کوٹ ادو(خبر نگار)سرائیکی شاعر آج بھی محبت کے پیغام کوعام کررہاہے،دہشت گردی کے اس دورمیں عبدالرزاق زاہد کی شاعری انسان دوستی کی زندہ مثال ہے،ان خیالات کااظہار سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے سنانواں کی دھرتی کے سرائیکی شاعر عبدالرزاق زاہد کے نئے شعری مجموعہ ’’خدا دی وستی‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین ظہور دھریجہ سرائیکی شعراء امان اللہ ارشد، پروفیسر اشرف مشکور، ظفر ڈاہااور حاجی عید احمد دھریجہ نے خطاب کرتے ہوئے کیا،ظہور دھریجہ نے کہا کہ قومیں کتاب سے بنتی ہیں، آج سرائیکی اکیڈمک زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے تو اس میں وسیب کیاہل قلم کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی وسیب کے اہل قلم سیسوتیلی ماں کاسلوک ہوتا ہے،پنجاب حکومت کا رائٹر ویلفیئر فنڈ لاہور میں ختم ہو جاتا ہے،انہو ں نے کہا کہ اکادمی ادبیات کی طرف سے وسیب کے شاعروں کو فنڈز نہیں ملتے ادارہ ان کی کتابیں شائع نہیں کرتا،پنجابی ادارہ پلاک سرائیکی کواس کے حصے کا حق دینے کی بجائے سرائیکی دشمنی پراتراہوا ہے،ظہوردھریجہ نے کہا کہ سرائیکی اہل قلم کی تخلیقات کو محفوظ کرنے کیلئے سندھی ادبی بورڈ سندھیالوجی اور سندھی لینگوئنج اتھارٹی جیسے ادارے کی ضرورت ہے، شاعر ظفر ڈاہا نے کہا کہ عبدالرزاق زاہد کی کتاب’’خدا دی وستی‘‘ میں موضوعات کا ایک جہان پوشیدہ ہے،سادہ لفظوں کو روانی کے ساتھ شاعری میں استعمال کرکے عبدالرزاق زاہد نے پختہ شاعر ہونے کا ثبوت دیا ہے،حاجی عید احمد دھریجہ نے کہا کہ سرائیکی وسیب کے شاعر ادیب اور فنکار طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں،حکومت کی طرف سے کوئی سرپرستی نہیں ہے سرائیکی شاعروں کی کتابیں سرکاری خرچ پر شائع ہونی چاہئیں،سرائیکی شاعروں کی فلاح و بہبود کیلئے سرائیکی ادارے کا قیام بہت ضروری ہو چکا ہے۔