مروہ خان میرانی
کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو دنیا میں آئے اپنا مقصد پہچانا اور اس راستے پر چل پڑے، دنیا کی بھیڑ میں بھٹکے نہیں بلکہ اپنی روح کو اصل حقیقت سے روح شناس کیا۔ میں علم والے لوگوں کی بات کر رہی ہوں جنہوں نے اپنے آپ کو علم کے ذریعے مقدم کیا۔ اور یہ جان لیا کہ جاننے والا اور نہ جاننے والا ایک برابر نہیں ہے۔ یہ بات میں نہیں بلکہ قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے اور سوال کرتا ہے۔
"بتاو¿ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہے (اپنے رب کی طرف سے)"- (سورہ زمر آیت: 9)
حکمت بھی اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے ایک بہترین تحفہ ہے جو ہر انسان پر عطا نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حکمت کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا مانگتے تھے۔ اور جس کو حکمت اور شعور آ جاتا ہے اس میں علم حاصل کرنے کی جستجو پیدا ہو جاتی ہے۔میں اس حدیث مبارکہ سے بے انتہا عقیدت رکھتی ہوں اور حیران ہوں کہ اتنا بہترین ہمارے پاس خزانہ ہونے کے باوجود بہت سے مسلمان اس سے بے پرواہ اور لاپرواہ ہیں۔ دنیا کی مال و دولت میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا اور دن رات اپنے آپ کو کمانے میں غرق کر دینا یہ آج کل کی زندگی گزارنے کا شیوہ بن گیا ہے۔ زمینیں جائیداد اور ان کو حاصل کرنے کے لئے اور پھر مزید دنیا میں مال و دولت اور مزید زمین و جائیداد بڑھانے کے لیے زندگی صرف کی جا رہی ہے۔ جبکہ بہترین جائیداد اور اس خزانے کے وارث کون ہے اور کون بن سکتے ہیں ہم اسے لا علم ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے
"انبیاءعلیہ السلام اپنے ورثہ میں روپیہ پیسہ نہیں چھوڑا کرتے ان کا ورثہ تو یہی علم ہوا کرتا ہے جس نے علم حاصل کر لیا وہ بہت بڑے حصے کا مالک ہو گیا"- (ابو داو¿د)
اللہ اکبر!
انبیاءاسلام کے وارث بننے سے زیادہ خوش قسمتی اور بھلا کیا ہو سکتی ہے؟.. جتنا علم ہم حاصل کریں گے اتنی ہی انبیاءاسلام کی جائیداد میں ہمارا زیادہ سے زیادہ حصہ ہوگا۔سبحان اللہ! کیا ہی خوبصورت راستہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہمیں سمجھایا ہے۔ یہ حکمت ہمیں سمجھ آ جائے تو شاید دنیا کی مال و دولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ہم علم کے پیچھے دوڑے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جو شخص علم کی بات تلاش کرنے کے لیے کسی راستے پر چلا تو اللہ سبحانہ و تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دے گا"- اس بات کا اندازہ مجھے حال ہی میں منعقد ہونے والے کتاب میلے میں ہوا جہاں صرف علم کے لئے چنے گئے لوگوں کی چہل پہل تھی۔۔ لاہور انٹرنیشنل بک فیئر 2025 جوہر ٹاو¿ن 5 فروری سے 9 فروری تک جاری رہا. میں وہاں سنگ میل پبلیکیشن کے سٹال پہ موجود تھی۔ جہاں سے مجھے اپنی پہلی کتاب جو کے انگریزی میں ہے
"ALLAH SWT's Most Wonderful Creations; The Angels & The Prophets'
شائع ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ پہلے تو میں سنگ میل پبلیکیشن کی شکر گزار ہوں کہ نہ صرف وہ اپنے مصنفین کو عزت و احترام سے نوازتے ہیں بلکہ ہر آنے والے خریدار کو بھی اتنی ہی عزت دیتے ہیں جتنا کہ ایک مصنف کو۔ اور میری کتاب جو کہ نہ صرف بچوں بلکہ ہر عمر کے لوگوں کے لیے ہے, اس کتاب کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن تعاون کرتے ہیں۔
وہاں پہ آتے جاتے لوگوں کا کتابوں میں شوق خصوصا بچوں کا رجحان دیکھ کے دل میں خوشی محسوس ہوئی کہ آج کل کے دور میں کچھ لوگوں نے اپنے مشغلے کی سمت سیدھی رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب وہ علم والے ہیں جو جنت کے راستے پہ چلنا چاہتے ہیں سبحان اللہ! میرے ذہن میں ان لوگوں کے لیے یہ حدیث مبارک مستقل آ رہی تھی۔ "طالب علم کے لیے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں آسمان و زمین کی تمام مخلوق عالم کے لیے دعا کرتی ہے یہاں تک کہ مچھلیاں سمندر اور چونٹیاں اپنے سراخوں میں اہل علم کی بقا کے لیے دعا کیا کرتی ہیں۔ عالم کی فضیلت جاہل عابد پر ایسی ہے جیسے چاند کی تاروں پر"- (ابو داو¿د)
ہر ایک آنے والا شخص خوش قسمت تھا کیونکہ ایک دفعہ ایک شخص سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت مسجد میں ایک سرخ رنگ کے بچھونے پر تشریف رکھتے تھے۔ اس نے حاضر ہو کے عرض کیا کہ میں علم حاصل کرنے کی غرض سے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا طالب علم کو مبارک ہو طالب علم کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ایک طالب علم کی زیارت کے لیے ملائکہ اس قدر جمع ہوتے ہیں کہ اوپر تلے جمع ہوتے ہوتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہیں"۔ (طبرانی)
خود اندازہ کر لیجئے کہ ایکسپو سینٹر کے ہال میں انسانوں کے ساتھ ساتھ ملائکہ کی بھی بے حساب موجودگی ہوگی۔
واثلتہ بن اسقع کی روایت میں ہے کہ طالب علم اگر اپنی سعی میں کامیاب ہو گیا اور علم حاصل کر لیا تو دوہرا اجر ملتا ہے ورنہ ایک اجر تو اس کا کہیں گیا ہی نہیں- (طبرانی)
مطالعہ کا شوق خود پیدا نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ راستے کا انتخاب خود کرنا پڑتا ہے۔ بہترین ہیں وہ والدین جو اپنی اولاد کو ایسی ایگزیبیشن میں لے کے جاتے ہیں تاکہ ان کا رجحان مطالعہ کی طرف بڑھے اور مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ کاوش رائیگاں نہیں جائے گی اور بہترین استاد اور عالم مستقبل میں ہمارے اثاثہ ہیں۔
علم آپ کو نہ صرف زندگی بِتانے کے اصولوں سے آگاہی دلاتا ہے بلکہ شیطان کے خلاف بہترین ہتھیار ہے۔ "ایک عالم اور فقیہ شیطان پر ایک ہزار جاہل عابدوں سے بھاری ہے"-(ترمذی)
مطلب یہ ہے کہ جاہل آدمی کتنا ہی عابد ہو شیطان کو اس پر قابو پا لینا آسان ہے مگر عالم پر قبضہ کرنا مشکل ہے۔ لیکن علم حاصل کرنے کا دوسرا خطرناک اور اہم پہلو ہے جس کو اکثر پڑھے لکھے لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں وہ عاجزی انکساری ہے۔ یہی علم نعمت سے زحمت بن جاتی ہے اگر علم کے ذریعے انسان غرور و تکبر میں مبتلا ہو جائے استغفر اللہ۔ جیسا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ کے واقعے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہی انسان کے اوپر صرف رحمت ہے جس کے بغیر ہم خاک سار ہیں چاہے پھر عالم فاضل ہوں یا پھر کوئی ولی اللہ۔
شیخ جیلانی رحمت اللہ علیہ ایک رات جنگلوں میں اللہ تعالی کی عبادت کر رہے تھے کہ ایک نور ظاہر ہوا اور آواز آئی۔ تم نے اپنے رب کی اتنی عبادت کی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے تمہیں تمہارے سارے فرائض سے بری کر دیا ہے۔۔ شیخ عبدالجلانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے فورا "لاحول ولا قوة الا باللہ اور عوذ باللہ من الشیطان الرجیم' پڑھا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو زندگی کی آخر تک رب کی عبادت کرنے کا حکم نازل ہوا تھا تو میں تو ایک عام انسان ہوں، جب انبیاءکو اس بات سے نہیں روکا گیا تو یہ کیسے ممکن ہے یہ بات مجھ پر نازل ہو۔ جس سے شیطان کا وار ختم ہو گیا۔ پھر شیطان نے مزید کہا کہ تمہیں تمہارے علم نے بچا لیا ہے۔ اس پر شیخ عبدالقادر جیلانی نے پھر فرمایا کہ تم ایک دفعہ پھر میرے اوپر وار کر رہے ہو مجھے میرے علم نے نہیں مجھے میرے رب نے بچایا ہے۔ یعنی کہ یہی علم آپ کو اللہ کی رحمت نہ رہے تو ابلیس بھی بنا سکتی ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے:
"اے اللہ! میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے اور اس دل سے جو اللہ سے نہ ڈرے اور اس نفس سے جو اسودہ نہ ہوتا ہو۔ اور مزید فرمایا کہ علم دین کا نفع یہی ہے کہ آدمی اس پر عمل کرے اور خلق کو اس کی طرف بلائے"۔ (صحیح)
علم کی لاج عاجز و انکساری میں ہے۔ سب سے زیادہ علم کی کمی ہی یہی ہے کہ انسان علم کا تکبر کرے۔
سنگ میل کے سٹال پہ اور مختلف پبلیکیشن کے سٹالوں پر ادیبوں کی بیٹھک سے مجھے یاد آیا۔
"جب کبھی جنت کے باغوں کے پاس سے گزرا کرو تو انہیں سے کچھ کھا لیا کرو۔ کسی نے پوچھا کہ بہشت کے باغ کون سے ہیں؟ فرمایا علم اور اہل علم کی مجالس"- (طبرانی)
ایسی علم والی محفلوں میں اٹھا بیٹھا کریں جو کہ پھول کے باغوں کی مانند ہے۔ جب آدمی وہاں سے جاتا ہے تو خوشبو اپنے ساتھ لے کے آتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے۔ کیا ہی وہ محفل ہو گئی جہاں پہ استاد اور طالب علم ایک برابر ہو جائیں۔ کچھ وہاں سے سیکھیں اور کچھ وہاں پہ سکھائیں۔
آخر میں سنگ میل پبلیکیشن کے لیے دعا گو ہوں کہ جو کہ جنت کے راستے کو آسان بنانے کے لیے لوگوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ جن کے پاس علم کے خزانے کی وافر مقدار موجود ہے۔ جو جتنا علم کی جائیداد سے حصہ لینا چاہے وہاں سے حاصل کر سکتا ہے۔ ایسے رزق میں بے پناہ برکت ہو جو کہ انبیاء اسلام کی سنت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں علم والا بنائے اور علم والوں سے تعلق جوڑنے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب مل کے اہل جنت میں سے ہو جائیں۔ آمین یا رب العالمین