قومی اسمبلی: پانی کی تقسیم کے معاملہ پر ہنگامہ‘ اپوزیشن کے نعرے‘ ایوان مچھلی منڈی بنا رہا

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں اس وقت ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی جب وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے پیپلز پارٹی کے رکن ایاز سومرو کی طرف سے پانی کی تقسیم کے حوالے سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیا پیپلز پارٹی کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور شیم شیم کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اس سے ایوان کا ماحول یکسر تبدیل ہو گیا۔ این این آئی کے مطابق بجٹ پر بحث کے دور ان پیپلز پارٹی کے ایاز سومرو نے بتایا سندھ کو پانی نہیں مل رہا وفاقی حکومت کو پانی کی تقسیم کے حوالے سے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ پالیسی بنانی چاہیے ورنہ صوبوں اور وفاق کے درمیان جنگیں شروع ہو جائیں گی اس پر احسن اقبال کھڑے ہوگئے اور کہا ملک کے مفادات کے خلاف بات نہیں کر نی چاہیے، 1991 میں نواز شریف نے پانی کا معاہدہ کرایا اور اسی کے تحت صوبوں کو پانی مل رہا ہے اس پر پیپلز پارٹی کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور بیک وقت بولنا شروع کر دیا اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پیپلز پارٹی کے نواب یوسف تالپور کو بولنے کی اجازت دی تو نواب یوسف تالپور نے کہا ہم 1991کے واٹر ایکارڈ کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس پر عمل در آمد نہیں ہورہا اس معاہدے پر کچھ تحفظات تھے مگر پھر بھی اسے تسلیم کیا لیکن اس کے مطابق سندھ کو پانی نہیں مل رہا ہے اس پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے ایک مرتبہ پھر شیم شیم کے نعرے لگائے اور کئی ارکان نے سپیکر سے بولنے کی اجازت چاہی مگر سپیکر نے انہیں اجازت نہیں دی اور سردار اویس لغاری کو بجٹ تقریر کی دعوت دےدی۔ آئی این پی کے مطابق احسن اقبال نے ایاز سومرو کی تقریر میں مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت اور وزیراعظم نواز شریف پر شدید تنقید کا جب جواب دیا تو اس پر پیپلز پارٹی کے ارکان مشتعل ہو گئے۔ ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا، مسلم لیگ ن کے ارکان نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی ہنگامہ آرائی سے گریز کیا اور سپیکر نے یوسف تالپور کو بات کرنے کی اجازت دیکر ہنگامہ آرائی پر قابو پا لیا۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق منصوبہ بندی و ترقیات کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا 1991ء میں طے پانے والے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے بعد کوئی صوبہ کسی دوسرے صوبہ کے پانی پر قبضہ نہیں جما سکتا۔ انہوں نے یہ بات ایاز سومرو کے بعض ریمارکس کے جواب میں کہی۔ ایاز سومرو نے کہا تھا حکومت اس بات کا خیال کرے پانی پر جنگ نہ شروع ہو۔ قلت آب کے سبب سندھ کے اکثر علاقوں میں پانی کڑوا ہے۔ احسن اقبال نے کہا ایوان میں غلط حوالے نہ دئیے جائیں۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کا قد کم ہو چکا ہے۔ اب پیپلز پارٹی والے اسے علاقائی جماعت نہ بنائیں اور اس حقیقت کو مدنظر رکھیں اس ملک میں پہلی بار نواز شریف نے 1991ءمیں پانی کا معاہدہ کرایا جس پر چاروں صوبے متفق تھے۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں صرف چار ارکان کے بل بوتے پر اپنی حکومت قائم کر لی تھی اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) نے اپنی اکثریت ہونے کے باوجود اس صوبہ میں قومیت پرست جماعتوں کی حکومت بنوائی ہمارے دور میں دیا جاتا ہے لیا نہیں جاتا۔ آئی این پی کے مطابق قومی اسمبلی میں بجٹ پر جاری بحث کے دوران جمعیت علماءاسلام (ف)‘ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی اسمبلی مولانا امیر زمان‘ سیدہ عائشہ‘ ڈاکٹر امجد نیازی‘ عذر فضل پیچوہو‘ سردار کمال بنگلزئی‘ شہاب الدین خان‘ قیصر احمد شیخ اور شاہدہ رحمانی نے مطالبہ کیا بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے‘ بجٹ میں سود کے خاتمے کی پالیسی دی جائے‘ رمضان پیکج کےلئے 2 ارب روپے ناکافی ہیں‘ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا پھر صوبہ خیبر پی کے میں شامل کیا جائے‘ مزید برآں بجٹ 2013-14ء پر عام بحث دوسرے روز بھی جاری رہی جس میں متعدد حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے حصہ لیا۔ ارکان نے حکومتی اخراجات میں 30 فیصد اور وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات میں 45 فیصد کٹوتی‘ وزیراعظم سمیت وزراءکے صوابدیدی فنڈز کے خاتمے‘ تمام سیکرٹ فنڈز کی بندش اور ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ان مثبت اقدامات سے لگتا ہے تباہ حال معیشت کی بحالی میں حکومت سنجیدہ ہے‘ تحریک انصاف کے راجہ عامر زمان اور جے یو آئی کے اکرم خان درانی نے بھی سرکلر ڈیٹ کے خاتمے اور انرجی بحران کے خاتمہ کیلئے بجٹ میں تجویز کئے گئے اقدامات کی ستائش کی بعض اپوزیشن ارکان نے بجٹ کو عوام اور غریب دشمن قرار دیتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے اور مزدور کی کم از کم اجرت 15 ہزار مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ ثناءنیوز کے مطابق خیبر پی کے سابق وزراءاعلی اکرم خان درانی اور امیر حیدرخان ہوتی نے آبپاشی کے 61 ارب روپے کے عظیم منصوبے چشمہ لفٹ کینال کے لئے بجٹ میں پانچ کروڑ کی معمولی رقم مختص کرنے پر قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شدید احتجاج کیا۔ این این آئی کے مطابق اپوزیشن ارکان نے بجٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا بجٹ میں ریلیف کی بجائے ٹیکسوں میں اضافہ کرکے عوام پربوجھ ڈال دیا گیا ہے جبکہ حکومتی ارکان نے کہا حکومت کو تباہ حال معیشت ورثے میں ملی جس کے باعث سخت اور مشکل فیصلے کرنا پڑے حکومتی اخراجات اور وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈ میں کٹوتی کرکے عوام کو مثبت پیغام دیا گیا کہ عوام کے ساتھ حکومت خود بھی قربانی کیلئے تیار ہے، غریب عوام کی زندگی میں بھی بہتری لائی جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن