل کو دبا کر وقت ٹپاتے رہتے ہیں ؟آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اکثریتی بااثرشخصیات کی فیملیز کے غیر مہذبانہ لہجے اور تنظیم سازی کے قصے ہمیشہ سے زیر بحث ہیں مگر وہی افراد چینلوں پر بیٹھ کر ڈھٹائی سے مخالفین کے کردار و اعمال کو اچھالتے رہتے ہیں۔ اسی لا قانونیت نے تو معاشرے کا حلیہ بگاڑا ہے کہ آج ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ ’’ کوئی قانون درندوں کا بھی ہوتا ہوگا۔ یعنی جب تک ریاستی کرتا دھرتا اپنی زندگیاں سیرت النبی ؐ ،قرآنی تعلیمات اور سیرت صحابہ کے مطابق نہیں گزاریں گے تب تک کچھ نہیں بدلے گا کیونکہ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی ،خوشحالی اور کامیابی کی ضمانت ضرور ہے مگر تربیت کے بغیر تعلیم بیکار ہے کیونکہ تعلیم شعور تو دیتی ہے مگر اس شعور کو کیسے استعمال کرنا ہے وہ تربیت سکھاتی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن