لیاقت بلوچ
نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان
مکمل امریکی حمایت کے ساتھ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس میں اب تک تقریباً 167,000 فلسطینی شہید و زخمی ہوئے ہیں۔ شہداء کی مجموعی تعداد 60،000 کے لگ بھگ ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، اور 11,000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔ 7اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ پٹی کی 80 فیصد رہائشی عمارتوں، سکولوں، پناہ گزین کیمپوں، اقوامِ متحدہ اور ریڈ کراس کے دفاتر، مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں سمیت تقریباً تمام ہسپتالوں اور صحت کے مراکز پر بمباری کرکے غزہ پٹی کو طے شدہ منصوبے کے تحت انسانی رہائش کے لیے غیرموزوں اور طبی نظام کو منظم طریقے سے تباہ کرکے ہزاروں زخمی و بیما ر فلسطینیوں کو علاج معالجے، صحت کی دیکھ بھال سے محروم کردیا گیا ہے۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف امریکی حمایت سے قابض صیہونی فوج کی طرف سے شروع کی گئی فلسطینی نسل کشی مہم کے دوران اب تک 1,400 طبی کارکنوں (ہیلتھ ورکرز) کی شہادت ہوئی ہے، جبکہ صحت کے شعبے کے تقریباً 360 کارکنان اسرائیلی جیلوں میں زیر حراست ہیں۔ غزہ پر آگ و آہن کی یہ وحشیانہ برسات اب بھی جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر درجنوں فلسطینی بچوں، خواتین اور مردوں کی شہادتیں معمول ہے۔اسرائیل غزہ کی پٹی پر قبضہ کرکے یہاں کے مکینوں کو کسی دیگر ملک (تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شام کے شمال میں) منتقل کرنے کا خواہاں ہے، جس کے لیے اْسے امریکہ کی مکمل عسکری، مالی، سیاسی و سفارتی حمایت حاصل ہے۔
19 جنوری 2025ء کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل اور حسبِ معاہدہ دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات کی کوششوں کے دوران 17 رمضان المبارک (18 مارچ) کو عین اْس وقت جب اہلِ غزہ ریت اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل گھروں کے بیچ بیٹھ کر سحری یا اس کی تیاریوں میں مصروف تھے، قابض صیہونی فوج نے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدیکی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوری غزہ پٹی میں اچانک فضائی اور زمینی حملے شروع کردیے جس کے نتیجے میں محض چند گھنٹوں کے اندر 429 فلسطینی شہید اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہو گئے، جبکہ دسیوں افراد خواتین اور بچے ایسے تھے جن کی لاشیں ضروری ساز و سامان کی عدم دستیابی کے باعث تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر رہ گئیں اور اْنہیں تاحال نہیں نکالا جاسکا۔صیہونی فوج کی سفاکیت کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور تاحال روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے، جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم و بیش 500 سے زائد بچے شہید ہوچکے ہیں۔ شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں پر بیک وقت ہونے والے اس غیرمتوقع حملے میں 100 اسرائیلی جنگی طیاروں نے حصہ لیا۔یوں قابض افواج نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ پر خونریز جنگ دوبارہ مسلط کرنے کا اعلان کیا۔ سفاک صیہونی دہشت گرد حسبِ دستور جان بوجھ کر رہائشی علاقوں، پناہ گزین کیمپوں، ہسپتالوں، خیموں، سکولوں اور بازاروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ متعدد بار یہ کہہ چکا کہ اسرائیل جان بوجھ کر بچوں اور خواتین کو نشانہ بنارہا ہے اور یہ جنگ حماس کے خلاف نہیں بلکہ غزہ کے معصوم بچوں اور نہتے خواتین کے خلاف ہے، غزہ زمین پر جہنم بن چکا۔
ایک طرف غزہ میں طویل صہیونی جارحیت کے سبب بھوکے پیاسے محصورینِ غزہ بے بسی کی مجسم تصویر بنے ہوئے ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر کے خزانوں کے مالک 57 اسلامی ممالک کے حکمران مظلوم مسلمانوں کی مدد کا اپنا دینی، اخلاقی، انسانی فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک مقامی صحافی راجی الھمص نے اپنے’ایکس‘ اکاونٹ کے ذریعے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے دوران عربوں اور مسلمانانِ عالم سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے لکھا: ''دو ارب نفوس کی حامل مسلم اْمہ! غزہ آپ کی طرف سے تھمائی گئی امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اْٹھائے ہوئے ہے مگر بھوک اور ننگ پھر لوٹ آئے ہیں، جو ہمارے بچوں کے معدوں کو کھا رہے ہیں۔'' الھمص نے نوجوانوں، سماجی کارکنوں، علماء ، سیاسی رہنماؤں، شیوخ اور تمام بااثر شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں غزہ میں بڑھتے افلاس اور بھوک کے خلاف آواز بلند کریں اور صیہونی فوج کی طرف سے غزہ کا محاصرہ، گذرگاہوں کی بندش اور انسانی امداد کے لیے ضروری انسانی امداد کے داخلے کی روک تھام کے خلاف آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہاکہ ''خیر و برکت کے اس مہینے میں دو ہفتوں تک کراسنگ کی مکمل بندش اور خوراک کے سامان سے لدے 21,000 ٹرکوں کو، جو غزہ پہنچنے والے تھے، داخلے سے روکنے کے بعد حقیقت بیان کرنا مشکل ہے۔ لوگ ایندھن کی کمی کی وجہ سے روزانہ خریدی جانے والی خوراک پر انحصار کرتے ہیں اور ذخیرہ کرنے اور اسے اگلے وقت کے لیے بچانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہاکہ ''اس مہینے میں اپنی آواز بلند کریں اور اپنے بھائیوں کی حمایت کریں اور افطار کی میز پر اپنے بھائیوں کے نہ ختم ہونے والے درد کو یاد رکھیں۔ ان کے غریبوں، بے سہاراوں اور بھوکوں کو یاد رکھیں ’’۔
غزہ کی پٹی میں روٹی کا بحران پھر واپس آ گیا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ 2 ماہ سے خوراک، ادویات اور دیگر تمام ضروریاتِ زندگی سمیت بنے بنائے 60 ہزار گھروں کے ٹرک، ملبہ ہٹانے کے لیے ضروری مشینری کا غزہ میں داخلہ مکمل طور پر روک دیا ہے۔ امدادی سامان سمیت ہزاروں ٹرک رفح، کارم ابوسالم اور العوجہ کراسنگ پر گزشتہ دو ماہ سے داخلے کے منتطر ہیں۔ روزمرہ اشیائے ضرورت کی مسلسل بندش اور بیکریوں کو چلانے کے لیے ضروری ایندھن کی کمی کے باعث غزہ کے باسیوں کو سنگین غذائی قلت اور بحران کا سامنا ہے۔ خوراک کی کمی کے باعث بچوں کی اموات واقع ہورہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی نصف آبادی شدید بھوک اور خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ خوراک اور وسائل کی کمی کے باعث غزہ کے رہائشیوں کی بڑی تعداد 24 گھنٹوں میں بمشکل ایک وقت کی خوراک لینے پر مجبور ہیں۔ قابض صیہونی فوج کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں حقیقی قحط کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔ ایندھن کی کمی کے باعث بیکریوں اور عام گھروں میں کھانا بنانے کے لیے لکڑیوں اور کاغذ کے گتوں کا سہارا لیا جاتا ہے، تاہم وہ بھی ناپید ہیں۔ ایک شہری نے کہا کہ ''ہم روٹی کے حصول کے لیے ہر روز لمبا فاصلہ طے کرنے پر مجبور ہیں۔ بازاروں میں روٹی کی قلت کے باعث جزوی فعال بیکریوں کے سامنے اکثر عوام کا شدید ہجوم رہتا ہے۔ کراسنگ کی بندش اور قابض اسرائیل کی طرف سے گیس اور ایندھن کے داخلے میں رکاوٹ کے باعث لوگوں کو پریشانی کا سامنا معمول بن گیا ہے۔ جبکہ قلت کے باعث خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء چار، پانچ گْنا زائد قیمت پر فروخت ہورہی ہیں۔ قابض اسرائیلی حکام نے 42 روزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام کے موقع پر 2 مارچ کی صبح غزہ پٹی کی کراسنگ، خاص طور پر کارم ابو سالم کمرشل کراسنگ کو بند کر دیا، جس سے انسانی امداد اور تجارتی سامان کی آمد و رفت روک دی گئی۔مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق محصور غزہ کی پٹی کے 2.4 ملین افراد میں سے 80 فیصد سے زیادہ افراد اپنی روزی روٹی اور روزمرہ زندگی کے لیے بیرونی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ حالیہ جنگ بندی معاہدے کے تحت چند سو ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی گئی، تاہم 2 مارچ 2025ء کے بعد سے غزہ میں کوئی خوراک داخل نہیں ہوئی ہے۔تمام سرحدی گزرگاہیں بند ہیں جس کے باعث غزہ پٹی میں بعض بنیادی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
غزہ پر ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری و گولہ باری کے باوجود غزہ کے نہتے مظلوم عوام ہر طرح کی صعوبتوں، جان مال آل اولاد کی مسلسل قربانیوں کے باوجود عزم و استقلال کی تصویر بن کر صیہونی درندگی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ابھی گزشتہ دِنوں صیہونی دہشت گردوں نے خیموں میں پناہ گزین اہلِ غزہ میں کھانا بنانے کے لیے مفت لکڑیاں تقسیم کرنے والی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں 6 سگے بھائی شہید ہوگئے۔ سلام ہے اِن چھے سگے بھائیوں کے والدین کی استقامت کو جنہوں نے کہا کہ ایک ساتھ چھے بیٹے فلسطین پر قربان کردیے، صدمہ بہت مگر اعزاز بھی عظیم ہے۔ دوسری طرف صیہونی فوج کو زمینی جنگ میں ناکوں چنے چبوانے والے القسام بریگیڈ اور اسلامی جہاد کے مجاہدین بھی سخت ناکہ بندی، زمینی و فضائی حملوں کے باوجود جذبہ جہاد سے سرشار صیہونی فوج کے غزہ سے انخلاء تک مزاحمت جاری رکھنے کے مؤقف پر قائم ہیں۔ گزشتہ روز حماس کے ترجمان ابوعبیدہ کی طرف سے جاری مختصر پیغام میں یمنی حوثیوں کے تل ابیب پر مسلسل حملوں کی تحسین کی گئی اور کہا گیا کہ امریکی طیاروں کی یمن پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں شدید جانی مالی نقصان اْٹھانے کے باوجود یمن کے جرات مند حوثی بھائیوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں تل ابیب پر تازہ راکٹ حملے کرکے اسرائیل کے قلب کو شدید چوٹ لگائی ہے۔ قبل ازیں 6 اپریل کی صبح جب نیتن یاہو ہنگری سے امریکہ کی طرف محو سفر اپنے خصوصی طیارے میں غزہ کے نہتے عوام، خواتین اور معصوم بچوں کو 'دہشت گرد' قرار دے کر اْن کی کمر توڑنے کی شیخی بگھار رہا تھا، عین اْسی وقت غزہ کے مجاہدین نے مقبوضہ فلسطینی علاقے اْشدود کے بحری اڈے اور عسقلان کی عسکری کالونی کی طرف 10 راکٹ داغ کر نیتن یاہو کو پیغام دیا کہ مجاہدینِ غزہ اب بھی تمہیں منہ توڑ جواب دینے کے لیے زندہ اور مکمل طور پر متحرک ہیں۔ اِن میں سے 5 راکٹ فضائی دفاعی امریکی اور اسرائیلی نظام کو چکمہ دے کر کامیابی کیساتھ ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جس سے کئی علاقوں میں آگ بھڑک اْٹھی۔
غزہ پر 18 مارچ 2025ء کو شروع ہونے والی تازہ وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں فلسطینی بچوں، خواتین اور نوجوانوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اپنے یرغمالی شہریوں کو بھی بیدردی سے نشانہ بناکر قتل کررہا ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے میں فلسطینی جنگجوؤں نے 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا۔ اب بھی 58 یرغمالی حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے اسرائیلی فوج کے حملوں میں 34 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔حال ہی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدیکے پہلے کامیاب مرحلے کے اختتام تک 33 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا، جن میں سے 8 کی لاشیں شامل تھیں۔ چند روز قبل الشجاعیہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں صیہونی فوج کے ایلیٹ انفینٹری یونٹ گولانی بریگیڈ کے یرغمالی امریکی نڑاد اسرائیلی فوجی ایڈن الیگزینڈر کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ حماس کے عزالدین القسام بریگیڈ نے 12 اپریل 2025ء کو مذکورہ یرغمالی فوجی کی ویڈیو جاری کی جس میں ایڈن نے نیتن یاہو کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ جب حماس جنگ بندی معاہدے کے تحت یرغمالیوں کو رہا کررہی تھی تو نیتن یاہو نے جنگ بندی معاہدہ توڑ کر ہماری جانوں کو کیوں خطرے میں ڈالا؟ ہم ہر روز اپنے ہی فوج کے فضائی اور زمینی حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور کسی بھی وقت مارے جاسکتے ہیں۔ اْس کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور گزشتہ روز حماس نے کہا کہ مذکورہ فوجی یرغمالی کی حفاظت پر مامور حماس گروپ کیساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہوگیا ہے، اسرائیلی یرغمالی اپنی ہی فوج کی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بن کر مارا جاچکا ہے، اب یرغمالیوں کی فیملیز کے لیے پیغام ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی میتیں سیاہ تابوت میں وصول کرنے اور اْن کی تدفین کی تیاری کرلیں۔
صیہونی دہشت گردوں کی وحشیانہ بمباری اور قتلِ عام کیساتھ ساتھ اہلِ غزہ کو مسلسل نقل مکانی کے عذاب کا بھی سامنا ہے۔ ہر روز صیہونی فوج کی طرف سے انتباہ جاری ہوتا ہے کہ اگلے تین گھنٹوں میں فلاں علاقے پر خوفناک فوجی کارروائی ہونے والی ہے، اس لیے اِسے خالی کردو۔ بے خانماں فلسطینی میلوں پیدل سفر کرکے اگلے مقام پر پہنچ کر خیمے گاڑ ہی رہے ہوتے ہیں کہ اچانک فضائی بمباری، گولہ باری کا نشانہ بنادیے جاتے ہیں اور بچے کْچھے لوگ کسی نئی جگہ کی طرف کْوچ کرنے لگتے ہیں۔ اِس طرح اہلِ غزہ مسلسل محوِ سفر ہیں، اور اْن کی تھکن کا یہ عالم ہے کہ جب 6 اپریل کو الشجاعیہ محلہ خالی کرانے کا حکم آیا تو نڈھال فلسطینیوں نے مزید نقل مکانی سے انکار کردیا۔
مصر میں مستقل جنگ بندی کی کوششوں کا ایک بار پھر آغاز ہوا، تاہم یہ مذاکرات نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی کے باعث بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگئے۔ اب مصر کی طرف سے 45 روزہ جنگ بندی کی نئی تجویز سامنے آئی ہے جس کا حماس جائزہ لے رہی ہے۔ حماس نے نیتن یاہو اور اْس کی حکومت پر واضح کیا ہے کہ وہ بزور طاقت یا فوجی کارروائی کے ذریعے کبھی بھی اپنے یرغمالی قیدی رہا نہیں کراسکتا۔ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا واحد راستہ اِن یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہے۔ فوجی دباؤ ڈال کر حماس کو یرغمالیوں کی رہائی پر مجبور کرنا نیتن یاہو کی خام خیالی ہے۔ اسرائیلی عوام کے نام پیغام میں حماس ترجمان نے کہا کہ اگر نیتن یاہو کو اپنے یرغمالی چھڑانے میں دلچسپی ہوتی تو وہ جنوری میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کرتے اور غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط نہ کرتے، اور اب تک یہ یرغمالی اپنے پیاروں کے درمیان ہوتے۔ اب چونکہ نیتن یاہو نے جنگ بندی معاہدہ توڑتے ہوئے فلسطینی عوام پر دوبارہ جنگ مسلط کردی ہے اور غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی، اس لیے اگر یہ سارے یرغمالی اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوجائیں تو ہم سے شکوہ نہ کرنا۔ حماس کے اس اعلان کے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کے لواحقین نے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر پر زبرست مظاہرہ کیا اور نعرے لگائے کہ نیتن یاہو تمہاری جنگ کی قیمت ہمارے پیاروں کی زندگی نہیں ہوسکتی۔ مظاہرین نے اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ایال زمیر سے ملاقات کرکے نیتن یاہو حکومت کا تختہ اْلٹنے کا بھی مطالبہ کیا۔ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے تل ابیب میں مظاہرہ روز کا معمول ہے، لیکن اسرائیل، امریکہ اور مغربی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ 03 اپریل کو امریکی سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحہ پر پابندی کی قرارداد بری طرح مسترد کرکے سفاک ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کو فلسطینیوں کا قتلِ عام جاری رکھنے کی ''دلیرانہ'' اجازت کا اعادہ کیا۔ امریکی وزیرخارجہ ہر دوسرے روز نیتن یاہو کو فون کرکے امریکی حمایت کا اعادہ کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزید فوجی امداد کی ضمانت لینے نیتن یاہو 6 اپریل کو خود امریکہ وارد ہوا۔ شنید ہے کہ بظاہر محصولات کے تناظر میں ہونے والی اس اعلیٰ سطحی ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ کے ''غزہ منصوبے'' کو آخری شکل دی جائے گی۔اِسی دوران اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے ابوظہبی میں اماراتی وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی مجوزہ ٹرمپ منصوبے پر عمل درآمد کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو میں اماراتی کردار پر بات کی۔
اسرائیل کی بدمعاشی اور سفاکیت کا یہ عالم ہے کہ اور تو اور اقوامِ متحدہ کے امدادی کارکنوں کو بھی نہیں بخشا۔ 23 مارچ 2025ء کو غزہ میں ریڈ کراس کی 5 ایمبولینسوں، ایک فائر انجن اور اقوامِ متحدہ کی گاڑی کو اسرائیلی ڈرون نے باقاعدہ شناخت کرکے نشانہ بنایا۔ اس واقعہ میں 15 وردی پوش امدادی کارکن شہید ہوگئے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے وہ تصویر بھی شائع کی جو خود اسرائیلی ڈرون نے حملے سے قبل لی تھی، جس میں ایمبولینسز صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ یکم اپریل کو جب پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے یہ معاملہ اْٹھایا تو امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بڑی بے شرمی سے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے ذمہ دار مزاحمت کار ہیں۔
مصر میں مذاکرات کیساتھ ساتھ صیہونی فوج نے پوری غزہ پٹی میں اپنی فوجی کارروائیوں کو وْسعت دے کر حماس پر فوجی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی اور رفح کو خاص طور پر نشانہ بنایا، جسے حماس کے عزالدین القسام بریگیڈ نے بْری طرح ناکام بناتے ہوئے صیہونی فوج کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رفح میں صیہونی فوج کے زیرقبضہ ایک عمارت کو ہنی ٹریپ کے ذریعے دھماکہ خیز مواد سے اْڑاکر متعدد اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل اور کئی دیگر کو زخمی کیا۔ اطلاعات کے مطابق حماس میں مزید 40 ہزار مجاہدین کی شمولیت نے صیہونی فوج کے اوسان خطا کردیے ہیں۔ دوسری طرف یمن کے حوثی مجاہدین کی طرف سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل کا قلب تل ابیب دھماکوں سے لرز اْٹھا اور ہر طرف آگ پھیل گئی۔ اِن حملوں کے نتیجے میں بیشتر مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے یہودی شیلٹرز میں دب کر رہنے پر مجبور اور تل ابیب کے بن گوریان ایئرپورٹ پر جہازوں کی آمد و رفت معطل رہی۔
ایک طرف صیہونی فوج نے غزہ پر بارود و آہن کی بارش کے ذریعے قیامت ڈھارکھی ہے تو دوسری طرف عرب ممالک کے حکمران روایتی بے حِسی، بے حمیتی اور اسلامی غیرتِ ایمانی سے عاری ہوکر ظالم، قاتل اسرائیل کیساتھ معمول کے تجارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اِن عرب ممالک، جن میں متحدہ عرب امارات، مصر، اْردن، مراکش اور بحرین شامل ہیں، نے اکتوبر 2023ء سے فروری 2025ء کے دوران بھی اسرائیل کیساتھ مختلف مصنوعات، معدنیات، قیمتی پتھر، غذائی اشیاء ، تعمیراتی سامان، مصنوعی زیورات، کھلونوں، مشینری، برقی آلات کی تجارت معمول کے مطابق جاری رکھی۔ اسرائیل کے مرکزی اعداد و شمار کے حوالے سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق غزہ جنگ کے دوران عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات میں اضافہ کیا۔ مذکورہ عرصہ کے دوران عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو قیمتی پتھروں ِ دھاتوں اور مصنوعی زیورات سمیت تعمیرات میٹیریل برآمد کیا گیا۔ اکتوبر 2023ء سے فروری 2025ء کے دوران عرب ممالک اور اسرائلی کے درمیان مجموعی تجارتی حْجم 6.1 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو برآمدات کی مجموعی مالیت 4.57 بلین ڈالر رہی، جبکہ اِسی عرصہ کے دوران عرب ممالک نے اسرائیل سے مجموعی طور پر 1.57 بلین ڈالر کی اشیاء درآمد کیں۔ اسرائیل کیساتھ تجارت کرنے عرب ممالک میں متحدہ عرب امارات کا حصہ تقریباً دوتہائی دحجم تک پہنچ گیا۔ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو برآمد کردہ تعمیراتی مواد کا اسرائیل نے دورانِ جنگ فائدہ اْٹھایا۔
غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف دْنیا بھر کے انسان دوست عوام کے علاوہ خود اسرائیل میں بھی مظاہرے جاری ہیں، بلکہ اب تو اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی غزہ نسل کشی کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ جون 2024ء میں اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہیگری نے تسلیم کیا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس ایک نظریے کا نام ہے جسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہیگری کا کہنا تھا جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ ہم حماس کو ختم کر دیں گے وہ غلطی پر ہے، حماس ایک تنظیم اور نظریے کا نام ہے جو فلسطینی عوام کے دلوں میں بستی ہے۔ اْن کا کہنا تھا یہ مسلم بھائی چارہ ہے جو خطے میں سالہا سال سے موجود ہے، جس نے حماس اور عوام کے درمیان ایک رشتہ قائم کر رکھا ہے۔
10 اپریل 2025ء کو اسرائیلی فضائیہ کے ایک ہزار اہلکاروں نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے غزہ جنگ میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اِن اسرائیلی پائلٹوں کے ناموں اور دستخطوں پر مبنی طویل عرضداشت اسرائیل کے صفِ اول کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ پھر اگلے روز مزید درجنوں فوجی اہلکار جن کا تعلق اسرائیلی بحریہ، بری فوج اور بکتر بند (مدرعات) یونٹس سے ہے، نے نیتن یاہو سے غزہ میں جاری جنگ کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ غیرمعمولی اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ جنگ اٹھارہویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے اور اسرائیل کو اندرونی طور پر بڑھتے ہوئے دباؤ، تل ابیب میں غیرمعمولی احتجاجی مظاہروں کا سامنا ہے۔ جنگ سے انکار پر مبنی اسرائیلی فضائیہ اہلکاروں کے عریضے نے صیہونی فضائیہ کے اعلیٰ ترین حلقوں میں بھونچال پیدا کردیا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اس پر دستخط کرنے والوں میں کئی سرکردہ سابق فوجی عہدیدار شامل ہیں جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف،
اسرائیلی فضائیہ کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) دان حلوتس، میجر جنرل (ر) نمرود شیفر، سابق سربراہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کرنل (ر) نیری یرکونی، سابق سربراہ انسانی وسائل ڈیپارٹمنٹ میجر جنرل (ر) گیل ریگیف، فضائیہ کے ریٹائرڈ بریگیڈئر جنرلز ریلیک شافیر، امیر ہاسکل اور عساف اگمون بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اِن سینئر سابق افسران کی جانب سے اس عریض? پر دستخط کرنا نہ صرف اسرائیلی حکومت بلکہ فوجی قیادت کے لیے بھی ایک علامتی اور عملی چیلنج سمجھا جارہا ہے۔ اس عرضداشت کو اس لیے بھی غیرمعمولی قرار دیا جارہا ہے کیونیہ اسرائیلی فوج کو ہمیشہ قومی اتفق کی عمالت سمجھا جاتا رہا ہے۔ سابق اعلیٰ فوجی افسران کی جانب سے جنگ کی کھلی مخالفت صیہونی حکومت کے اندرونی خلفشار کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسرائیل میں پہلے بھی عدالتی اصلاحات کے معاملے پر گہری تقسیم موجود تھی، اب غزہ جنگ اور یرغمالیوں کے مسئلے نے اس تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔
فلسطینیوں کو پاکستان سے بڑی توقعات ہیں۔ پاکستانی عوام نے 07 اکتوبر 2023ء کے بعد سے اہلِ فلسطین کیساتھ بیمثال یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ جماعتِ اسلامی پاکستان کے تحت ملک بھر بالخصوص کراچی، لاہور، اسلام آباد میں تاریخ ساز ملین مارچ اور ریلیوں نے ثابت کیا ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنے فلسطینی بہن، بھائیوں کیساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ احتجاجی مظاہروں، فلسطین کانفرنسز، وزیراعظم پاکستان اور کابینہ کے دیگر ارکان سے مسلسل ملاقاتوں کے علاوہ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے ذریعے غزہ کے مظلوم عوام کو خوراک، ادویات اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اشیاء کی ترسیل کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے اور اب تک ہزاروں ٹن سامان مصر کے راستے غزہ پہنچایا جاچکا ہے، جن میں کھانے پینے کی اشیاء، ادویات، کمبل، خیمے، برتن، کپڑے اور بچوں و خواتین کی ضرویات کی چیزیں شامل ہیں۔ مصر میں گزشتہ عیدالاضحٰی کے موقع پرالخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے 18 ہزار بڑے جانور خرید کر اْن کا گوشت مصر میں پناہ گزین غزہ کے 2000 خاندانوں میں تقسیم کیا گیا۔ غزہ کے زخمیوں کے علاج معالجہ کا انتظام کیا۔ علاوہ ازیں غزہ کے وہ طلباء و طالبات جن کی میڈیکل تعلیم اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے نامکمل رہ گئی، اْنہیں حکومتِ پاکستان کے تعاون سے پاکستانی جامعات میں تعلیم جاری رکھنے کی سہولت فراہم کی گئی۔
بحیثیت قوم ہم سب کو مِل کر ہر پلیٹ فارم سے امریکی اور اسرائیلی صیہونی دہشت گردی اور فلسطینیوں کی نسل کشی نیز قبلہ اول پر ناجائز صیہو نی قبضہ کے خلاف زوردار آواز بلند کرتے رہنی چاہیے۔ علماء کرام کا منبر و محراب کے ذریعے عوام سے براہِ راست طاقت ور پیغام رسانی کا رابطہ ہے، اس لیے اس پلیٹ فارم سے عوام کو حالات سے آگہی دی جائے اور اہلِ ایمان پر جہاد کی فرضیت و اہمیت اْجاگر کی جائے اور اتحادِ اْمت کے جذبوں کو جِلا بخشی جائے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال نے اسرائیل کی ناجائز حیثیت، فلسطینیوں کی آزادی کے حق اور اسرائیل کے ناجائز وجود پر دوٹوک مؤقف اور دائمی پالیسی طے کردی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کے بدلے مراعات کی بارش کے جواب میں کہا کہ پاکستانیوں کا ضمیر، روح برائے فروخت نہیں ہے۔ اس لیے اب پوری قوم کو یکسْو ہوکر مسئلہ فلسطین پر آواز اْٹھانی چاہیے، یہ ہمارا دینی، انسانی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہے۔ حکومت بھی فلسطین پر اچھے مؤقف کے اظہار کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کے لیے آگے بڑھے۔ ایران، تْرکی، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا، عرب امارات، مصر، اْردن کے ساتھ سفارتی فعالیت کے ذریعے مسئلہ فلسطین پر متحرک کردار ادا کرنے کے لیے وفود بھجوائے جائیں تاکہ پاکستان کے عوام کا مضبوط پیغام اْن تک پہنچایا جاسکے۔
حافظ نعیم الرحمن نے فلسطین/غزہ میں اسرائیلی ظلم، قتلِ عام، انسانی نسل کشی اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے تحت اسرائیل کے تازہ جنگی جرائم کے خلاف پورے ملک کو بیدار کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے اور ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس اور قومی قیادت سے ملاقاتوں، کانفرنسز میں بھرپور اور زوردار مؤقف پیش کیا۔ فلسطین ہمارا ایمانی، انسانی، اسلامی اور اخلاقی معاملہ ہے، مِلتِ اسلامیہ کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہوگی۔ امریکہ کی حکمتِ عملی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے دشمن رہیں؛ مسلمانوں کے ذریعے ہی مسلمانوں پر تباہی مسلط کی جائے؛ اسرائیل کے ناجائز وجود کی سرپرستی اور اسرائیلی صیہونی مقاصد کی تکمیل اسلامی حکومتوں سے کرائی جائے۔ مسلم عوام، مِلتِ اسلامیہ امریکی عزائم کو ناکام بنائیں گے۔
اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ قائداعظم نے بالکل حق بات کی تھی کہ اسرائیل یورپ کا ناجائز حرامی بچہ اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ ہٹلر نے یورپ سے یہودیوں کا صفایا کیا اور امریکہ و برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کی ناجائز آبادکاری کی۔ فلسطین کو بارود اور آگ کی بھٹی بنانے والے صیہونیوں کو فلسطین سے نکالا جائے اور اْنہیں واپس اْن ممالک بھیجا جائے جہاں سے اْنہیں غیرقانونی طور پر فلسطین لاکر بسایا گیا تھا۔ غزہ سے فلسطینی نہیں یہودیوں کی بیدخلی عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔ فلسطینی عوام غزہ میں عظیم لازوال قربانیوں، شہادتوں، تقویٰ و استقامت کے ساتھ زندہ اور سْرخرو ہیں۔ پوری دْنیا کو اہلِ غزہ کی جرات ایمانی اور استقامت
نے بیدار کیا ہے۔ غزہ کی شہید خواتین، بچوں اور مردوں نے مسلم ممالک کی بزدلی کو بریک لگادی ہے۔ اہلِ غزہ کی قربانیوں کی بدولت دْنیا بھر کے مسلم، غیرمسلم غیرت مند عوام بیدار ہوگئے ہیں۔ امریکہ و یورپ میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی صیہونی ظلم اور سفاکیت کے خلاف سراپا احتجاج طلبہ و طالبات متعلقہ حکومتوں کی طرف سے دباؤ، رْکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود ثابت قدم ہیں۔ ہم اِن تمام بہادر، غیرت مند طلبہ و طالبات کے عزم و حوصلے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کْھلی آنکھوں سے سوئے عالمِ اسلام کے حکمران بزدلی و بے حمیتی کی چادر اْتارکر مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ اسرائیلی ظلم اور سفاکیت نے اْس کی انسان دشمنی کے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، اْمت کا پورا وْجود خطرات سے دوچار ہوچکا، اس کے بعد مزید کونسی ذلت اور تباہی کا انتظار ہے؟ اگر مسلم حکمران بیدار نہ ہوئے تو خطرات سب کے لیے، باری سب کی آئے گی۔ مِلتِ اسلامیہ پر جہاد فرض ہوچکا، ذلت و رْسوائی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد راستہ اْمت کا اتحاد ہے۔ عالمِ اسلام زبانی جمع خرچ سے باہر آئے اور ٹھوس عملی اقدامات کرے۔
پاکستان کے عوام، دانش ور، میڈیا بھی بیدار و یکسْو ہوکر مِلی، انسانی، دینی فرض کی ادائیگی کے لیے کمربستہ ہوجائیں؛ اغیارو استعمار کی ذہنی غلامی ترک کی جائے۔ حکومت اور بالادست ریاستی پالیسی ساز ادارے زبانی کلامی دعووں، محض امدادی سرگرمیوں میں تعاون نہیں بڑے عملی اور مؤثر اقدامات کا روڈ میپ طے کریں۔ 'مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی نہیں پورا فلسطین فلسطینیوں کا ہے' کے مؤقف پر قائم رہا جائے۔ حکمران طبقہ قائد اعظم، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کی باعزت، باوقار خارجہ پالیسی کی پیروی کریں۔ بزدلی، دباؤ اور لالچ کے تحت اسرائیل کی طرف جھکاؤ کی پالیسی سے کشمیر پر آزادی اور حقِ خودارادیت کا مطالبہ بھی زمین بوس ہوجائے گا۔ مسجدِ اقصٰی رمز اور رگِ جاں ہے، اِسے کھودینا پوری اْمت کی روحانی موت اور شکست ہوگی۔ جماعتِ اسلامی عوامی مسائل کے حل، ملک میں امن و امان کے قیام کے ساتھ ساتھ مِلتِ اسلامیہ کے مشترکہ مسائل کے حل کے لیے بھی پوری طرح متحرک اور بیدار ہے۔#