طارق شہزاد چوہدری
chtariqshahzad@gmail.com
کبھی تو ائے وہ صبح تمنا ! لو، وہ آگئی، حماس کو شکست سے دوچار کرنے کی قسمیں کھانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی، پندرہ مہینوں کے لمبے انتظار کے بعد، امریکی صدر، جوبائڈن کے ذریعہ، جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے، غزہ میں جشن کا ماحول ہے، بلنکن صاحب بھی ہر حقیقت پسند کی مانند، معترف ہیں کہ حماس کو ہرایا نہیں جا سکتا، اس کے تعلق سے بین گیور صاحب بھی یوں گویا ہوئے کہ یہ جنگ بندی، حماس کے سامنے خود سپردگی کے مترادف ہے،بہرحال جنگ بندی، تین مرحلوں پر مشتمل ہوگی, اہل غزہ کو ،شمال غزہ جانے کے لئے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ، غذائی ضرورتوں کی ترسیل پر پابندی نہیں ہوگی، شمال اور جنوبی غزہ کو تقسیم کرنے والا کوریڈور corridor Netzarim ختم کردیا جائے گا، پہلے مرحلہ کی جنگ بندی چھ ہفتوں کے لئے عارضی ہوگی جس دوران، اسرائیلی افواج کا جزوی انخلاءہوگا,شہر سے دور، ان کی موجودگی ابتدا میں باقی رہے گی، پہلے مرحلہ میں ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کے بدلہ میں، 33 بچے، بوڑھے، خواتین اور بیمار یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی، دوسرے مرحلہ کی جنگ بندی عارضی نہیں مستقل ہوگی جس میں اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء اور قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، تیسرے اور آخری مرحلہ میں لاشوں کی سپردگی کے علاوہ غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ شامل ہے .
جنگ بندی کے بعد کی صورت حال بہت غیر یقینی ہے، پچھلے تجربات کی روشنی میں، ڈونالڈ ٹرمپ کا رویہ "پل میں تولہ پل میں ماشہ" ہوتا رہا ہے، ایک موقع پر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل کے حفاظتی اندیشوں کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ اسرائیلی حجم میں اضافہ کیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خواہش، مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کرنے کا ذریعہ بن جائے،آگے کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے فلسطینی گروہوں کا باہمی اتحاد، شاہ کلید کا درجہ رکھتا ہے .
سات اکتوبر کے بعد سے ، الاقسام بریگیڈز کے جانباز آج تک، اسرائیلی فوج سے دو دو ہاتھ کرتے رہے، دوسری طرف، عوام بھی ہر دن زندگی سے لڑتے رہے ہیں ، حماس نے لچک ضرور دکھلائی لیکن اپنی شرطوں پر اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور بھی کیا ہے، پچھلے ہفتے قسام بریگیڈز کے جانبازوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف حملوں میں حوصلہ شکن حکمت عملی اپنائی گئی تھی جس کے باعث فوج کو شدید جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے ، یہ صحیح ہے کہ غزہ میں شہدائ کی لاشوں کے انبار لگ گئے، کشتوں کے پشتے بن گئے، مگر اہل غزہ نے دشمن کو پسپا کر کے چھوڑا، یہ ہے پندرہ مہینوں کا حاصل ، اس کامیابی کا کریڈٹ خدا کے بعد، اہل غزہ کی قیادت، مزاحمت کاروں کی ایمانی طاقت، شہدائ کی شہادت اور عوام کی جر?ت کو جاتا ہے، دشمن انسانیت، نیتن یاہو نے کیا کیا نہ کیا، ان کے منصوبہ کے مطابق اسرائیلی فوج، اپنے حملوں کی ترجیحات میں بوڑھوں، بچوں، عورتوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بناتی رہی ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری تھا ، شمال غزہ کا آخری زندہ ہسپتال بھی اب زندہ نہ رہا، عوام و خواص پر ڈھائے جانے والے ستم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ آخری ہاسپٹل کو بند اور اس کے ڈائریکٹر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے .
امریکہ بحیثیت ریاست، ظالم کے ساتھ کل بھی کھڑا تھا اور آج بھی اس کی جانب سے مالی اور عسکری امداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، تاکہ یومیہ موتوں کی اس تعداد میں کمی نہ آنے دی جائے جس سے ان ظالموں کے کلیجہ کو ٹھنڈک ملتی ہے، امریکہ اپنی تاریخ کے سب سے برے دور سے گزر رہا ہے، لاس اینجلیس شہر جو ایک اندازہ کے مطابق، پانچ ٹریلین معاشی ترقی کا یوگدان دیتا رہا، اب" آگ دان" بن گیا ہے، وہ نار جہنم کی مانند پھیلنے والی مصیبت کا سامنا کر رہا ہے، مصیبت کا شکار ہونے والوں سے ہم اظہار ہمدردی کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ، اس بحران کے باوجود، اس دوران امریکہ کے سبکدوش ہونے والے صدر، جوبائڈن نے اسرائیل کے لئے آٹھ بلین ڈالر کی امداد کو منظوری دی ہے، جوبائڈن صاحب کی نیتن یاہو سے محبت، مثالی ہے، چاہے دنیا ان کی محبت کو یکطرفہ ہونے کا طعنہ ہی کیوں نہ دے ، بائڈن امریکی عوام کی دولت کو اسرائیل پر لٹا رہے ہیں، اس سچائی کے باوجود کہ بائڈن نے کہا کہ غزہ پر زمینی حملہ نہ کیا جائے، نیتن یاہو نے حملہ کیا، بائڈن نے کہا کہ فیلاڈیلفیا پر قبضہ نہ کیا جائے، اسرائیل نے قبضہ کیا، جو بائیڈن نے کہا کہ حزب اللہ اور ایران سے کھلم کھلا جنگ کا ماحول نہ بنایا جائے، حتی کہ شام میں پیش قدمی بالکل نہ کی جائے، لیکن نیتن یاہو نے یک طرفہ عاشق کی ایک نہ مانی، امریکی بالادستی کو زیر دست کرتے رہے اور زیر بار بھی ، ان سب حکم عدولیوں کے بعد بھی آٹھ بلین ڈالرز کی امداد کا اعلان، چہ معنی دارد ؟
صدر امریکہ نے زندگی بھر نیتن یاہو کی حمایت کا حلف اٹھایا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے دورہئ صدارت میں، غزہ کو تاراج کرنے کا اسرائیل کو پورا وقت اور موقع فراہم کیا ، یہی وجہ تو ہے کہ جنگ بندی کے لئے بائڈن نے اپنے عہدہئ صدارت کے آخری دنوں کا انتخاب کیا ہے ، یہی یقین کیا جارہا تھا اور یقین دلایا بھی جا رہا تھا کہ بیس جنوری سے پہلے جنگ بندی کا اعلان کردیا جائے گا جو ہو گیا ہے ، یہ ٹرمپ صاحب کا "ٹرمپ کارڈ" تھا جو نہ صرف چلا بلکہ اس نے دوڑ لگائی ، بائڈن صاحب کی دلی آرزو بھی تھی اور انتظار بھی کہ شاید اب نہیں تو اب، حماس کے حوصلے پست ہو جائیں گے، لیکن دشمن کو کیا پتا تھا کہ قبرستانوں میں شہدائ کی بڑھتی آبادی ، مزاحمت کے متوالوں کے عزائم کو نئی بلندی عطا کرے گی، حماس کے ایک اہم عہدیدار نے ایسی سچی اور اچھی بات کہی ہے جس نے دشمن کے دلوں پر برچھی سے وار کیا ہے کہ :
اسرائیلی فوج، غزہ میں لڑتے لڑتے تھک سی گئی ہے جبکہ ہمارے مجاہدین آزادی، پندرہ ماہ کی جنگ کے بعد بھی پہلے دن کی مانند تازہ دم ہوکر لڑ رہے ہیں .
اسرائیل کو پندرہ مہینوں کی جنگ سے کیا ملا؟
جانی و مالی نقصان ملا، عزت گئی، آبرو بھی لٹی، لٹیا ڈوبی، داداگری کی داد بھی نہ ملی ، اسرائیل نے مایوسی میں منہ پیٹ لیا اور ماتم میں سینہ کوبی کی، کیونکہ وہ غزہ خالی نہ کرا سکا ، دعوے بوسیدہ ، فوجی قبر رسیدہ ہوگئے، چپے چپے پر کرب تھا، بلا تھی، بھوک ہتھیار تھا، پانی پہ پہرے تھے، قیادت انسانیت باختہ، فوج بہائمی تھی اور عوام حواس باختہ تھے، اسرائیل خونخوار بننے کی خواہش میں بہت خوار ہوا، دنیا دو حصوں میں منقسم تھی ، ایک طرف اقلیت تھی جو ظالم و جابر کے حمایت میں کھڑی تھی ، دوسری جانب دنیا کی اکثریت تھی جو مظلوم نوا تھی، وزیر مالیات سموٹرچ رچ رہے اور نہ ہی ااسمارٹ ،اندرونی سیکیورٹی کے وزیر، بین گیوور بھی غیر محفوظ ہیں اور بدنامی کے دن جھیل رہے ہیں، خاص طور پر یہ دونوں، اسرائیلی حکومت میں صہیونیت کا چہرہ ہیں ، ان کی دھمکیاں کچھ کام نہ آئیں ، حوثیوں نے خوب ہاتھ صاف کئے، حزب اللہ بھی نہ ڈرا، اس مٹی اور پٹی میں آج بھی ایمانی فصل گل و لالہ، لہلہا رہی ہے, اس خطہ کی انسانی زرخیزی، زرخرید نہیں، اس کی پیداوار کا ہر تخم بالقو?، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار سے کم نہیں ، غزہ آج بھی حماس کی زیر حکمرانی ہے جو نیتن یاہو کا منہ چڑھا رہا ہے، نہ حماس ختم ہوا اور نہ یرغمالی رہا ہوئے، اب اسرائیل میں سات اکتوبر، "یوم توبہ توبہ" کے طور پر منایا جائے گا.
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری