اختلافِ رائے

سفینہ سلیم 


ایک دوسرے کی سوچ اور نظریات سے اختلاف ضرور کریں مگر اصلاحی معنوں میں۔ نظریاتی اختلافات میں دوسروں کی ذات پہ انگلی مت اٹھائیں۔ آپ کوئی عقلِ کْل نہیں ہیں اور نہ ہی آپ کی عقل تمام علوم پہ احاطہ کیے ہوئے ہے جو آپ اپنی عقل اور علم کے بل بوتے پر دوسروں میں نقائص نکالیں۔ یاد رکھیں جو مالک علم حاصل کرنے کی توفیق دیتا ہے، وہی ربِ ذوالجلال غرور و تکبر کرنے والے سے علم چھین لینے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔
ہمیں فکری شعور کے آئینیمیں خوددیکھناچاہئے کیونکہ ہمارے معاشرے میں اختلافِ رائے کو برداشت کرنا اور اسے سنجیدہ اصلاح کا ذریعہ بنانا دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ جب اختلاف، علم اور ادب کے دائرے سے نکل کر ذاتیات کی نذر ہو جائے تو معاشرے میں علمی بانجھ پن، نفرت اور فکری جمود جنم لیتے ہیں۔
اسلام نے اختلافِ رائے کو نہ صرف جائز قرار دیا، بلکہ اسے فکری وسعت، اجتہادی تنوع، اور معاشرتی ارتقاء  کا ذریعہ بھی بنایا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ) "اور ان سے بہترین انداز میں بحث کرو۔"
اس آیت میں واضع کیاگیاہیکہ دعوت، مکالمہ اور اختلافِ رائے کا اسلوب نرم، مہذب اور عزت افزا ہونا چاہیے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہیکہ
> "میری رائے درست ہے، لیکن اس میں غلطی کا احتمال ہے، اور تمہاری رائے غلط ہے، لیکن اس میں درستگی کا امکان ہے۔
یہ ہے وہ فکری انکساری، جو علم کے ساتھ ہونی چاہیے۔ آج کے دور میں، جب ہر شخص کسی نہ کسی فورم پر اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہیتوہم سب یہ بھی جانناچاہئیکہ دوسروں کی رائے کا احترام کیسے کیا جائے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے:
> "انسان کی قیمت اس کی زبان سے لگائی جاتی ہے۔"
یہی زبان، جب علم سے محروم ہو، تو تلوار سے زیادہ زخم دے جاتی ہے۔ اور جب علم کے ساتھ غرور شامل ہو جائے، تو انسان ناصرف خود کو تباہ کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر دیتا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ایک واقعہ بھی اس حوالے سے بڑا سبق آموز ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے کہا کہ فلاں شخص آپ سے شدید اختلاف کرتا ہے اور آپ کی مخالفت کرتا ہے۔ آپ نے جواب دیا:
"ہو سکتا ہے وہ کسی ایسی بات پر میری اصلاح کر رہا ہو جو میں نہیں جانتا، اور میری مخالفت میرے لیے باعثِ خیر بن جائے۔"
اصلاح میں یہی زاویہ نظر ہوناچاہئے مگر
بدقسمتی سے، آج کا انسان اختلاف کو دشمنی، اور اصلاح کو تضحیک سمجھ بیٹھا ہے۔ حالانکہ اصلاح، خیر خواہی سے جنم لیتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے تو اسے عزت و احترام کے ساتھ، نرمی سے اور موقع کی مناسبت سے کرنی چاہیے۔ ہمارینبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسلوبِ اصلاح اس کی بہترین مثال ہے۔ آپ کبھی بھی کسی فرد کی غلطی کو مجمع میں بیان کر کے اسے رسوا نہیں کرتے تھے، بلکہ عمومی انداز میں فرماتے:
 ترجمہ :  (کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسا ایسا کرتے ہیں؟)
آپ صلی اللہ علیہ ولم کا یہ طریقہ نہ صرف عزتِ نفس کی حفاظت کرتا تھا بلکہ اصلاح کو مؤثر اور دل نشین بنا دیتا تھا۔
لیکن آج کیدورمیں اگر ہم اصلاح کے نام پر کسی کی تذلیل کرتے ہیں، تو ہم اصلاح نہیں، دراصل انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر ہمارا علم، دوسروں کی تحقیر اور تضحیک کا ذریعہ بن جائے تو وہ علم نہیں، بلکہ تکبر کا لبادہ ہوتا ہے۔ہم یہ سمجھنیکی صلاحیت کھوبیٹھیہیں کہ
اختلاف رائے نہ صرف سیکھنے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ علم کو جِلا دیتا ہے۔ البتہ اس کے آداب کا جاننا ضروری ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے درمیان کئی فقہی مسائل میں اختلاف تھا، مگر آپس میں نہایت ادب اور محبت کا تعلق رہا۔ انہوں نے کبھی ایک دوسرے کی رائے کو طنز یا حقارت کا نشانہ نہیں بنایاہمیشہ ایک دوسرے کیمقام کاخیال رکھا۔
مگرافسوس آج کا انسان خود کو عقلِ کل سمجھ کر دوسروں کی رائے کو حقارت سے دیکھتاہے وہ یہ نہیں جاننانہیں چاہتاکہ اس نے سیکھنے کا دروازہ خود پر بند کر لیاہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
ترجمہ :  "ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے۔"
جیسیبھی ہو ہمیں ہر وقت سیکھنے، سننے اور سمجھنے کا دروازہ کھلا رکھناچا ہئے علم جب عاجزی کے ساتھ ہو، تو نور بن جاتا ہے، اور جب غرور کے ساتھ ہو، تو اندھیرے میں لے جاتا ہے۔
جب ہم کسی سیاختلاف رائیرکھیں توہمیں خود سے یہ سوال کرنا ضروری ہیں۔
کیا ہمارا اختلاف اصلاح کی نیت سے ہوتا ہے؟
کیا ہم علم کے ساتھ انکساری رکھتے ہیں؟
کیا ہم دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں؟
اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہیتوپھرضروری ہے کہ ہم خود کو بدلیں اپنی زبان، نیت اور طرزِ عمل کو بدلیں کیونکہ اصلاح صرف دوسروں کی نہیں، اپنی ذات کی بھی ہونی چاہیے۔ اکثر ہم خود کو اصلاح سے بالاتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کی غلطیاں گنوانا اپنا فرضِ اولین بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ اصل کامیابی اس میں ہے کہ انسان اپنی ذات کا محاسبہ کرے، اپنی کمزوریوں کو پہچانے اور ان پر کام کرے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "افضل جہاد، اپنے نفس کے خلاف جہاد ہے۔" اگر ہم اپنی اصلاح پر اتنی ہی توجہ دیں جتنی دوسروں کو درست کرنے پر دیتے ہیں، تو معاشرہ خود بخود بہتر ہونے لگے گا۔
 اختلاف کا سب سے بڑا امتحان اْس وقت آتا ہے جب آپ کو کسی ایسے شخص سے اختلاف ہو جس سے آپ کی ذاتی وابستگی ہو، یا وہ آپ کے مزاج کے خلاف ہو۔ وہاں دل و دماغ کے توازن کو برقرار رکھنا ایک فن ہے۔ اگر ہم اپنے نفس کو زیر کریں اور اختلاف کو جذبات سے پاک کر کے صرف دلیل اور خیر خواہی تک محدود رکھیں، تو اختلاف کبھی بھی نفرت میں نہیں بدلے گا۔ یہی وہ "اخلاقی بلوغت" ہے جو ہمیں ایک مہذب معاشرہ عطا کرتی ہے۔
جس معاشریمیں اختلاف کیاظہار میں احترام، علم کے ساتھ انکساری، اور اصلاح کے ساتھ اخلاص ہو ایسا معاشرہ ہی فکری ترقی، باہمی ہم آہنگی اور روحانی بلندی کی طرف بڑھتا ہیمعاشریہرفردکوچاہئیکہ اس تبدیلی کا آغاز خود سے کرے کیونکہ تبدیلی ہمیشہ اندر سے جنم لیتی ہے اور جب فرد بدلتا ہے تو قوم بنتی ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں علم کے ساتھ انکساری، اختلاف کے ساتھ برداشت، اور اصلاح کے ساتھ ادب عطا فرمائے۔ آمین۔

ای پیپر دی نیشن