تکلم برطرف  

 مشتاق اے سرور

پاکستان کو اس وقت جن بڑے قومی چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں معاشی بحران سب سے گہرا اور پیچیدہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، تجارتی خسارے میں اضافہ، کرنسی کی گراوٹ، اور صنعتی سست روی نے ملکی معیشت کو بریک لگا دی ہے۔ ایسے حالات میں معاشی استحکام کی طرف مؤثر اور جلد اقدامات کرنا ناگزیر ہو چکا تھا۔ 2023 میں حکومت نے اسی پس منظر میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ صرف ایک انتظامی اقدام نہیں، بلکہ معیشت کی اصلاح کے لیے ایک نیا فریم ورک اور نقطہ آغاز تھا۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ میں کئی دیرینہ مسائل حائل رہے ہیں۔ بیوروکریسی کا پیچیدہ نظام، مختلف وزارتوں کی غیر مربوط حکمت عملیاں، سیاسی غیر یقینی صورتحال، غیر واضح پالیسیز، عدالتی تاخیر، اور کرپشن جیسے عناصر نے سرمایہ کاروں کو بددل کیا۔ چین، بنگلہ دیش، ویتنام اور حتیٰ کہ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں، جبکہ پاکستان ایک ممکنہ بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود عالمی سرمایہ کاروں کی ترجیحات سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ SIFC کے قیام کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم سول حکومت اور عسکری اداروں کا باہمی اشتراک ہے۔ وزیراعظم اس کونسل کے سربراہ ہیں، جبکہ وفاقی وزراء￿ ، وزرائے اعلیٰ، چیئرمین BOI اور اعلیٰ عسکری افسران اس کا حصہ ہیں۔ اس ماڈل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ فیصلے جلد اور شفاف انداز میں ہوں، ادارہ جاتی ہم آہنگی بڑھے، اور سرمایہ کار کو ایک محفوظ، مربوط اور پرعزم ریاست کا پیغام ملے۔ کونسل نے ابتدائی طور پرجن اہم شعبوں کو ترجیح دی ہے ان میں زراعت و فوڈ پراسیسنگ، کان کنی و معدنیات، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت و اسپیشل اکنامک زونز اور لائیو سٹاک شامل ہیں۔ ان شعبوں میں سرمایہ کاری نہ صرف معیشت میں نئی روح پھونک سکتی ہے، بلکہ لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار، ٹیکنالوجی کی منتقلی، برآمدات میں اضافہ اور صنعتی ترقی کا سبب بن سکتی ہے۔
کونسل کے قیام کے بعد چند ہی مہینوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین سمیت متعدد ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا۔ معدنیات، تیل و گیس، قابلِ تجدید توانائی اور انفراسٹرکچر کے میدان میں معاہدے طے پا چکے ہیں۔ CPEC کا دوسرا مرحلہ بھی اب SIFC کے دائرہ کار میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ IT انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھلی ہیں، جس میں فری لانسرز اور اسٹارٹ اپس کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو رہی ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے سرمایہ کاروں میں اعتماد کی فضا بحال کی ہے۔ جب سرمایہ کار کو معلوم ہو کہ اس کے مسائل فوری سنے جا رہے ہیں، حکومتی سطح پر معاونت موجود ہے، اور قانونی و مالی تحفظ حاصل ہے، تو وہ سرمایہ کاری کے لیے راضی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی  Ease of Doing Businessکی رینکنگ میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، حالانکہ یہ ابھی ابتدائی مرحلہ ہے۔
اگرچہ ایس آئی ایف سی کو عمومی طور پر سراہا جا رہا ہے لیکن کچھ حلقوں کی طرف سے اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ سوال فوج کے بڑھتے ہوئے کردار پر اٹھائے جا رہے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے سول اداروں کا کردار کمزور ہو سکتا ہے، اور جمہوری ڈھانچے پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں جب سول ادارے خود کارکردگی کے بحران کا شکار ہوں، تو فوری اور نتیجہ خیز اقدامات کے لیے عسکری اشتراک فائدہ مند ہو سکتا ہے، بشرطیکہ یہ اشتراک شفاف، غیر سیاسی اور قومی مفاد پر مبنی ہو۔
اس وقت وطن عزیز کو جو معاشی مسائل درپیش ہیں ان کا تفصیلاً جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ SIFC میں فوج کی شمولیت پر جھوٹے پراپیگنڈے کا جو طوفان اٹھایا جا رہا ہے وہ مطلق عاقبت نا اندیشی ہے۔ وہ لوگ جو اس گیم چینجر منصوبے کی اہمیت سے نابلد ہیں وہ نادانی و کم علمی کے باعث اس منصوبے کی بے جا مخالفت کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فوج کی شمولیت نے SIFC کو ایک ایسا ادارہ بنایا جہاں سول اور عسکری قیادت باہمی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ ماضی میں مختلف ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کے بغیر کام کرتے رہے، جس سے سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ فوج نے اپنی بھرپور تنظیمی صلاحیتوں سے ادارہ جاتی رکاوٹوں کو کم کرنے میں مدد دی۔ پاکستان میں سرمایہ کار، بالخصوص غیر ملکی سرمایہ کار، سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات رکھتے ہیں۔ فوج کی شمولیت نے سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دیا کہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ریاستی ادارے اس کی مکمل ضمانت دیتے ہیں۔ بیوروکریسی کی سست روی اور پیچیدہ طریقہ کار نے ماضی میں کئی سرمایہ کاری کے منصوبے ناکام بنا دیے۔ فوج کے تجربہ کار اور نظم و ضبط سے آراستہ افسران کی نگرانی میں SIFC کے فیصلے فوری اور مؤثر انداز میں نافذ کیے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اب یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ معاشی سلامتی، قومی سلامتی کا جزو لاینفک ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت کے استحکام کا براہ راست اثر داخلی استحکام پر پڑتا ہے، وہاں فوج کی شمولیت ایک حکمت عملی کے تحت کی گئی جس کا مقصد صرف سرمایہ کاری کو فروغ دینا نہیں بلکہ پاکستان کو معاشی طور پر خود کفیل بنانا ہے۔
جن حلقوں کی جانب سے SIFC میں فوج کے کردار پر تنقید کی جا رہی ہے، چند نکات کی بنیاد پراس تنقید کو غیرمنصفانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلا جو تاثر دیا جاتا ہے وہ اختیارات پر قبضے کا پراپیگنڈہ ہے، تنقید کرنے والے یہ تاثر دیتے ہیں کہ فوج سول اختیارات پر قبضہ کر رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ SIFC میں تمام فیصلے سول اور عسکری نمائندوں کی باہمی مشاورت سے ہوتے ہیں۔ فوج کا کردار نگران اور سہولت کار کا ہے، فیصلہ ساز کا نہیں۔ اس سلسلے میں مخالفین کی جانب سے ماضی کی مثالوں کا حوالہ دیا جاتا ہے، بعض افراد ماضی کی فوجی مداخلتوں کو بنیاد بنا کر موجودہ کردار کو بھی مشکوک بناتے ہیں، حالانکہ موجودہ تناظر بالکل مختلف ہے۔ یہ مداخلت نہیں بلکہ تعاون ہے جو عوامی مفاد میں، اور ایک معاشی ہنگامی صورتحال کے تناظر میں ہو رہا ہے۔
 جب سے SIFC قائم ہوا ہے، پاکستان میں سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور چین جیسے ممالک کی سرمایہ کاری میں دلچسپی بڑھی ہے۔ اگر یہ کسی دوسرے ادارے یا نظام کے تحت ہوتا، تو شاید اس رفتار سے ممکن نہ ہوتا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے صرف فوجی کردار پر تنقید کرنا ایک جانبدارانہ رویہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، ان کے حل کے لیے غیر روایتی، ہنگامی اور مؤثر اقدامات کی ضرورت تھی۔ SIFC کے قیام اور اس میں فوج کی شمولیت اسی حکمت عملی کا حصہ تھی، جس نے اب تک مثبت نتائج دیے ہیں۔ ایسی کسی بھی قومی کاوش پر بے جا تنقید، نہ صرف قومی مفاد کے خلاف ہے بلکہ ایک مؤثر ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ SIFC میں فوج کا کردار ایک فراست بھرا، وقتی تقاضوں کے عین مطابق اور مکمل طور پر مثبت اقدام ہے، جس پر تنقید حقائق سے زیادہ مفروضات پر مبنی ہے۔
یہ منصوبہ ایک گیم چینجر بن سکتا ہے۔ SIFC کا قیام پاکستان میں ایک معاشی انقلاب کی تمہید ہو سکتا ہے۔ اگر اسے نیک نیتی، شفافیت، اور کارکردگی کے اصولوں پر چلایا جائے تو یہ کونسل پاکستان کو خودکفالت، صنعتی ترقی اور معاشی استحکام کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پالیسیز میں تسلسل برقرار رکھا جائے، سیاسی مداخلت سے گریز کیا جائے، شفافیت کو مقدم رکھا جائے اور نتائج پر مبنی نظام قائم کیا جائے۔ SIFC محض ایک کونسل نہیں، بلکہ ایک موقع ہے، پاکستان کے لیے اپنی معاشی تقدیر کو نئے سرے سے لکھنے کا۔ اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن