اسلام آباد(خبرنگار)چیئرپرسن سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ بڑے شہری مراکز میں سالڈ ویسٹ کے بڑھتے ہوئے بحران اور اس کے دریائے سندھ پر سنگین اثرات کا ذکر کیا جو دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آلودہ دریا بن چکا ہے غیر رسمی شعبہ مواد کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے اصولوں پر عمل کر رہا ہے مگر باضابطہ شعبے کو بھی قومی پالیسیوں میں ضم کرنا ضروری ہے انہوں نے تعمیراتی ضوابط کے نفاذ اور زیرو ویسٹ حکمت عملیوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے)کے تحت ایک خصوصی نفاذی فورس تشکیل دی جانے چاہیے ان خیالات کا اظہارانہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک اعلی سطح کے مشاورتی ویبینار میں خطاب کرتے ہوئے کیااسموقع پرایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اس مشاورت کو ایک انقلابی قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعمیراتی شعبے کو سرکولر اکانومی اور صفر کاربن کے اہداف سے جوڑنے کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ انہوں نے غیر پائیدار وسائل کے بے دریغ استعمال اور کاربن کے اخراج کو نہ صرف ماحولیاتی تباہی بلکہ فضائی آلودگی، خصوصا سموگ کی بڑی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تعمیراتی شعبے کے سبز اصلاحاتی عمل کوپائیدار ترقی کو فروغ دینے والے ٹیکس نظام کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے قومی آفات کے خطرے سے نمٹنے کے فنڈ کے سی ای او بلال انور نے تعمیراتی صنعت کی معیشت میں کلیدی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ اس وقت یہ صنعت تعطل کا شکار ہے اور اس کی بحالی کے لئے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ اکبر محمود زیدی نے عالمی اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تعمیراتی صنعت 30سے 40فیصد گرین ہاوگیسز کے اخراج کا سبب بنتی ہے، جبکہ پاکستان میں پیدا ہونے والا 25 سے 30 فیصد تعمیراتی ملبہ زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے نیشنل یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر سعید احمد نے ملک میں دس ملین شہری مکانات کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔