تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
گزشتہ دنوں لاہور فلیٹیز ہوٹل میں آل پاکستان کرسچن لیڈر شپ کانفرنس کا انعقاد تقدس مآب بشپ آزاد مارشل کی صدارت میں ہوا۔ ملک بھر سے مسیحی سیاسی مندوبین نے شرکت کی۔ مسیحی رہنماؤں نے قومی و صوبائی کابینہ میں مسیحی برادری کو نمائندگی نہ ملنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔لاہور میں ہونے والی آل پاکستان کرسچن لیڈرشپ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کی مسیحی برادری کی طرف سے افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاک فوج نے ہمیشہ ملک کا دفاع کیا ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اور پاک فوج نے بے مثال قربانیاں دے کر ہمارا تحفظ کیا ہے۔
مسیحی رہنماؤں نے کہا کہ ان تمام خدمات کے باوجود ہمیں گہری مایوسی ہے کہ قومی و صوبائی کابینہ میں مسیحی برادری کی کوئی نمائندگی موجود نہیں۔ یہ رویہ ناانصافی پر مبنی ہے اور ناقابلِ قبول ہے۔ شرکاء کی ایک بڑی تعداد نے الیکشن کمیشن کو فراہم کردہ اقلیتوں کی سینیارٹی لسٹ پر تحفظات کا اظہار کیا، اور اس میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔
واضح طور پر یہ کہا گیا کہ مذکورہ لسٹ میں میرٹ، شفافیت اور انصاف کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پسند و ناپسند کی بنیاد پر افراد کو شامل کیا گیا ہے، اور سلیکشن سیریل نمبر کے مطابق نہیں ہے۔ مسیحی برادری نے مطالبہ کیا کہ انتخاب بمقابلہ سلیکشن کے حوالے سے مسیحی برادری میں ایک جامع سروے کیا جائے گا تاکہ معلوم ہو کہ موجودہ سلیکشن سسٹم سے لوگ مطمئن ہیں یا نہیں۔ نتائج کی بنیاد پر ہم منصفانہ انتخابی نظام کے لیے آواز بلند کریں گے۔
مسیحیوں کے اہم مسائل، جیسے کم عمری کی شادی، جبری تبدیلی مذہب، ذاتی قوانین سے متعلق سفارشات تیار کی جائیں گی تاکہ ان معاملات میں قانونی تعاون فراہم کیا جائے۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شاگرد سینٹ تھامس پہلی صدی میں ٹیکسلا کے علاقے میں آئے تھے۔ جبکہ حکومتِ پاکستان گندھارا کوریڈور کے ذریعے اس خطے کے ثقافتی ورثے کو اجاگر کر رہی ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں مسیحیت کی اس تاریخی موجودگی کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا جائے۔
یہ اعلامیہ پاکستان کی مسیحی قیادت کی مشترکہ آواز ہے جو انصاف، برابری اور اپنی برادری کی مناسب نمائندگی کے لیے پْرعزم ہے۔ یہ اعلامیہ تمام رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے ممبران نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ مقررین کی لمبی لسٹ میں نمایاں طور پر بشپ آزاد مارشل، سیموئیل پیارا، بشپ آف ملتان، طاہر نوید چوہدری، خالد گل، طارق گل، کامران مائیکل، سونیا آشر، مذہبی و سماجی شخصیات اور دیگر شعلہ زن مقررین نے خطاب کیا۔
بعد ازاں فورم اوپن کر کے تمام مندوبین اور لیڈر شپ سے تجاویز بھی لی گئیں، اور انہوں نے خطاب بھی کیا۔
قارئین! مذکورہ کانفرنس میں بہت سے دوستوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ پچھلے دنوں میرا ایک کالم بعنوان ‘‘مذہبی اقلیتوں کا ہجوم، ایڈوائزری کونسل اور مخلص ورکرز کی مایوسی’’ اخبارات میں شائع ہوا، جس کے تحت مسلم لیگ نون کے اقلیتی راہنما سلیم رحمت سندھو ایڈوائزری کونسل پنجاب کے ممبران کو مبارک باد دی۔
قارئین! مسیحی لیڈر شپ کانفرنس میں تقدس مآب بشپ آزاد مارشل اور برادرم سیموئیل پیارا گزشتہ دنوں سے مسیحی کمیونٹی کا ایک بڑا اکٹھ ’’آل کرسچن لیڈر شپ کانفرنس‘‘ کا انعقاد کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس میں کامران مائیکل بھی مسیحی کمیونٹی کی لیڈر شپ کے ہمراہ شامل ہوئے۔
میں کانفرنس کے مقاصد تک پہنچنے میں بطور قلم کار بہت فکر مند رہا کہ بات کی تہہ تک پہنچا جائے، اور عمیق تجزیہ تو خیر صورتِ حال سے گزرتے ہوئے بھی اب تک جاری ہے۔ اب اس کو لفظوں کی زبان دینا ابھی باقی ہے۔ اس سلسلے سے میں دو چار رہا اور اب بھی ہوں۔ کانفرنس صرف ایک نشست پر مبنی نہیں، ایک سے زیادہ نشستوں پر ہونی چاہیئے تھی۔ لیکن کیونکہ وقت اور وسائل کی عدم فراہمی کے تحت، میں سمجھتا ہوں یہ پھر بھی بہت بڑی کاوش ہے کہ لیڈر شپ کو آمنے سامنے بٹھا دیا گیا۔
ہم آرگنائزرز کے بہت مشکور ہیں۔ پہلے لوگ چندہ اپنی مدد آپ کے تحت مانگ مانگ کر پروگرام کے خرچے کرتے تھے اور حقائق پر بات ہوتی تھی، اور مخلص اور سنجیدہ راہنماؤں کو داد و تحسین ملتی تھی۔ اب جس کے پاس ڈالرز ہوں، وہ بیک وقت آرگنائزر بھی ہے، لیڈر بھی ہے، اور صدارت یا مہمانِ خصوصی بن کر کانفرنس کے مختلف علاقوں کے مندوبین پر غلبہ بھی اس کا ہی رہتا ہے۔
میرا ایک مسئلہ تھا کہ کانفرنس کے حقیقی مقاصد تک رسائی کیسے ہو؟ آرگنائزرز کی نیک نیتی کو داد دیتے ہیں، ورنہ برادرم خالد شہزاد کی عقابی نظروں سے بھی بچ بچا کر ہمیں آگے بڑھنا ناگزیر لگتا ہے۔ اْدھر سے پھر ان کی کمینٹری کی بھی اس دن سے ہی بھرمار ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ایک تیر سے دو تین شکار کرنے والے معاشرے کے ہم پسے ہوئے لوگ ہیں۔
بشپ آزاد مارشل ایک زمانہ ساز شخصیت ہیں۔ سیموئیل پیارا بھی نیشن بلڈنگ سوچ کو لے کر آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ ہماری کرسچن کمیونٹی کی سماجی بیداری کی تحریک میں ان سے بہت سی توقعات ہیں۔