بابا کرمو کے سوال نے محو حیرت کردیا !! کہنے لگے یہ بتادیں کہ ججز کس آرٹیکل کے تحت خطوط لکھتے ہیں اور وکلا کس قانون اور آئین کے تحت جوڈیشل کمیشن کی کاروائی روکنے پر احتجاج کرسکتے ہیں۔ جواب میں کہا اگر ان سوالات کا جواب ان کے پاس ہوتا تو یہ میڈیا پر سب کو بتاچکے ہوتے۔ میں نے کہا ان کا ایسا کرنا کسی قانون کے مطابق نہیں ہے تو پھر اس کا حل کیا ہے اس روز میرے دوست غیور آئے ہوئے تھے۔ غیور نے کہا اگر وقت ہو تو میرے ساتھ چلیں۔میں ایک ایسے بندے سے ملواتا ہوں جو کاشتکار ہے۔ میں اس سے سوال کرونگا ان کے جوابات اور سوالات آپ نے غور سے سننے ہیں۔ پھر ہم کھوکھے پر ڈرنک کریں گے اور اس پر سیر حاصل گفتگو کریں گے۔بابا کرمو نے یہ سن کر فوری شیطان سے پناہ مانگی۔ میں نے کہا آپ نے ڈرنک کو غلط سمجھا ؟ ہم عام مشروبات کی بات کر رہے ہیں ہیں۔ پھر ہم سب ایک کاشتکار کے ہاں پہنچے۔ان سے کہا ایک دو منٹ کے سوال پوچھنے اپنے دوستوں کے ساتھ ایا ہوں کاشتکار نے پرتباک استقبال کیا۔گھر کے ساتھ ہی اس کے کھیت تھے۔ غیور نے کہا کیا ہمیں کھیت دکھائیں گے۔ کہا کیوں نہیں مگر کوئی دیکھنے والی چیز نہیں ہے۔پھر بھی ہماری خواہش پر کھیت دکھانے ہمارے ساتھ چل دئے۔ یہ کھیت دکھانے ایسے ہی ہمیں ساتھ لے گیا جیسے ہم سے کوئی اجنبی ہمیں سپریم کورٹ کا وزٹ کرانے کا کہے پھر انکی فرمائش پر لے جاتے ہیں ہم بھی یہی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ دیکھ کر یہ کیا کریگا۔ خیر جب ہم کھیت پر پہنچے تو میرے اس دوست نے کاشتکار سے سوال کیا کہ کھیتوں میں کیا کچھ جڑی بوٹیاں ایسے ہوتی ہیں جو پودوں کو پھلنے پھولنے نہیں دیتی۔ پودوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ کاشتکار سے یہ بھی پوچھا اس کا حل اپ کے پاس کیا ہوتا ہے۔ کہا بہتر حل تو یہ ہوتا ہے ایسی جڑی پوٹیوں کو جڑ سے نکال کر باہر پھینک دیں۔ پھر دوسرا حل یہ ہے کہ ان پر سپرے کر دیا جائے۔ لیکن سپرے اس لیے کامیاب نہیں ہوتا کہ یہ دو نمبر کیمکل سے بنتا ہے۔لہزا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس کے بعد ان جڑی بوٹیوں کو نکالنا ہی بہتر حل ہوتا ہے لیکن یہ کام ڈرا محنت طلب ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے ان سے اجازت لی اور کھوکے پر جا بیٹھے کہا کڑک چائے دیں۔ بابا کرمو نے پوچھا اب بتائیں یہان کھیتوں پر کیوں لائے۔ تھے دوست نے کہا کہ اس لئے کہ اس سے اپ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ پوچھا کیا سمجھانے لائے تھے۔ مسکرا کر کہا آپ کا سوال تھا کہ ججز اور جیل کے قیدی خطوط کس آرٹیکل کے تحت چیف جسٹس اور چیف ارمی کو لکھے جا رہے ہیں؟ جواب سمجھانے کیلئے یہاں لایا تھا۔ کہا آپ اب یہی سمجھیں کہ اڈیالہ جیل اور جوڈیشری بھی ایک کھیت کی قسم ہے۔ جس میں پودے لگے ہوئے ہیں۔اس کا پہلا کھیت اڈیالا جیل پھر ڈسٹرکٹ کورٹ پھر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ ہے۔ اس میں جو ڈیشری کو نقصان دینے والی جڑی بوٹیاں وہ جیل کا وہ نظام ہے اس میں وہ پولیس کلرک اور کچھ ججز کی شکل میں بد دل ہو کر کام کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو خود کام نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی کرنے نہیں دیتے اگر یہ ٹھیک نہیں ہونگے انصاف دینے کے بجائے یہ خطوط لکھتے رہے گے۔ کیڑے نکالیں گے ان کو ٹھیک کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ چیف جسٹس انہیں سمجھاتے۔ کہا جاتا ہے ایسا ہی آپ کر چکے ہیں۔ یعنی اگر یہ پھر بھی نہیں مانتے تو پھر ریفرنس لایا جائے۔ کاشتکار نے جیسے بتایا تھا کہ سپرے کرنے سے بعض جڑی بوٹیوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا لہذا بہتر حل یہی ہے کہ ان جڑی بوٹیاں کو تلف کیا جائے تاکہ یہ مزید نقصان نہ پہنچائیں۔اب ایسا یی حال یہاں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ اب مجھ سے پوچھا آپ اس پر کیا کہتے ہیں؟ کہا موجودہ چیف جسٹس سے پہلے جو جسٹس قاضی عیسی تھے ان کے خلاف بھی انہی چند ججوں نے طوفان کھڑا کر رکھا تھا۔ اب قاضی صاحب جا چکے ہیں مگر اب چیف جسٹس یحیی افریدی کے ساتھ بھی یہ ویسا ہی سلوک کر رہے ہیں جیسے انہوں نے چیف جسٹس قاضی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز پنجاب سندھ بلوچستان سے آرٹیکل 200کے تحت لائے جا چکے ہیں۔ صدر پاکستان نے ان کی ٹرانسفر قانون اور آئین کے آرٹیکل دوسو کے مطابق کی ہے۔ اسلام اباد میں دو ججز نئے لگائے گئے ان کا حلف لینا بنتا تھا وہ لیا جا چکا ہے۔ چیف جسٹس ڈوگر صاحب سے صدر پاکستان حلف لے چکے ہیں یہ سب کچھ آئین کے مطابق ہوا ہے۔جو ججز ٹرانسفر ہو کر آئے ہیں لہٰذا ان کو نیا حلف لینے کی ضرورت۔ نہیں پھر ان کی سینیارٹی پر سوال اٹھائے۔جب کہ سینیارٹی لسٹ ان کے باس چیف جسٹس نے بنائی تھی۔ اگر اس کو نہیں مانتے تو اس کا ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ گھر چلے جائیں۔ یہ ججز فرماتے ھیں کہ یہ ججز نیا حلف لیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کس قانون کس آئین کے آرٹیکل کے تحت یہ نئے حلف لینے کی بات کر رہے ہیں۔بابا کرمو نے کہا پھر تو ان کا کام ان بچوں جیسا لگتا ہے جو بچپن میں کہتے تھے کہ نا کھیلنا ہے اور نہ کھیلنے دینا ہے۔ ایسے ہی ان کے رویہ ہیں یہ کہہ رہے ہیں نہ کام کرنا ہے اور نہ کام کرنے دینا ہے۔ایسا کرنے سے پیسے کا وقت کا ضیاں ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے دو کے خلاف ریفرنس دائر ہو جائے۔بابا کرمو نے کہا اس موقع پر تندور کی ماسی مجھے یاد آ رہی ہیمیں تندور سے روٹی لینے گیا ماسی کو پیسے دیئے اور انتظار کرنے لگا اسی دوران اک اور بندہ آیا اس کو شاید جلدی تھی یا بہت سے لوگوں کی طرح رعب جھاڑنا چاہتا تھا، تندور والی ماسی سے اس نے دو تین بار جلدی روٹی لگانے کا کہا، ماسی نے سنی ان سنی کر دی۔وہ صاحب جو رعب جھاڑ رہے تھے پھر مزید غصے سے روٹی لگانے کو کہا جس کے جواب میں ماسی نے اسے تاریخی جملہ کہا جس کے بعد میرے سمیت کسی کی اس کو روٹی جلدی لگا نے کے مطالبہ کی جرأت نہ ہوئی۔ ماسی نے کہا۔"صبر کر ماما ، جے تو ایڈا بدماش ہوندا تے گھر ای بیوی سے روٹیاں پکوا لیندا"کیا گھر والی نے تمہیں یہاں مجھ پہ روپ ڈالنے بھیجا ہے۔بہتر ہے آپ اپنی اوقات میں رہو۔یہ سن کر وہ ٹھنڈا ہو گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔۔ماسی کی بات کا ان خطوط لکھنے والوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔ مجھے معلوم ہے اپ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ ان خط لکھنے والوں کو بھی کاش کوئی ایسا ہی ماسی جیسا جواب دے دیتا تو یہ مزید خط لکھنے کی جرات نہ کرتے۔ اب چیف جسٹس یحیی آفریدی نے ججز ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بنا د? دیگر صوبوں کے چیف جسٹس بھی حلف اٹھا چکے ہیں۔۔ پیالی میں جو طوفان تھا وہ اب ختم ہے۔دعا ہے نئے ججز کو کام کرنے کی کی اللہ توفیق دے۔آمین