ملک کاشف اعوان
?? bureedahe.sar@gmail.com
جنوری میں کہر اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ سردی کی اک مخصوص کاٹ رگ و پے میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ جنوری کے ساتھ ہی اداسی کا ایک منفرد رنگ پورے کینوس پر پھیل سا جاتا ہے۔ ہر چیز کو اداسی کی سفید چادر اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ وہ بھی ایک ایسی ہی اداس سی شام تھی۔ 15 جنوری 1996 کی یخ بستہ اداس شام۔ مون مارکیٹ لاہور کے باہر ٹریفک کا اڑدھام اپنی معمول کی افراتفری کے ساتھ جاری و ساری تھا۔ لاہور جو زندہ دلوں کا شہر ہے، لاہور جو جذبوں کا شہر ہے، لاہور جو مصرعوں کا شہر ہے – لاہور جہاں غزل کی بنّت نے دائمی عروج کا سفر طے کیا۔ اسی شہرِ لاہور کے ایک پر رونق، بہت آباد بازار کے شور و غوغا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی کڑواہٹ گھل گئی۔ یہ 15 جنوری 1996 کی ایک خون آلود شام تھی۔ خاکی پتلے کہ جس کی جبینِ روشن کے اندر گل و رنگ و پیراہن کی عجیب دنیا آباد تھی، وہ خاک منش پتلہ خون میں نہایا ہوا چھلنی چھلنی وجود کے ساتھ زمین بوس تھا
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے
یہ 16 جنوری 1996 کی صبح کی شہہ سرخیوں کا واویلا تھا — نامور شاعر محسن نقوی کو بھرے بازار میں قتل کر دیا گیا — حاشیے نے محرم کی طرح سیاہ رنگ پہن لیا تھا۔ حروف گنگ تھے مگر اعراب نے کہرام مچا دیا تھا۔ یہ کس کا لہو ہے، یہ کون مرا، یہ کس کا لاشہ گرا؟ یہ 45 گولیوں کی ایک پوسٹ مارٹم رپورٹ کس کی ننگِ انسانیت تربیت کا غماز ہے؟ یہ کون چلا گیا ہے بھرے گھر کا اجالا لے کر؟ کوئی تھا جو عذابِ دید کے سبھی رنگ آنکھوں میں اتار کر بھرے آنگن میں بھوک کا افسانہ لکھا کرتا تھا — وہ محسن — جو طلوعِ اشک سے نئی صبح کا گیت گایا کرتا تھا، ہاں وہی اردو ادب کا آخری شاعر محسن خصت ہو گیا تھا۔
کہیں دور صحراوں میں ہی ریختہ کی کوک پر امن کا چرخہ کاتتی منقبت یتیم ہو گئی تھی۔ کہیں ولی دکنی و مصحفی کے آنگن کا چراغ بجھ گیا تھا۔ یہیں اسی شہرِ لاہور میں غزل سرِ بازار بے رِدا و بے توقیر لٹ گئی تھی۔
محسن نقوی موجِ ادراک سے سیر و شکر ہو کر اردو شاعری کے بندِ قبا کے پیچ کھولنے کے ہنر سے آشنا — شہر کے عذابِ دید سے کوسوں دور مضافات میں قیامِ پاکستان کے سن 47 میں، بٹوارے سے ایک سہہ ماہی قبل 5 مئی کو آنکھ کھولتا ہے۔ اجالے کو اساڑ کر ت رنگیلڑی قبا بنا کر اجلے دامن پر سجانے والے اس عظیم کجکلاہ کو خیمہ سادات نے غلام عباس کا نام دیا تھا جو آٹھویں کلاس تک پہنچتے پہنچتے غلام عباس محسن نقوی بن گیا تھا۔ اسی آٹھویں کلاس میں انفرادیت کے عظیم شاہکار محسن نقوی نے اپنا پہلا شعر کہا تھا۔
ڈیرہ غازی خان کے بلاک 45 میں، کہ جہاں سے بہت سی گلیاں نکلتی ہیں، نسبتاً اک تنگ سی کچی گلی میں جنابِ علی نقی کے خانوادے سے نسبی تعلق رکھنے والے سیّد چراغ حسین کے ہونہار بیٹے غلام عباس نے بی اے تک کی تعلیمی منازل ڈیرہ غازی خان میں ہی طے کیں۔ اس دور کا سارا کلام بعد میں محسن نقوی نے ضائع کر دیا تھا کہ بقولِ محسن "ناگفتنی" تھا۔
سن 70 کا انقلابی دور تھا۔ محسن نقوی گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں ایم اے اردو کا طالبِ علم تھا۔ کالج یونین کا جنرل سیکرٹری، مشاعروں کا سرخیل، لب و لہجے کے زیرو بم سے سماعتوں کو پگھلا دینے کا ہنر جاننے والا محسن ملتان کی ادبی زندگی کی جان تھا۔ نا گفتنی سے گفتنی تک کا سفر طے کر آنے والے کلام کو چھپوانے کا مرحلہ درپیش تھا۔ زندہ دل محسن? کے یاروں نے ایک چندے کے داغ بیل ڈال دی جس کی آغوش سے "بندِ قبا" نے جنم لیا۔ محسن نقوی کے شعری سفر میں بہت سے پڑاو ہیں مگر "بندِ قبا" جیسا سیلِ تند رو نا پید ہے۔
گھنگریالے بالوں والا سرائیکی نوجوان اس شوریدہ سری کے عالم میں اپنی تمام تر گہما گہمی کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کو پیارا ہو گیا۔جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی محسن کے فن کو تیقن کے افق پر ابھارنے کے لیے قومی اتحاد کے چئیرمین مفتی محمود کے مقابل کھڑا کر دیا۔ ڈیرہ غازی خان کی قومی نشست کے لیے لڑا جانے والا یہ دلچسپ دنگل برسوں موضوعِ فکر رہا ہے۔ محسن نقوی بھٹو خاندان کا جیالا سپاہی بن کر ہمیشہ ہی فکری محاذ پر ڈٹا رہا۔ یہ وابستگی آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک سرسبز رہی۔
محسن امن کا پیامبر تھا اور تا عمر محبت کے نغمے گاتا رہا ہے۔ ان فصیلوں میں جہاں بارود اگتا تھا، زہر پھلتا پھولتا تھا — اس شہرِ نفرت کو محسن کی آواز سے بیر تھا۔ محسن ر زندہ دلی کے معجز حرفِ کن ہو کر شعر کہتا رہا، محبت بوتا رہا۔ محسن کہتا ہے زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت نہیں ملتی، یہ خدا جانے لوگ نفرت کے لیے وقت کہاں سے نکال لیتے ہیں۔ محسن اپنی شاعری کو حبس زدہ ایوانوں میں امن کی تازہ ہوا کی نوید قرار دیتا تھا۔ بندِ قبا سے شروع ہونے والا یہ عظیم الشان شعری سفر برگِ صحرا، ریزہ حرف، موجِ ادراک، ردائے خواب، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، فراتِ فکر اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی سے ہوتا ہوا 15 جنوری کی سرد شام پر ختم ہوا جب ٹوٹتی ہوئی نبضوں کے درمیان محسن نے اپنی زندگی کا آخری لازوال شعر کہا
سفر تو خیر کٹ گیا
میں کرچیوں میں بٹ گیا
محسن کے قادر الکلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور ان کے فکری جہان کی وسعتوں کا اندازہ کرنا بھی مجھ ایسے کم سخن کے بس کی بات نہیں۔ ان کی نثری تخلیق کی چند ایک جھلکیاں جو ان کے شعری مجموعوں کے دیباچوں میں قید ہو کر ہم تک پہنچی ہیں، ان کے لفظوں سے کھیلنے کے ہنر کی عکّاس ہیں۔ حرفوں کی قبائیں کتر کر جملوں کہ رنگیں کہکشائیں آباد کر دینے والے محسن نے اردو کی قدرے مشکل صنف "قطعہ نگاری" کو بھی بامِ عروج پر پہنچایا۔ خصوصاً منقبت کے رنگ میں رنگے ہوئے قافیوں نے محسن کے مذہبی رجحانات کو نئے معانی دیے اور یوں محسن مجالس کے منبر سے صدائے بے نوا بن کر گونجنے لگا۔ محسن نے اپنی شاعری میں ایسے ایسے نادر و نایاب خیالوں کو پرویا ہے کہ شاعری کی سمجھ بوجھ رکھنے والا اس کی فکر کی اڑان دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔
اِک ”جلوہ“ تھا، سو گم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
1994 میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی پانے والے محسن کی شاعری کے کینوس میں رنگ محدود نہ تھے۔ وہ کسی ایک جہت کا شاعر تھا ہی نہیں۔ رومانویت کی صحبت سے کشتِ فیض اٹھانے والا محسن مفلسی کا بھی نوحہ لکھنے والا تھا۔ کربلا کے دائمی غم کو سینے سے لگانے والے محسن کو مزدور کی المناک رات کے مصائب کا بھی ادراک تھا۔ اک طرف سرمایہ کاری کے محل میں اپنے قلم سے نقب لگانے میں مصروف محسن معاشرے میں ازل سے برسرِ پیکار خیر و شر کی جنگ سے بھی حظ اٹھاتا تھا۔ وہ صرف چاندنی کا ہی عاشق زار نہ تھا، وہ غم کے بیگار میں ڈوبی بھوک کا بھی نوحہ خواں تھا۔ اپنے عروج پر محسن نے ظلم کی اس جہت کے خلاف آواز بلند کی جس کا بویا ہوا زہر عہدِ حاضر کی نسلوں نے لاشوں کے انبار سجا کر کاٹا۔پھر وہی ہوا جو ہر ثنا خوانِ حق کا مقدر ہے۔ محسن بھی وہی چراغ تھا جس کو دہشت گردوں کی گولیوں نے بجھا دیا…
یہ جاں گنوانے کی ت یونہی رائیگاں نہ جائے
سر سناں، کوئی سر سجاو ! اداس لوگو
پوسٹ مارٹم کے سفید کاغذ پر درج 45 گولیاں نوحہ کناں تھیں — یہ جو مر گیا ہے، اک یہی تو نگار خانے میں محبت کی آواز تھا — پھر سے کوئی نیا زخم کھاو اداس لوگو!!