پنجاب۔لیڈر شپ گورننس اور خواجہ برادران

 پنجاب کے دارالحکومت میں گزشتہ روز بہتر لیڈر شپ اور گورننس کیلئے بہت مثبت بحثیں ہوئیں لیکن اس کی تفصیل بعد میں۔۔لاہور جیل روڈ پر لاہور ویمن یونیورسٹی کے پہلو میں گھاٹی نما انداز میں اترتی ایک سڑک پر ایک دنیا آباد ہے۔ صحت کے حوالے سے اس سڑک پر ایک سے زیادہ دفاتر کالج اور ادارے ہیں جو سوا کروڑ کی آبادی کے میرے پیارے لاہورکے باسیوں کی نظروں سے ایک حد تک اوجھل ہی رہتے ہیں۔ لیکن یہاں کروڑوں لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے خاص طور پر صحت مند بنانے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے، تربیت ہوتی ہے۔یہاں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئرکا سیکرٹریٹ بھی ہے۔میاں امیرالدین میڈیکل کالج بھی، پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ بھی جس سے جنرل ہسپتال ملحق ہے اور جہاں پاکستان کی میڈیکل مین پاور کے ممتاز لیڈر استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد حیات ظفر کے فرز ند سردار محمد الفرید ظفر چیئرمین ہیں اور ان کی انسانی خدمت کے نت نئے پروگرام اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ لیکن اس وقت بات ایک اور ان انسٹی ٹیوٹ کی ہو رہی ہے جہاں ایسے ڈاکٹر اور ماہرین تیار ہوتے ہیں جولوگوں کی صحت کے حو الے سے تکنیکی مہارت مہیا کر کے زندگی کوآسان بناتے ہیں۔ یہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ پنجاب ہے جہاں گزشتہ روز Leadership and Governance کے موضوع پر کانفرنس ہوئی اور میڈیکل کے شعبے کے نامی گرمی ڈاکٹر حاضرین میں اور مقررین میں شامل تھے۔ مہمان خصوصی تھے پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق۔ خواجہ سعد رفیق کے چھوٹے بھائی۔ خواجہ سد رفیق سے یاد آیا کہ یہ خاندان لاہور کے ان چند گنے چنے سیاسی گھرانوں میں سے ایک ہے جنہوں نے پاکستان سے محبت اور عوام سے وفا کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔ مجھے اس بات کا تذکرہ اس لئے کرنا پڑا ہے کہ جب بھٹو دور میں ان کے والد خواجہ رفیق کو پنجاب اسمبلی کے عقب میں بری حکمرانی سے نجات اور جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے جرم میں شہیدکیا گیا تو میں نوائے وقت کے اپنے بزرگ کولیگ صالح محمد صدیق کے ساتھ فلیٹیز ہوٹل اور پنجاب اسمبلی کے درمیان واقع منی فلیٹیز نامی ایک پکے کھوکھا نما ریسٹورنٹ میں چائے پینے کیلئے آیا تھا۔ شور مچا۔ ہم بھاگے تو دیکھا کہ خواجہ صاحب شہید ہو چکے ہیں۔بعد میں خواجہ سعدکو جب بھی دیکھا تو اپنے والد کا عکس نظر آئے۔ اصول پسندی۔سچ کا ساتھ۔ریلوے میں ان کے دورکی وزارت کا زمانہ اب بھی ریلوے کی معاشی بحالی کا ریکارڈ دور تصور کیا جاتا ہے۔ 2024ء کے انتخابات میں خواجہ سعد رفیق کی طرف سے اپنی معمولی ووٹوں سے ہار کا مردانہ وار اقرار اورحریف کو مبارک باد ان اقدارکے حامل ہونے کا ثبوت تھا جو انہیں اپنے شہید والد سے ورثے میں ملی ہیں۔ پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف اور انکے ساتھ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز بھی اسی خلوص بھرے اور محب وطن پس منظر میں انہیں پارٹی کی ضرورت اور انکے پارٹی کے اندر اختلاف رائے یا متبادل تجاویز کو اہمیت دیتے چلے آ رہے ہیں۔ خواجہ سلمان رفیق اپنے بڑے بھائی کا عکس ہیں اور یہاں ان کے جذبات بھی وطن اور عوام سے محبت کا اظہار تھے۔سیمینار کے شرکاء سے اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کیلئے ہم سب نے بہت محنت کی ہوئی ہے۔ تمام مقررین نے اپنے تجربات کی روشنی میں آج ہمیں آگاہی دی ہے۔ صحت کی وزارت لینے کا مقصد آسائشیں حاصل کرنا نہیں بلکہ صرف اور صرف خدمت انسانیت تھا۔ ایک ایسے اجتماع میں جہاں روبوٹک سرجن وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی پروفیسر محمود ایاز، سیکرٹری ہیلتھ پرائمری اینڈ سیکنڈری مسز نادیہ ثاقب، سابق وزیر صحت جاوید اکرم، ایڈیشنل سیکرٹر ی ٹیکنیکل ڈاکٹر محمد وسیم ،ڈپٹی سیکرٹری ٹیکنیکل ڈاکٹر عبدالرحمان ،ڈین آئی پی ایچ پروفیسر سائرہ افضل ، ، پروفیسر ڈاکٹر عطیہ مبارک ،پروفیسر شکیلہ زمان پروفیسر ملازم حسین بخاری پروفیسر اختر سہیل چغتائی ، پرنسپل ایل ایم ڈی کالج پروفیسر مجید چوہدری ، پروفیسر معاز احمد ، اس انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈین یعقوب قاضی ، عالمی ادارہ صحت سے ڈاکٹر جمشید ، سی ای اوز پنجاب ہیلتھ کئیر کمشن ڈاکٹر ثاقب عزیز، ڈاکٹر مشتاق سلہریا ، پروفیسر طارق محمود، ڈاکٹر عبدالرزاق ، پروفیسر ابرار اشرف ، پروفیسر امجد، پروفیسر علی مدیح ہاشمی ، ڈاکٹر یداللہ ، پروفیسر اعجاز سندھو، ڈاکٹر عزیز الرحمان، پروفیسر مستحسن ، اوربہت سے اہم خواتین وحضرات موجود تھے، خواجہ سلمان رفیق نے دل کی باتیں کیں اور کہا کہ۔میں طبی اداروں کے سربراہان کے ساتھ بطور ایک ٹیم ممبر کام کرتا ہوں۔ ہمارے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور نرسوں کیلئے 13 کروڑ کی آبادی کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ لیکن وزیر اعلی مریم نواز شریف کی سوچ ہے کہ ہم سب کو اس چیلنج کو قبول کر کے آگے بڑھنا ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظرگذشتہ دس ماہ سے جتنے ایم ایس لگائے وہ سب الحمدللہ سو فیصد میرٹ پر لگائے ہیں۔ چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ہم نے تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی کام کرنا ہے۔زمینی حقائق اور مسائل ہمارے سامنے ہیں۔ خطرناک بیماریوں کے تدارک کیلئے تکنیکی معاونت کیلئے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے اداروں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ویڑن کے مطابق عوام تک صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں۔ اسی لئے میڈیکل کالجز کے کری کولم میں بہتری لا رہے ہیں۔ نئے ادارے بھی بنائے جا رہے ہیں اور لاہور میں اسٹیٹ آف دی آرٹ نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ بنایا جا رہا ہے۔ ڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ پروفیسر سائرہ افضل نے میز بان کی حیثیت سے سیمینار کا آغاز اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اور احسن طریقے سے ادارے کی اہمیت اور ضرورتوں کے ذکر کے ساتھ تمام مہمانوں کی آمد پر شکریہ ادا کر کے کیا اور کہا کہ یہ ادارہ بیماریوں کی روک تھا م میں بھرپور کردار ادا کرنے کے ساتھ پاکستان کے ہیلتھ لیڈروں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ انکے بعدسابق وزیر صحت پروفیسر جاوید اکرم پروفیسر مجید چوہدری، پروفیسر اختر سہیل چغتائی، پروفیسر محمود ایاز، پروفیسر جاوید اکرم پروفیسر عطیہ مبارک،پروفیسر ملازم بخاری پروفیسرمعاز احمدپروفیسر شکیلہ زمان نے پروفیسر سائرہ افضل کوڈین کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارک باد دی اور سیمینار کے موضوع پر تقاریر کیں۔ بہت اچھی تقاریر تھیں کیونکہ یہ سب اپنی جگہ ایک انسٹی ٹیوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔خواجہ سلمان رفیق نے اس موقع کی مناسبت سے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ میں مختلف پراجیکٹس کا افتتاح کیا اور جاری ری ویمپنگ منصوبے کا جائزہ بھی لیا۔مقررین نے جہاں اس ادارے کی اہمیت پر بات کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کو سنٹر آف ایکسی لینس بننا چاہیے‘ وہیں یہ بھی کہا کہ اکیڈمک، ریسرچ اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے حکومت کی طرف سے معاونت ضروری ہے تاکہ یہ ادارہ ڈگری جاری کرنے والا ادارہ بن سکے۔ خواجہ سلمان رفیق نے اپنے کلیدی خطاب میں ساری باتوں کو سمیٹ دیا کہ یہی تو حکومت پنجاب کی سوچ اور وزیر اعلی مریم نوازکا ویڑن ہے اور یہ کہ ایسے سیمنار ہی مثبت سرگرمیاں ہیں جو دوسرے صوبوں میں ہوں یا نہ ہوں، پنجاب میں جاری رہنی چاہئیں تاکہ میڈیکل کے شعبے میں بہتر سے بہتر لیڈر شپ اورگورننس سامنے آئے اور ایسے اداروں کو مضبوط کر کے ایک صحت مند پنجاب کی تحریک جاری رہے۔

ای پیپر دی نیشن