ادھوراپن

سفینہ سلیم 


انسان کی ازلی جستجو کا نوحہ، ایک ایسا آئینہ جس میں ہر شخص کو اپنی روح کی تھکن دکھائی دیتی ہے۔
زندگی ایک طویل صحرا کی مانند ہے جہاں ہر شخص اپنے دل کی پیاس بجھانے کے لیے کسی نخلستان کی تلاش میں بھٹکتا ہے۔ ہم سب کسی مکمل لمحے، مکمل مقام، مکمل تعلق یا مکمل پہچان کی آرزو میں دوڑتے ہیں۔ یہ آرزو ہمیں بظاہر طاقت دیتی ہے، مگر درحقیقت ہماری اندرونی پْرسکون فطرت کو دھندلا دیتی ہے۔
یہ مکمل ہونے کی تڑپ اکثر ایک ایسے سراب کا تعاقب بن جاتی ہیجو دکھائی تو دیتا ہے مگر چھوا نہیں جا سکتا۔ ہم اسے پانے کی تمنا میں اپنی نیندیں، مسکراہٹیں، حتیٰ کہ اپنا اصل بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر ایک خلا ہوتا ہے ایک ایسی خاموش پکار، جو دنیا کے شور میں دب جاتی ہے۔ ہم دوسروں کے طے کردہ پیمانوں پر خود کو ناپنے لگتے ہیں کامیابی، محبت، حسن، دولت، مقام اور جب ان پیمانوں پر پورے نہیں اترتے تو اپنے آپ کو ادھورا سمجھنے لگتے ہیں اورخود کومکمل کرنیکی دوڑمیں بھاگ نکلتیہیں 
مگر ستم یہ ہے کہ جیسے ہی ہم ایک پیمانے پر خود کو مکمل کرتے ہیں تو ایک نیا پیمانہ سامنے آ جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی سیڑھی پر چڑھ رہے ہوتے ہیں جس کی آخری سیڑھی محض ایک فریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکمل ہونے کی ہر کوشش کے بعد ہم پہلے سے زیادہ تھکے، زیادہ الجھے، اور زیادہ ادھورے ہو جاتے ہیں۔ میرینزدیک انسان دراصل ایک کمہار ہیجو اپنی ذات کا برتن بناتا رہتا ہے۔ ہر بار وہ سمجھتا ہے کہ اب کی بار یہ برتن کامل ہوگامگر وہ ہر بار تھوڑا سا ٹیڑھا، تھوڑا سا خالی، تھوڑا سا کچا رہ جاتا ہے۔
یہی انسان ایک ایسا چراغ بھی ہے جو دوسروں کو روشنی دیتا ہے، مگر اندر ہی اندر خود گھلتا جاتا ہے۔ مکمل ہونے کے شوق میں وہ اپنی لو اتنی تیز کرتا ہے کہ خود کو ہی جلا بیٹھتا ہے۔مگرخود کومکمل نہیں کرپاتااوراپنیدل کیکتبیپرادھورالفظ لکھ لیتاہیمگر شاید یہی ادھورا ہونا اس کی اصل پہچان ہیکیونکہ مکمل چیزیں مر جاتی ہیں، اور ادھوری چیزیں یاد رہ جاتی ہیں یادگارکہانی بن جاتی ہیں۔ ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص، کوئی رشتہ، کوئی تجربہ ہمیں مکمل کر دے گا۔ مگر جب ہم اپنے آپ کو کسی اور میں مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم اپنی خودی کو ان کے آئینے میں تحلیل کر دیتے ہیں۔
پھر وہی آئینہ دھندلا ہو جاتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہیاور ہم اپنے عکس کو پہچاننے سے قاصر رہ جاتے ہیں توپھرہم نء منزل کیخواب بْنتے ہیں کہ جب وہ منزل مل جائے گی، جب وہ کامرانی نصیب ہوگی، جب وہ شخص ہمیں چاہے گاتو ہم مکمل ہو جائیں گے۔
مگر خواب کبھی مکمل نہیں ہوتے۔
انسان خود ایک خواب ہیادھورا، متحرک، اور مسلسل بکھرتا ہوا۔
انسانی تخلیق کا فلسفہ بھی یہی کہتاہیکہ انسان کا "ہونا" بذاتِ خود مکمل ہونے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ کسی چیز کا مکمل ہونا دراصل اس کے سفر کا اختتام ہے، جبکہ زندگی کی اصل روح سفر ہی میں ہے۔
پھول جب مکمل کھلتا ہے، تو مرجھانا شروع ہو جاتا ہے۔
درخت جب پورے پھل دے چکتا ہے، تو اس کے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔
محبت جب مکمل تسکین دینے لگے، تو کبھی کبھی بوجھ بن جاتی ہے۔
ادھورا پن ہمیں متحرک رکھتا ہے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم سوال اٹھائیں، راستے تلاش کریں، خود کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور شاید یہی ادھورا پن ہی وہ دہلیز ہے جہاں انسان کے تخلیقی جوہر جنم لیتے ہیں۔
ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ سب سے یادگار کردار وہی ہوتے ہیں جو مکمل نہیں ہوتے ہیملیٹ، راجہ گدھ کا قیوم، میرا جی کی شاعری کے بھٹکتے کردار، یا غالب کا بکھرا ہوا لہجہ۔ وہ سب کچھ پا نہیں سکے، اور اسی لیے وہ سب کچھ کہہ گئے۔
ادھورے لوگ مکمل کہانیاں چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ ان کے اندر وہ خاموشی ہوتی ہے، جو مکمل لوگوں کے ہجوم میں گم ہو جاتی ہے۔
تکمیل ایک چمکتی ہوئی تتلی کی مانند ہے جسے ہم ہر بار پکڑنے دوڑتے ہیں، مگر وہ ہر بار ہماری انگلیوں سے پھسل جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگلا لمحہ، اگلا تعلق، اگلی کامیابی، ہمیں مکمل کر دے گی۔ مگر ہر مکمل لمحہ، ایک نیا خلا اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہیایسا خلا جو اور بھی زیادہ بھوکا ہے، اور بھی زیادہ اندھا۔
انسانی خوایشات ایک ایسا پیالہ ہیں جو جتنا بھرا جائے، اتنا ہی خالی محسوس ہوتا ہے۔ ہماری خواہشات، دراصل ریت کے وہ ذرے ہیں جو ہاتھوں میں سمٹتے نہیں، اور جتنی زور سے تھامنے کی کوشش کی جائے، اتنی ہی تیزی سے بکھر جاتے ہیں۔
مگرسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا ہمیں مکمل ہونے کی خواہش ترک کر دینی چاہیے؟
شاید نہیں۔
مگر اسے زندگی کا مرکز نہیں بنانا چاہیے۔
اصل حسن اس میں ہے کہ ہم خود کو اپنی ادھوری حالت میں قبول کریں جیسے چاند اپنی ہر شکل میں خوبصورت ہے، جیسے درخت خزاں میں بھی معنویت رکھتے ہیں۔
تو پھر سوال یہ نہیں ہے کہ ہم مکمل کیوں نہیں ہیں؟
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے ادھورے پن سے کیسے جیتے ہیں؟
کیا ہم اپنے اندر کے اس خالی گوشے کو کرب سمجھتے ہیں یا اسے تخلیق کا منبع مانتے ہیں؟
کیا ہم مکمل ہونے کے خبط میں جینے سے قاصر ہیں، یا ادھورے ہونے کی شان سے واقف ہو چکے ہیں؟
لہٰذا، جب بھی مکمل ہونے کی خواہش ہمیں بے چین کرے، تو خود سے ایک مکالمہ کرنالینابہترہے
شاید میرا یہ ادھورا پن ہی میرا جمال ہے، رب کائنات کاکمال ہے، میری شناخت ہے۔
ادھورے ہونا ایک نعمت ہے، ایک خاموش برکت جس سے ہم یہ سمجھ سکتیہیں کہ ہم مسافر ہیں مستقل مکیں نہیں ہم چراغ ہیں، آفتاب نہیں ہم لہرہیں ساحل نہیں۔

ای پیپر دی نیشن