خداکیلئے اب بس کردو



یہ اکتوبر58ءکا اواخر تھا کہ ایک جنرل محمد ایوب خاں نے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔وجہ اس کی اصل یہ تھی کہ 56ءکا آئین بن چکا تھا جس کے تحت آئندہ عام انتخابات ہونے والے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ انتخابات ہوجاتے توکوئی سویلین ملک کی عنان اقتدار سنبھال لیتا۔چونکہ مشرقی پاکستان کے ووٹ زیادہ تھے اس لئے یہ بھی "خطرہ"تھاکہ کہیں کوئی بنگالی ملک کا وزیر اعظم بن جائے لہٰذا اس کاحل یہ نکالا گیا کہ ملک میں جنرل ایوب خاں نے مارشل لاءلگا کردس سال کے پاکستان کو یر غمال بنالیا۔
اگرچہ اس وقت کے صدر اورپاکستان کے شاطر ترین حکمران سکندرمرزا نے ابھی اپنے غلط طرز عمل سے ملک کو اس اندھیرے میں دھکیلا۔کیونکہ 7اکتوبر 58ءکو اسی نے مارشل لاءنافذ کیا تھا اور جنرل ایوب خاں کوچیف مارشل لاءایڈمنسٹریڑمقرر کیا۔چندروز بعدہی اسی جنرل ایوب خاں نے سکندر مرزاکوگرفتار کرکے اسے لندن جلاوطن کردیا اورخود پورے فوجی کروفر سے ملک پر حکومت کی۔ اسی نشے میں چورجنرل ایوب نے پاکستان کے ایک ذہین ترین سابق وزیر اعظم حسین شہیدسہرودی کو جب وہ بیروت میں تھے ،انہیں "پراسرارحالات" میں شہیدکروادیا۔پھر جب 64ءمیں اس کا مقابلہ قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح سے ہواتو وہ "بھاری اکثریت "سے بی ڈی ممبران کے ووٹ لے کر جیت گئی جو اس وقت کا انتخابی ادارہ تھا۔پتہ نہیں سب کیسے ہوگیا۔حساب آج ساٹھ سال بعد بھی ٹھیک طورپر واضح نہیںہورہا۔کیونکہ مادرملت سب سے بڑے صوبے مشرقی پاکستان کراچی اوربلوچستان سے کامیاب ہوئیں۔آج تک یہ معمہ حل نہیں ہوسکاکہ وہ ہاریں کیسے ۔
ان انتخابات کے نتیجے میں ایوب خاں کے اقتدار کو "چب"پڑگیاوہ غیر مقبول ہوناشروع ہواتو65ءجنگ شروع کرنے کے عمل نے اسے بچالیا اوروہ کچھ سال اورحکومت کرگیا۔تاہم اسی دوران جنرل ایوب خاں نے مادر ملت کو بھی ©"پراسرارحالات" میں کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر شہید کروادیا تاکہ اس کا کوئی بھی مخالف زمین پر نظر نہ آسکے ۔لیکن اسکے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ دور بہت دور" اگرتلہ" کے مقام پر مشرقی پاکستان سے ابھرنے والا ایک نوجوان شیخ مجیب الرحمان جسے جنرل غدار قراردے چکا تھا اورجنرل کاہی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اورخود اس کی اپنی سپاہ کاسالار جنرل یحی خاں اسکے کمزورہونے کا انتظار کررہے ہیں ۔
وہ پاکستان جو تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا تھا 65ءکی جنگ سے منہ کے بل زمین پر آن گرا تو ایوب خاں کے خلاف مشرقی ومغربی پاکستان میں تحریک چل پڑی ۔تحریک اپنے عروج پر پہنچی تویحی خاں نے جنرل ایوب خاں سے استعفیٰ لے لیا اور "ملک کوبچالیا" جی ہاں ہمارے ہاں یہی ہوتا آیا ہے کہ جب لوگوں میں تھوڑی سے حرکت اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے پیداہوتی ہے توکوئی طالع آزماجرنل "ملک بچانے"آجاتا ہے اورلوگوں کی گردن میں طوق ڈال دیتاہے ۔
اب یحییٰ خاں کا مارشل لاءشروع ہوا۔اس نے پہلی بار"ایک فرد ایک ووٹ"کی بنیاد پر انتخابات کااعلان کردیا اورساتھ ہی یہ شرط عائد کردی کہ اگر 120دنوں میں منتخب اسمبلی آئین نہ بناسکی تو اسے توڑ دیاجائے گا۔سیاسی جماعتوں نے ایک طویل انتخابی مہم چلائی اور70ءکے انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ نے 162نشستیں حاصل کرکے سب کوحیران کردیا۔دوسری طرف ذوالفقارعلی بھٹو مغربی پاکستان سے 81 نشستیں حاصل کرکے مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے طورپر ابھرے۔
 اب منظرنامہ کچھ یوں تھاکہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اورمغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی منتخب شدہ اکثریتی جماعتیں تھیں ۔ملک میں حکومت بنانے کا حق شیخ مجیب الرحمان کوتھا۔ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر صدر پاکستان جنرل یحی خاں نے غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرکے اکثریت کے گلے پر چھری پھیردی۔یہ اجلاس پھر دوبارہ کبھی نہ ہوسکا۔اورنہ ہی شیخ مجیب الرحمان کا حق اقتدارتسلیم کیاگیا۔بنگالیوں نے اپنے حق حکمرانی کے لئے تحریک چلائی تو جنرل یحییٰ خاں اوراس کے ٹولے نے بنگالیوں پر فوجی ایکشن شروع کردیا۔حق مانگنے والوں کو حق کی جگہ موت ملی۔ان کے گھر بارلوٹ لئے گئے ۔انکی خواتین کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں ۔ایک سال کے لگ بھگ جاری رہنے والے اس فوجی ایکشن کے نتیجے میں بالآخر عوام جیت گئے اوران پر گولیاں برسانے والوں کوانڈین افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے جو تاریخ عالم کا سب سے بڑا سرنڈر تھا جس میں نوے ہزار فوجی اوراس سے متعلقہ اداروں کے لوگ گرفتار ہوکرجنگی قیدی بنے ۔گویا جنرل یحییٰ خاں نے بنگالی مسلمانوں کو اقتدار سونپنے کی بجائے ،ھندودشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنا زیادہ "باعزت"سمجھا۔
ایوب خاں کے بعداب دوسرا جرنیل بھی عوام کے ہاتھوں رسوا ہوکراقتدارکے ایوانوں سے اپنے گھرکوروانہ ہوچکا تھا۔بقیہ پاکستان کی حکمرانی اب ذوالفقار علی بھٹو کے حصے میں آئی ۔اور73ءمیں ایک متفقہ آئین بنا اورنافذالعمل ہوا۔بھٹو نے نہ جانے کیوں قبل ازوقت انتخابات کااعلان کردیا۔ شائد اسکے ذہن میں تھاکہ وہ اپوزیشن کو دباچکا ہے ،کوئی سامنے نہیں لہٰذا یہ وقت انتخابات کے لئے موزوں ہے ۔
انتخابات ہوئے مگر دھاندلی بھی بہت ہوئی۔ اپوزیشن جوپہلے ہی "پاکستان قومی اتحاد"کے نام سے اکٹھی ہوچکی تھی اس نے ایک زبردست تحریک چلائی اورایک بارپھر فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق "ملک کوبچانے"کے نام پر اقتدار سنبھالنے آگئے۔ ان کا دورظلم وستم سے بھرپور تھا۔گیارہ سال تک وہ ملک کو جس سمت چاہتے لے جاتے ۔انہیں یہ بھی گمان تھاکہ وہ مضبوط ایمان والے ہیں اس لئے کوئی ان کو پچھاڑنہیں سکتامگر ان کے پیچھے بھی بے شک امریکہ کی مدد سے ہی سہی کچھ جرنیل لگے ہوئے تھے جہنوں نے آخرکار انہیں ایک فضائی حادثے میں مرواڈالا۔اس طرح ایک تیسراحکمران جرنیل بھی اپنے غیر طبعی انجام کو پہنچا۔
آخری جرنیل جس نے سیاسی حکومت ختم کرکے اقتدارپر قبضہ کیا وہ جنرل پرویز مشرف تھا جس نے بڑی آن بان سے حکومت کی ،اس کے پیچھے بھی جنرل کیانی لگاہوا تھا جس نے چیف جسٹس افتخارچوہدری کے ساتھ مل کر تحریک چلوائی اورجنرل پرویز مشرف کواقتدار کی راہداریوں سے اٹھا کر دبئی کی گلیوں میں بھیج دیا۔مگر جنرل مشرف آخری جنرل نہیں تھا جس نے سیاسی حکومت کوتباہ کیاہو۔
٭....٭....٭

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن