ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
آج کل مریم نواز شریف بڑی مستعدی سے عوامی بہبود کے کام کر رہی ہیں ۔انسان کی اسوط عمر تقریباً 65 سال ہے لیکن انسان کے اعلیٰ کام اُسے ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کچھ لوگ مر جائیں تو بے شمار لوگ روتے ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم مر جائیں اور کچھ لوگ اتنے ظالم ،منافق ،اور سفاک ہوتے ہیں کہ اُن کے مرنے سے کئی لوگ جی اٹھتے ہیں ۔یہ فیصلہ کرنا کہ آپ نے ہمیشہ دلوں میں زندہ رہنا ہے یا ہمیشہ دوسروں کی بد دعاں اور لعنتوں میں زندہ رہنا ہے ۔یہ سب خود اپنی ذات، نیت اور اعمال پر منحصرہے۔ کچھ مہینوں سے مریم نواز شریف نے انتھک محنت کی ہے اور کئی فلاحی منصوبے متعارف کرائے ہیں ۔ہر انسان اپنے والدین کا عکس ہوتا ہے خاص طور پر جیسی مائیں ہوتی ہیں جیسی وہ اولاد کی تربیت کرتی ہیں ،اولاد میں نیکی یا ہیرا پھیری جھوٹ مکر و فریب دغا بازی اور غیر ذمہ داری ماں سے ہی آتی ہے۔ اگر ماں اچھی ہوگی تو ساری اولاد نیک ،شریف اورہمدرد ہوگی ۔وہ کسی کا دل نہیں دکھائے گی اور کسی کا حق نہیں مارے گی۔ لیکن ماں ہی چا لاک، چلتر، جھوٹی اور دوغلی ہو تو لازما ًاولاد میں اس کا شر منتقل ہوگا۔ جہاں تک مریم نواز شریف کا تعلق ہے تو ان کی والدہ بیگم کلثوم نواز شریف انتہائی نیک ،پارسا، خدا ترس، خوش اخلاق اور مہذب ترین خاتون تھی ۔اولاد میں سب سے زیادہ مریم نواز نے بیگم کلثوم نواز کے ساتھ وقت گزارا ہے اور ظاہر ہے کہ اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس لیے تمام تر بدترین حالات کے مجھے مریم نواز سے امید رہتی ہے کہ ان کے اندر بھی کہیں خوف خدا ترسی اور خدمت گزاری ہوگی۔ وہ کافی عرصے سے بہت سارے اچھے کام کر چکی ہیں۔ لیکن انہیں بہت زیادہ پروجیکشن پر فوکس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جب چاند نکلتا ہے تو سب کو دکھائی دیتا ہے اور جب سورج چمکتا ہے تو اپنی روشنی سے تمام اندھیروں کو نگل لیتا ہے۔ انہیں اپنے کاموں کو زیادہ ہائی لائٹ نہیں کرنا چاہیے ۔اگر لوگ خوش اور مطمئن ہوں گے تو وہ دلوں میں خود بخود جگہ بنا لیں گے۔ کبھی کبھی حکمران اپنے چاپلوس ،ابن الوقت اور سطحی قسم کے مشیروں کے ہاتھوں مارتے جاتے ہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔” سب اچھا“ کی رپورٹیں تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتی ہیں ۔یہ بات مجھے اس لیے کہنی پڑ رہی ہے کہ اگر پنجاب میں ”سب اچھا“ ہے تو پھر پنجاب میں کروڑںلوگ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان اور تنگ کیوں ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف لوگوں تک نہیں پہنچ رہا ،رزق لوگوں تک نہیں پہنچ رہا ،امن و امان لوگوں تک نہیں پہنچ رہا ۔مریم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی پیروی کریں۔ اُن کے انداز حکومت کو اپنائیں۔ اُن کی حکمت عملی پر چلیں اور لوگوں کی خدمت کو شعار بنائیں ۔رضیہ سلطانہ، چاند بی بی اور ملکہ نور جہاں کو سٹڈی کریں تاکہ ان کے کردار اور پرفارمنس سے کچھ سیکھیں۔صدیاں گزر گئی تب نہ کمپیوٹر تھا ،نہ موبائل نہ ٹی وی اور نہ میڈیا ۔خاص طور پر سوشل میڈیا تو ایک برقی رو ہے جو لمحہ بھر میں معلومات دنیا بھر میں پہنچا دیتا ہے تب یہ سب برق رفتار ذرائع نہیں تھے۔ لیکن رضیہ سلطانہ ۔چاند بی بی، ملکہ نور جہاں کی قیادت، ذہانت ،سیاست ،ریاضت ،خدمت اور محبت کی وجہ سے آج تک یہ کردار زندہ ہیں۔ آج کے زمانے میں کوئی ان عظیم کرداروں کو نصاب میں بھی جگہ نہیں دیتا ۔لیکن اُن کا نام بچہ بچہ جانتا ہے ۔ہر شخص ان کے عظیم کردار کی گواہی دیتا ہے اور وہ عورت ذات کے لیے ایک گرانقدرمثال ہیں۔ ان تینوں خواتین کے کردار کابغور جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے شدید مشکلات اور مخالفتوں کا سامنا کیا ۔ان کے گرد شکنجہ کسا رہا لیکن وہ اس شکنجہ سے زور آزمائی کرتی رہیںاور بالآخر کامیاب ہوئیں۔ خوش قسمتی سے بظاہر آپ کے گرد کوئی شکنجہ نہیں ہے۔ ہر سہولت ،آسانی، وسائل اور مہربانیاں آپ کے گرد ہیں۔ لیکن کچھ شکنجے نامعلوم، اندھے اور غیر محسوس ہوتے ہیں ۔میں صرف ایک شکنجے کا ذکر کروں گی جس کا نام” خوشامد“ ہے۔ جب یہ بڑھ جائے اور آدمی کو اس کی لت لگ جائے تو وہ خوشامد، چاپلوسی اور لن ترانیوں کے شکنجے میں پھنس کر بہت سارے غلط کام کر جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پنجاب میں کروڑوں لوگ پریشان ہیں کون کہتا ہے کہ مہنگائی ختم ہو گئی ہے ۔پنجاب میں کم و بیش سات کروڑ ایسے افراد ہیں جن کی آمدنی آپ کے ایک سوٹ کے برابر بھی نہیں ہے ۔چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے وہ نہیں کر رہے، افسوس کے چیئرمین ایف بی آر نے حقیقی صورتحال سے پردہ نہیں اٹھایا کہ جن لوگوں کو ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہیے وہ اپنا خون نچوڑ کر مسلسل ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ مریم نواز شریف کبھی آپ بھی حضرت عمر فاروق ؓکی طرح بھیس بدل کر عوام میں جا کر دیکھیں ۔ان کی آمدنی کا موازنہ اپنے وزیر و ںمشیروں اور ارکانِ اسمبلی سے کر کے دیکھیں تو آپ خون کے آنسو رو پڑےںگی ۔ٹیکس ان لوگوں سے وصول کیا جا رہا ہے جو بالکل تباہ حال ہیں ۔ان کے گرد تو شکنجہ کس دیا گیا ہے۔ کبھی بیماروں کو دیکھیں جن کے پاس دواخریدنے کے پیسے نہیں ہیں ۔کبھی ان بوڑھے کمزور نحیف ونزار اور بے آسرا پینشنروں کے حالاتِ زندگی دیکھیں کہ وہ کس کسمپرُسی کے عالم میں زندہ ہیں ۔زندہ کیا ہیں اپنی زندگی کی ارتھی اپنی ناتواں کندھوں پر اٹھائے موت سے نبرد آزماں ہیں۔ کیا حکومت کو خوف نہیں آتا کہ چند ہزار کی پینشن میں اضافے کے بجائے کٹوتی کر رہی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ سرکاری ملازمین کو سابقہ روایات کے مطابق گھر دیں ۔گروپ انشورنس پر سارے غریب ملازمین کا دارومدار ہے لیکن پانچ سالوں سے یہ رقم حکومت کھا رہی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ بوڑھے کمزور مجبور اور بے سہاراغریب پینشنرز کو وقت پر گروپ انشورنس کے چند لاکھ ادا نہ کیے جائیں بلکہ حکومت اپنے اللّے تللّوں پر یہ رقم لگاتی جائے۔ حکومت یاد رکھے کہ بد دعائیں بہت طاقتور ہوتی ہیں۔ پاکستان میں حکومتیں اپنی مدت اس لیے پوری نہیں کرتیںکہ انہیں غریبوں کی بد دعائیں لگ جاتی ہیں ۔مریم نواز شریف کو چاہیے کہ بے بس ضرورت مندپینشنروں کو گھر دیں، پلاٹ دیں، گروپ انشورنس کی ادائیگی کریں تاکہ لوگ مرنے سے پہلے اپنا گھر دیکھ سکیں۔ گروپ انشورنس سے اپنی بیماریوں کا علاج کرا سکیں ،اپنے بچوں کی شادیاں کرا سکیں یاانہیں تعلیم دلوا سکیں۔ یہ جو ہر دوسرے تیسرے مہنیے نوجوان لڑکے 100، 200 کی تعداد میں روزگار حاصل کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ بیچ کر غیر قانونی طریقے سے باہر جاتے ہیں اور سمندر میں ڈوب کر مر جاتے ہیں یا کنٹینروں میں دم گھٹ کر مر جاتے ہیں تو کبھی آپ نے سوچا ہے ان بے روزگاروں کے گھروں میں چولہا نہیں جلتا ۔وہ تین وقت کے بجائے دو وقت کی روکھی سوکھی کھاتے ہیں ۔ادھار قرض لے کر ایجنٹوں کو پیسے بھرتے ہیں اور بے وقت،بے موت مر جاتے ہیں۔ وہ غربت کے شکنجے میں جکڑ کر جان دے دیتے ہیں ۔پنجاب میں ہر سال سینکڑوں افراد بھوک پیاس اور بے روزگاری سے عاجز آ کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ مولانافضل الرحمن کی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو ایک آدمی کے لیے درجنوں افراد کو سکیورٹی پر مامور کر دیا گیا ہے اور یہ جو لوگ بے روزگاری ،بھوک ا ور مہنگائی سے مر رہے ہیں کیا وہ انسان نہیں ہےں؟؟ مریم نواز شریف !!آپ چاہیں تو امر ہو سکتی ہیں۔لوگوں کو مسائل ومصائب سے نکال سکتی ہیں، دکھی لوگوں کی دعائیں لے کر وزیرا علیٰ سے وزیراعظم بھی بن سکتی ہیں۔ اگر آپ واقعی عوام کی ہمدرد ہیں تو انہیں مہنگائی اور ناروا ٹیکسوں کے شکنجے سے نکالیں۔ انہیں آئی ایم ایف کے چُنگل سے بچائیں۔ ملک میں روزگار فراہم کریں اور خود کو خوشا مدوں کے چُنگل سے نکالیں تو آپ خود اپنے آپ کو” لیڈر“ محسوس کریں گی۔