حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کا خوش آئند معاہدہ



فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے مابین غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا۔ عرب نیوز‘ ترکیہ کے میڈیا‘ الجزائر میڈیا نیٹ ورک اور بی بی سی کے ذرائع اور قطری وزیراعظم نے اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔ اس معاہدے سے پندرہ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری جنگ کے خاتمہ کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ اس سے قبل حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے کے مسودے کی منظوری دی۔ فریقین میں معاہدے کی خبر سامنے آنے پر غزہ میں کھلے آسمان تلے پڑے فلسطینیوں نے جشن منایا اور سجدے میں گر گئے۔ ہزاروں فلسطینی غزہ کی سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی سے نعرے بلند کئے جبکہ اسرائیلی باشندے بھی خوشی سے نہال ہو گئے۔ 
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کی فیلاڈیلفی راہداری سے انخلاء شروع کر دیا ہے۔ ادھر مصری حکومت نے رفح سرحدی گزر گاہ کے پاس طبی مرکز قائم کر دیا ہے جہاں عملہ اور ایمبولینسز پہنچا دی گئی ہیں۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی سے زخیموں اور مریضوں کو ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔ مصری ہلال احمر کی ٹیمیں بھی صوبہ شمالی سینا پہنچ گئی ہیں جو غزہ پٹی کیلئے امدادی سامان کی ترسیل کی نگرانی کریں گی۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں موجود اسرائیلی مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے پانے کی تصدیق کی اور اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں مغویوں کی رہائی کا معاہدہ ہو گیا ہے‘ وہ جلد ہی رہا ہو جائیں گے۔ اس معاہدے کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔ 
عرب میڈیا کے مطابق غزہ جنگ بندی معاہدہ تین مراحل پر مشتمل ہے‘ معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں پر محیط ہے جس کے دوران اسرائیلی فوج غزہ کی سرحد کے اندر سات سو میٹر تک خود کو محدود کرلے گی۔ جنگ بندی کے اس مرحلے میں اسرائیل تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کریگا جن میں عمر قید کی سزا پانے والے اڑھائی سو قیدی بھی شامل ہیں۔ اسی طرح غزہ میں موجود 33 اسرائیلی مغویان کو بھی رہا کیا جائیگا جس کے بدلے میں ایک ہزار فلسطینی رہا کئے جائیں گے۔ اس مرحلے کے آغاز کے سات روز بعد اسرائیل مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھول دیگا۔ دوسری جانب جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری جاری ہے جس کے نتیجہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 60 فلسطینی شہید ہو گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہر ماہ اوسطاً 475 بچے اور ایک دن میں پندرہ بچے عمر بھر کیلئے معذوری کا شکار ہو رہے ہیں۔ 
اسرائیلی میڈیا کے مطابق معاہدہ کی منظوری سے پہلے حماس نے غزہ پٹی سے اسرائیلی فوج کے مرحلہ وار انخلاء کا جائزہ لیا۔ جنگ بندی کا آغاز ہونے پر قیدیوں کا تبادلہ اتوار سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ قطری وزیراعظم شیخ محمد عبدالرحمن الجاسم نے جنگ بندی کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ معاہدہ غزہ کیلئے انسانی امداد میں اضافے کا باعث بنے گا۔ ہم غزہ میں اپنے بھائیوں کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔ حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کا اطلاق 19 جنوری سے ہوگا۔ اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن نے توقع ظاہر کی کہ جنگ بندی معاہدے سے خطے میں امن قائم ہوگا۔ انکے بقول گزشتہ سال مئی میں پیش کئے گئے جنگ بندی معاہدے کو درست سمت میں آگے بڑھایا گیا‘ یہ معاہدہ امریکی سفارتکاری اور محنت کا نتیجہ ہے‘ جنگ بندی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مذاکرات جاری رہیں گے۔ 
یہ امر واقع ہے کہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے ساے قبل تک اسرائیل کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی ہے جس میں شرف انسانیت کی ہر قدر پامال کی گئی اور اسرائیلی افواج نے فضائی اور زمینی حملوں میں شہری آبادیوں کے علاوہ ہسپتالوں‘ تعلیمی اداروں‘ بازاروں‘ کمیونٹی سنٹرز اور امدادی کیمپوں تک کو ادھیڑ کر رکھ دیا چنانچہ پوری غزہ پٹی عملاً کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی۔ اس وحشیانہ بمباری اور اسرائیلی بربریت کے دوسرے اقدامات سے روزانہ کی بنیادوں پر سینکڑوں شہادتیں ہوئیں جبکہ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بعض رپورٹس میں اس جنگ کے دوران 46 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادتیں بتائی گئی ہیں جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ شہادتیں ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں تو ایک انسان کا قتل بھی پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں تو 1947ء میں برطانیہ اور دوسری الحادی قوتوں کی معاونت سے ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام سے اب تک لاکھوں انسانوں کی جانیں اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم اور اسکے جنگی جنونی اقدامات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور امریکہ سمیت الحادی قوتوں کی معاونت سے اسرائیل فلسطین میں روز کربلا بپا کرتا رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے قبلہ اول (بیت المقدس) سمیت تمام عبادت گاہیں اسرائیل کے ہاتھوں تاراج ہوتی رہیں۔ چھ دہائی قبل اقوام متحدہ نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی روشنی میں مسئلہ فلسطین کا دوریاستی حل نکالا جو اگرچہ فلسطینیوں کیلئے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ اسرائیل کے نام پر قطعی ناجائز ریاست انکی سرزمین سے نکالی گئی تھی جبکہ اسرائیل نے اس معاہدے پر بھی اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہ کیا اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر ارضِ فلسطین پر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا جس پر فلسطینیوں نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور دوسرے فورمز کے ذریعے آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اس تحریک کو دبانے کیلئے اسرائیل کی جانب سے جو ننگ انسانیت حربے اختیار کئے جاتے رہے‘ وہ انسانی تاریخ کے بدترین مظالم کے زمرے میں آتے ہیں مگر فلسطینیوں کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔ 
انہی اسرائیلی مظالم پر اپنے ردعمل کے اظہار کیلئے فلسطینیوں کی عسکری تنظیم حماس نے پندرہ ماہ قبل 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر میزائل حملے کئے جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں پر باقاعدہ جنگ مسلط کردی جس میں امریکہ اور اسکی حواری دوسری الحادی قوتوں نے باقاعدہ جنگی حربی امداد کے ذریعے اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کئے چنانچہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس پر عرب ریاستوں سمیت مسلم دنیا کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی کی بھی نئی مثال مسلمانوں کی تاریخ کے سیاہ ابواب کا حصہ بنی جبکہ فلسطینیوں کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے اور انہوں نے  اپنی جرات و بہادری کی نئی مثالیں قائم کیں۔ 
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اسرائیلی مظالم کی خلاف مغربی دنیا سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنرل اسمبلی اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمتی قراردادیں منظور کرکے جنگ بندی کے تقاضے کئے گئے مگر اسرائیل کی جنونیت کے آگے بند نہ باندھا جا سکا اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دینے کے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے بھی اسرائیل کے جنونی ہاتھ نہ رک پائے۔ اب بادلِ نخواستہ امریکہ بھی حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آرہا ہے اور اسرائیل کے علاوہ حماس بھی اس معاہدے پر عملدرآمد پر رضا مند ہے جس پر مرحلہ وار عملدرآمد کا آغاز ہو رہا ہے تو اسے بہرصورت خطے میں امن و سلامتی کی ضمانت بننا چاہیے۔ آج دنیا عملاً تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے جسے عالمی تنازعات کے فریقین کیلئے قابل قبول تصفیئے سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن