آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
ویسے تو کبود کے معنی نیلگو ںکے ہیں یہ ایسا نیلا رنگ ہے جسے کئی مقامات پر سوگ کی علامت سمجھا جاتا ہے اور نحس تصور کیا جاتا ہے لیکن آج کی نشست میں جس کبودی کا تذکرہ مقصود ہے اس کا مکمل وجود ہی نحس تھا جو کہ ہمیشہ انسانیت کے لئے باعث تکلیف ،باعث آزار ہی رہا , ایک گھٹیا افکار و اعمال کا حامل انسان جس سے ہر کوئی واقف ہے ۔ اس نے اپنی ریاست کو ریاست کبودی کا نام دے رکھا تھا اور اس کا کام محض اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا اور گھٹیا سازشیں سوچنا ہی ہوا کرتا ہے اسکی ذات بغض، کینہ ، دھوکہ دہی اورتمام تر مکروہات کا عملی نمونہ تھی،کوئی بعید نہ تھی کہ مسلمانوں کے بغض میں وہ اپنے ہی علاقوں پر حملے کروا کر اپنے ہی لوگوں کو مروا دیا کرتا تھا تاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا سکے ، وہ ایک نفسیاتی جنگی جنون کا مارا انسان تھا جو مائوں سے بچے چھین کر تسکین محسوس کیا کرتا تھا اور ظلم و بربریت اسے سکون دیتے تھے
فطرتا وہ ایک بزدل انسان تھا لیکن اسکی خواہش تھی کہ کسی طرح کچھ ایسا ہو جائے کہ پوری دنیا میں اسکی طاقت اور شہرت کا ڈنکا بجنے لگا لیکن اسکی یہ خواہش کبھی بھی دیوانے کے خواب سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہ پا سکی وہ آئے دن نت نئے حربے آزماتا رہتا ، اول فول بکتا ، بڑھکیں لگاتالیکن اسکی مکروہ شخصیت کنھی بھی کسی بھی طریقے سے توجہ کا مرکز نہ بن پاتی ۔۔اس کاہمیشہ دل چاہتا تھا کہ وہ طاقتور اور ذہین و فطین کہلائے اس شوق کے پیش نظر وہ پہلے بھی کئی دفعہ بزدلانہ اور جاہلانہ کارروائیاں کر چکا لیکن اس کو ہر مرتبہ منہ کی کھانا پڑی کہتے ہیں کہ اسی مسلسل شکست وتذلیل کے باعث کبودی اور اس کے کارندے ہر وقت اپنی جیب میں ایک سفید رومال رکھا کرتے تھے تاکہ جس وقت انہیں پھر سے شکست فاش دکھائی دے اسی وقت وہ اپنی اپنی جیب سے سفید رومال نکال کر لہرا سکیں اور امن کے اس استعارے کے بل بوتے پر بال بال ہی سہی لیکن بچ سکیں
روایت ہے کہ اسلام دشمنی اور جنگی جنون سے مجبورکبودی نے ایک مرتبہ پھر ریاست ’’پاک ستان ‘‘ پر حملے کا مکروہ فیصلہ کیا تاکہ وہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی مرکز نگاہ بن سکے لیکن وہ نجاست سے بھرا ہوا انسان اس بات سے آگاہ نہیں تھاکہ جس ریاست کے نام کے معنی ہی ’’ پاک جگہ‘‘ کے ہیں وہاں اسکا اور اسکے ناپاک کارندوں کا وجود آخر کتنی دیر ٹک پائے گا کہ ہر پاک جگہ سے ناپاک موجودات اور مکروہات کا نیست و نابود ہو جانا تو روز روشن کی طرح ہمیشہ سے عیاں ہے محسن نقوی نے کیا خوب کہا تھا کہ
ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن پھر بھی تجھے
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
یہ حملہ بھی چونکہ ہمیشہ کی طرح ایک بزدلانہ کاروائی تھا اسلئے چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں کیا گیا ریاست پاکستان ہمیشہ سے واقف تھی کہ ایک مکار ہمسایہ کی صورت انکی اپنی ہی بکل میں چور چھپابیٹھا ہے جس کا چہرہ کسی بھی وقت بے نقاب ہو سکتا ہے سو وہ مستعد تھے ،متحرک تھے اور انہوں نے سیاہ رات میں کی گئی سیاہ کاروائی کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ دشمن کو اسکی اوقات ایک مرتبہ پھر یاد دلا دی
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ریاست کبودی نے دوسرے ممالک سے مہنگے ترین طیارے منگوا کر اس بزدلانہ کاروائی میں استعمال کئے اور انہیں نہ صرف خود خفت اٹھانا پڑی بلکہ جری، بہادر جوانوں کی جانب سے غیر ملکی طیاروں کو نیست و نابود کروا کر ان بچارے ممالک کی کارکردگی اور انکے بنائے گئے طیاروں کی پائیداری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا جو کہ ریاست کبودی کے لئے نقصان در نقصان ثابت ہوا ذلت و رسوائی یہیں نہیں رکی بلکہ پاکستان کے پرامن باسی جو زیرک اور باشعور تھے جانتے تھے کہ دونوں ریاستیں جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں اور جنگ کا نتیجہ محض دونوں اطراف کی تباہی ہے ۔۔ جب ان پررات کے اندھیرے میں جنگ مسلط کر دی گئی اور خود کو بچانے کے لئے بارہا سفیدرومال لہرا کر بھی جھوٹی اور مکار ریاست کبودی نے حملے جاری رکھے تو یہاں کے جوان بھی اٹھ کھڑے ہوئے کہتے ہیں کہ جب پانچ طیارے ریاست پاکستان میں صحیح سلامت غازی بن کر لوٹے تو کبودی کی تذلیل و رسوائی کا منظر دیکھنے لائق تھا وہاں کا میڈیا جو صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی تھا وہ بھی ان جری بہادر نوجوانوں کی فاتحانہ کاروائی کا تذکرہ کئے بنا نہ رہ سکا حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کبودی کے سیاسی، صحافتی کارندے بھی اسکی طرح جھوٹ اور فریب کے علمبردار تھے اور جنگی جنون میں جھوٹ پر جھوٹ نشر کیا کرتے تھے لیکن نہ جانے جیسے وہ بھی سچ کہے بنا اور تعریف کیے بنا نہ رہ پائے شاید انکے بارے میں ہی شاعر نے کہا تھا کہ
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
قصہ مختصر ریاست پاکستان کی کارکردگی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لکھی گئی ان عظیم کارناموں اور فاتحانہ کاروائیوں کی تمام تفصیلات لکھنے بیٹھے تو کالم کئی اقساط پر مشتمل ہو جائے گا سو آج کے لئے اتنا ہی بہت ہیں
یہ سب کچھ پاک بھارت جنگی صورتحال کے پیش نظر یاد آگیا خیریہاں تو اب فتح کے بعد الحمدللہ سیز فائر ہو چکا ہے دشمن نے ہمیشہ جیب میں رکھا ہوا سفید رومال یعنی امن کا سفید پرچم بھی لہرا دیا ہے شنید ہے کہ دو طرفہ معاملات بشمول آبی جارحیت مذاکرات کی صورت بھی جلد طے پا جائیں گے اور مزید کسی بزدلانہ کاروائی سے اجتناب کیا جائے گا کیونکہ یہ امر بھی حقیقت پرمبنی ہے کہ کسی بڑی جنگ سے نبرد آزما ہونے کے لئے فقط جوانوں کا بہادری اور عقلمندی کے ساتھ مستعد ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ عوام اور حکمرانوں کے لئے بھی عقلمندی اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا لازم ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں افسوسناک امر رہا کہ اس نازک وقت میں جنگ کے دوران بھی آپسی اختلافات قائم رہے اور ایک دوسرے پر طعنے برسانے کا عمل بھی جاری رہا ایسے نازک حالات میں جس باہمی اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے اسکی شدت سے کمی رہی جو کہ بے حد نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا ۔۔دوسری اور اہم بات جو کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے و ہ یہ ہے کہ جنگ کسی بھی مسلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ کمزور معیشت کے حامل، بیروزگاری اور غربت کے مسائل کے شکار ممالک میں مزید مسائل کی وجہ ضرور بنتی ہے پاکستان اور بھارت معاشی اعتبار سے اسقدر مستحکم بالکل بھی نہیں کہ کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو سکیںان ممالک کی جنگ کی صورت میں صورتحال اس پنجابی محاورے کی سی ہو گی جو بہت پہلے سنا تھااور آج رہ رہ کر یاد آ رہا ہے کہ
’’ بھکھے نے بھکھے نوں چک ماریا تے دوہواں نوں غش پے گیا ‘‘
یعنی بھوکے نے بھوکے کو کاٹا تو دونوں کو ہی غش پڑ گیا
عقلمند کے لئے اشارے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی محاورہ بھی کافی ہوتا ہے !