عورت کی صلاحیت اکثر اس ایک جملے کے زیرِ اثر دب کر رہ جاتی ہے کہ عورت کم عقل اور کم تر ہے۔ اس جملے کی بنیاد پر ایک عمومی رائے قائم کر لی جاتی ہے کہ مرد نہ صرف عورت سے برتر ہے بلکہ ہر معاملے میں زیادہ قابل اور ذہین بھی ہے۔ اس کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ اگر عورت میں صلاحیت ہوتی تو اللہ تعالیٰ حکومتی معاملات عورت کے سپرد کرتا۔ ہم جس اسلام کی بات کرتے ہیں، اس میں عورت کے کردار کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ اسلامی روایات میں سب سے زیادہ احادیث عورتوں نے روایت کی ہیں۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ عورت ناقص العقل یا کم فضیلت رکھتی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احادیث کے حوالے سے ہمارا ایمان پھر کس مقام پر کھڑا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جو چیز زیادہ افضل اور قیمتی ہوتی ہے، اس کی حفاظت کا نظام بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری اور افضل کتاب کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک ایسے نبی ؐ کا انتخاب کیا جو نبیوں میں سب سے افضل اور اللہ کے محبوب نبی ہیں۔
یہی اصول معاشرتی سطح پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ مرد کی تربیت اور نشوونما کرنے والی ایک عورت ہوتی ہے۔ ماں اپنے بچے کو زندگی کے ابتدائی اصول، آداب، اور اخلاقیات سکھاتی ہے۔ وہ اسے کھانے کے آداب، بات کرنے کا طریقہ، اور انگلی پکڑ کے چلنا بھی سکھاتی ہے۔ اس کی ہر لمحہ رہنمائی کر کے اسے ایک باشعور انسان بناتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ناقص عقل رکھنے والی یا کمتر شخصیت ایک مکمل انسان کی تربیت کر سکے؟
مرد اور عورت جسمانی ساخت اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں، مگر ذہانت اور دماغی ساخت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ عقل اور ذہانت جنس کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوتی۔ اگر عورت کے دماغ میں سیریبرم یا دیگر حصے مرد کے مقابلے میں مختلف نہیں ہیں، تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ وہ ذہانت میں کم ہے؟ ذہانت کا انحصار ماحول اور ایکسپوڑر پر ہے۔ وہ خواتین جو محدود ماحول میں پروان چڑھتی ہیں، جہاں ان کی رائے یا فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ اپنی ذہنی استعداد کو کیسے بڑھا سکتی ہیں؟ اس کے برعکس، وہ خواتین جنہیں فیصلہ سازی کے مواقع ملتے ہیں اور جن کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، وہ مردوں سے کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہوتیں۔ یہی اصول مردوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ محدود تجربات رکھنے والے مرد بھی زندگی کے اہم معاملات میں فیصلے کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
معاشرتی تعصب کی ایک واضح مثال وہ رویہ ہے جس کا سامنا اکثر خواتین کو اپنے پیشہ ورانہ زندگی میں کرنا پڑتا ہے۔ مجھے خود کئی مواقع پر ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑا جو عورت کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ ایک بڑی آرگنائزیشن میں ورکشاپ کے دوران، میری پیشکش دیکھ کر وہاں کے ڈائریکٹر نے مجھ سے سوال کیا ،کیا یہ پریزنٹیشن آپ کے شوہر نے تیار کی؟ایک انٹرویو کے دوران، پروپوزل تیار کرنے کے بعد مینجنگ ڈائریکٹر نے پوچھا: "اس میں آپ کے شوہر کا کتنا ان پٹ ہے؟"
ایم فل کے دوران ایک استاد نے کہا کہ آپ کے کالم اپ کے والد صاحب لکھ کر دیتے ہیں۔
یہ سوالات معاشرتی منافقت کو بے نقاب کرتے ہیں، جہاں عورت کی قابلیت کو اکثر مرد کے نام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔مرد اور عورت دونوں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا شاہکار ہیں اور دونوں اپنی جگہ اہم ہیں۔ عورت کی صلاحیت اور ذہانت کو جنس کی بنیاد پر کم تر سمجھنا معاشرتی تعصب اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ عورت کو نہ صرف اپنے مقام کو پہچاننا ہوگا بلکہ اپنے حقوق اور صلاحیتوں کا دفاع بھی کرنا ہوگا۔ معاشرتی رویے تب ہی تبدیل ہو سکتے ہیں جب عورت اور مرد دونوں مل کر ان تعصبات کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔