شاہ نواز سیال
اے غزہ!
تیرے حوصلے، تیری جرات
تیرے زخموں پہ ہمیں ناز ہے
تو مٹی نہیں اک غیرت کی صدا ہے
تو خون میں بھیگے ہوئے ایمان کی دوا ہے
اے غزہ! تجھے سلام
تو چیخ ہے مظلوم کی
تو صبر ہے محکوم کی
تیری ہر آہ میں بغاوت کی صدا ہے
تیرے ہر زخم میں امت کی دعا ہے
اے وادیِ غزہ، تیری حوصلہ مندی، جرا ت، بہادری ، تیرے بچوں کی قربانی ، عورتوں کی جرات، بزرگوں کی وطن سے محبت ،خواتین کی بے پناہ ہمت اور شیرخوار بچوں کی قربانیاں ، اپنے لہو سے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کررہی ہے-
اے غزہ ! ایک بار پھر تو اپنے لہو سے داستاں رقم کررہی ہے ایک ایسی امت کیلئے جس کا خون سفید ہوچکا ہیجو تعداد میں 57 ممالک ہونے کے باوجود برسر اقتدارِ رہنے کے لیے ایک چھوٹے سے ناجائز ملک اسرائیل کا معاشی ،دفاعی اور اخلاقی مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں اگر یہ چاہیں تو چند دنوں میں شکستِ سے دو چار کرسکتے ہیں مگر آج مسلم دنیا کہانی کا خاموش عنوان بن چکی ہے صرف مصلحت کا شکار ہے انہیں اندیشہ ہے کہ اگر انہوں نے ظلم کے خلاف یا اسرائیل کے خلاف ذرا برابر بھی ا?واز اٹھائی تو اپنے اقتدار سے محروم ہو جائیں گے اور ان کی عیاشی کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔
1947ء میں ا قوام متحدہ میں جب مسلم ریاست فلسطین کو یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی تو اس رائے شماری میں پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے اہم اتحادیوں کے چند مخصوص ممالک کو رائے دہی کا حق دیا گیا اس رائے شماری میں تمام رکن ممالک کو شامل نہیں کیا گیا تھا اس کے باوجود یہ قرارداد اتنی بیہودہ تھی کہ اس کی مخالفت میں پانچ اور تائید میں صرف برطانیہ، امریکہ اور فرانس کے ووٹ آئے قرارداد کی منظوری کیلئے صرف تین ووٹ کی ضرورت تھی چنانچہ بدترین دھاندلی کرتے ہوئے رائے شماری میں کْچھ یورپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک کو مالی پیشکش کر کے قراداد منظورِ کرانے کے لیے شامل کیا گیا قرارداد کی منظوری کے بعد 14مئی 1948 کو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا گیا برطانیہ اس قرارداد کا بانی تھا یوں تو مسلم دنیا میں شور مچ گیا لیکن یہ احتجاج بے معنی تھا اس وقت فلسطین میں 94 فیصد مسلمان آباد تھے اور 6 فیصد یہودیوں کی آبادی تھی لیکن قرارداد کی منظوری کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ یہودی 33 فیصد ہیں ایسا کہنا ا?نکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔
نومبر 1948ء میں اسرائیل کا رقبہ 7993 تھا اور اس کے بعد صہیونی ریاست نے اطراف کے مسلم ریاستوں پر قبضہ کرنے شروع کردیے حتیٰ کہ شام کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا 5جون 1948ء کو اسرائیل نے بیت المقدس پر بھی قبضہ کرلیا یوں فلسطینیوں کا وطن ہوکر بھی ان کا نہ رہا فلسطینیوں کو مارا گیا، پیٹا گیا، ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا، لہولہان کیا گیا، شہید کیا گیا، قیدی بنایا گیا، کچلا گیا، غریب الوطن بنایا گیا، ایسا قیدی بنایا گیا جو قانون سے محروم کردیا جاتا ہے غزہ کے شہریوں پر ظلم وستم کی حدیں پار کی گئیں، انہیں پازیب زنجیر کیا گیا، مارپیٹ کی گئی،پھانسیوں پر چڑھایا گیا، دواخانوں پر بھی نہتے زخموں سے چور لہو لہان فلسطینیوں پر بمباریاں کی گئیں جن میں معصوم بچے اور عورتیں سبھی شامل ہیں۔ آج لاکھوں کی فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ،پھر بھی انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کی پیشانی پر بل نہیں پڑے، ان کا ضمیر نہیں جاگا۔
ا?ج دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، حماس سے ہمدردی ہورہی ہے بولیویا جیسے چھوٹے ملک نے بھی اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیا ہے اسی طرح وینزویلا، برازیل اور چلی نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لئے۔ میکسیکو کے عوام بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات توڑ دو صہیونی وزیراعظم کی جاہلانہ اقدام کی وجہ سے صہیونی فنکاروں اور گلوکار وں کو حماس کی پشت پر لاکھڑا کیا ہے اسپین میں نامور فنکاروں نے خطوط لکھے جس میں غزہ میں نسل کشی رکوانے کا مطالبہ اب فرانس میں بھی غزہ کے حق آوازیں آٹھ رہی ہیں اور اہل غزہ کیلئے دعائیں ہورہی ہیں غرض ایک عالم غزہ کے ساتھ ہوگیا ہے لیکن اسرائیل ایسے دردناک ،کربناک اور دل ہلا دینے والے مظالم کرتا جارہا ہے انہیں دیکھ کر اور سن کر مسلمانوں کی شاید ہی کوئی ا?نکھ روئی نہ ہو اور شاید ہی کوئی دل نہ تڑپا ہو ا?ج اسرائیل اپنی طاقت کے نشہ میں اور امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا اعلان کررہا ہے۔
غزہ کے لوگوں کی بہادری، استقامت اور قربانی پر کچھ اشعار ہیں
خون سے لکھی گئی ہے داستاں غزہ کی
ہر بچہ، ہر ماں ہے پہچان غزہ کی
ظلم کے سائے میں بھی وہ مسکرا جاتے ہیں
غزہ کے لوگ عجب حوصلے دکھا جاتے ہیں
مٹی کی خوشبو میں وفا بسی ہے
غزہ کی ہر گلی میں کربلا بسی ہے
مسلم دور کی تاریخ کئی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے یہاں ہم چند ایک واقعات کا ذکر کریں گے ہزاروں مسلمانوں نے دو لاکھ سے رومن افواج کو شکست سے دو چار کیا تھا تاریخ ا?ج بھی حیران ہے کہ یہ واقعہ خالدبن و لید? کی قیادت میں کیسے رونما ہوا وہ کونسی طاقت تھی جس نے مسلمانوں کی مدد کی ٹھیک ایسے ہی طارق بن زیاد نے 700 سپاہیوں کے ساتھ شہنشاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا تھا اس نے اپنی کشتیاں جلاکر اپنے سپاہیوں پر واپسی کے راستے بند کر دیئے تھے نوجوان سالار محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کرکے انصاف اور اخوت پیدا کرنے کا نیا ڈھنگ دنیا کو بتلایا تھا آج مسلم دنیا کی اکثریت امریکہ اور اتحادیوں سے ڈر رہی ہے اور دولت کی غلام بن ہوچکی ہے مسلم دنیا کا المیہ یہ کہ مسلم دنیا جغرافیائی، لسانی، معاشی ،فرقہ وارانہ اور سیاسی تقسیم کا شکار ہے انہیں اسلامی منشور کے مطابق ایک جسم کے مانند ہونے کی جو تعلیم دی گئی تھی آپس کے ذاتی اختلافات کے سبب اسے بھلا دیا ہے جس کی وجہ سے اکثر مسلم دنیا کی قیادت عوامی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات اور اقتدار کی رسہ کشی میں الجھی ہوئی نظر آتی ہے- بدعنوانی، آمریت، اور نااہلی عام ہے
کبھی علم کا گہوارہ کہلانے والی مسلم دنیا آج تعلیم، تحقیق اور سائنسی ترقی میں بہت پیچھے ہے جدید دور میں ترقی کا سب سے بڑا ہتھیار علم ہے جس کو ہم نے ابھی تک صحیح طرح اپنایا ہی نہیں وسائل ہونے کے باوجود اکثر مسلم ممالک میں غربت، بیروزگاری اور معاشی ناہمواری کا شکار ہیں سرمایہ صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے
فلسطین، کشمیر، روہنگیا، شام، یمن دنیا کے ہر کونے میں مسلمان مظالم کا شکار ہیں مگر مسلم حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئیں ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے مگر آج اس کے احکامات کو صرف عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے عدل، مساوات، بھائی چارہ، حقوق العباد ،امانت ان سب بنیادی اصولوں کو مسلمانوں نے فراموش کر دیا گیا ہے۔