دباؤ کا شکار حکومتیں

ستر کی دہائی میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں دو ہی سیاسی جماعتیں ہیں، ایک پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری اینٹی پاکستان پیپلز پارٹی‘ اِس قول کے اثرات حالات کے شدید مد و جذر کے باوجود 1985ء کے غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونے والے عام انتخابات تک قائم رہے۔اِن انتخابات کا پیپلز پارٹی کی نوجوان قیادت نے بائیکاٹ کر دیا تھا جس کے باعث 1988ء کے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کا مضبوط گڑھ پنجاب اْس کے ہاتھ سے یوں پھسلا کہ لاکھ کوششوں کے باوجود پھر قابو میں نہ آ سکا۔ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز میاں محمد نواز شریف پنجاب میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں یعنی نواز شریف کی مسلم لیگ اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اسی انداز میں گتھم گتھا رہیں جس طرح گزشتہ چند سالوں سے مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی باہم دست و گریباں ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ درج بالا قول اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ جماعت کا نام بدل گیا ہے اور ماضی بعید کی تاریخ دہراتے ہوئے پی ٹی آئی بھی ماضی کی پیپلز پارٹی کی طرح شدید اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔
 یہ بات زبان زد عام ہے کہ مزاحمتی سیاست کرکے پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت کا درجہ حاصل چکی ہے۔ اِسی سرگرمی کی بدولت دہائیوں حریف رہنے والے آج حلیف کی حیثیت سے الگ مفاداتی سوچ رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کی معاونت کر رہے ہیں۔ تاہم دریاؤں سے نہریں نکالنے کے حالیہ معاملے پر پی پی پی سراپا احتجاج ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی 46ویں برسی پر گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے، ’’یہ عوام کا مطالبہ ہے کہ نئے کینالز نامنظور ہیں۔ پیپلز پارٹی عوام کے ساتھ کھڑی ہوگی، آپ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی‘‘۔ پاکستان میں مفاہمتی سیاست کے کاریگر، آصف علی زرداری کا موقف بھی نرم اور غیر واضح نہیں ہے‘۔ چنانچہ پیپلز پارٹی صوبہء سندھ میں اپوزیشن اور عوامی دباؤ کی زد میں ہے اور اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔
پاکستان میں آنے والے وقت کا پاک پروردگار کے علاوہ کسی اور کو علم نہیں ہوتا۔یہ امر اکثر اوقات تمام تر پیشین گوئیوں، امکانوں، استخاروں، اندازوں، تجزیوں اور تبصروں سے بالا تر ہوتا ہے۔تاہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اِس وقت تینوں بڑی جماعتیں اور چاروں صوبائی حکومتیں حالات کے شدید دباؤ کی زد میں ہیں۔ حکومت ملک کی سیاسی و اقتصادی زبوں حالی کی وجہ سے کوششوں کے باوجود عوام کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ شہباز شریف کی حکومت کے سامنے اندرونی و بیرونی مسائل کا ایک انبار لگا ہوا ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں انتھک محنت کے باوجود حالات پوری طرح قابو میں نہیں آ رہے۔ دونوں صوبائی حکومتیں بھی تلخ دور سے گزر رہی ہیں۔ 
پی ٹی ائی کے ساتھ حکومتی مذاکرات بے معنی اور لاحاصل مشق سے زیادہ کا رتبہ حاصل نہیں کر سکے۔ شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کی گھٹن زدہ فضا میں حکومت اور پی ٹی آئی ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگرچہ موجودہ امریکی انتظامیہ حکومت پاکستان سے رابطے میں ہے جس کی وجہ سے وہ پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان کے حق میں کی گئی لابنگ کے اثرات زائل ہونے پر دباؤ سے نکل چکی ہے مگر پھر بھی ٹرمپ کے حقیقی ارادوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے دنیا کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان بھی پریشانی میں مبتلا ہے۔ پی ٹی آئی میں اندرونی توڑ پھوڑ کی وجہ سے نفسیاتی طور پر حکومت وقت کو ریلیف تو ملا ہے مگر حکومت کو یہ دھڑکا بھی لگا رہتا ہے کہ کسی وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی ڈیل کے نتیجے میں حکومتی سیٹ اپ کہیں اپ سیٹ ہی نہ ہو جائے۔ 
حکومت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور بجلی کے نرخ کم کرنے پر اترا رہی ہے۔ بلا شبہ یہ دونوں حکومتی دعوے درست بھی ہیں۔ علاوہ ازیں، وفاقی شماریاتی ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فروری 2025ء  میں افراط زر کی شرح 1.5 فیصد رہی جو حکومتی دعوؤں کے مطابق گذشتہ 113 ماہ کی کم ترین شرح ہے۔ تاہم حکومت عوام کو یہ نکتہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ افراط زر میں کمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ دراصل عوام کی اکثریت افراطِ زر اور مہنگائی کو ایک ہی چیز سمجھتے ہوئے حکومتی خوشخبریوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ 
پاکستان کے وزیر دفاع کی ایکس پر دی گئی خوشخبری اور اس کے بعد پی آئی اے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پی آئی اے نے 21 سال کے بعد 2024ء میں 2.26 ارب منافع کمایا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق’’پی آئی اے کے ذمے 850 ارب روپے کے قرض کا بڑا حصہ حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور اس رقم پر سود کی ادائیگی بھی حکومت کے کھاتے میں چلی گئی تو اس کے اپریشنل منافع بخش بننے میں کوئی مشکل نہیں‘‘۔ تاہم اس حکومتی اقدام سے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شاید آسان ہو سکے گا۔
 مسلم لیگ نون کا انتخابی سیاست کا مستقبل پنجاب حکومت کارکردگی سے مشروط ہے اور شریف فیملی کو اس امر کا ادراک بھی ہے. وزیر اعلیٰ پنجاب کو مستقل بنیادوں پر سرتوڑ محنت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے. پنجاب حکومت نے 80 سے زیادہ رفاعی اور ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے. حکومت 100 سے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت سولر سسٹم مہیا کرنے اور طلبہ کو لیپ ٹاپ کے علاوہ ا?سان شرائط پر کاروبار کے لیے قرضے دینے کے لئے پر عزم ہے. تجاوزات کے خلاف مہم جاری ہے. یہ ایک مشکل مگر کارآمد سرگرمی ہے جس سے پیش رو حکومتیں پہلو تہی برتتی رہیں. ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں. پنجاب اسمبلی نے انسداد گداگری کے قانون میں اہم ترامیم منظور کی ہیں جس کے تحت بھیک مانگنا، منگوانا ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے. 
پنجاب حکومت اگر چاہے تو محض انتظامی حرکت سے جعلی نجومیوں، نام نہاد موکلوں اور نوسرباز جوتشیوں کا قلع قمع کر سکتی ہے. علاوہ ازیں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزوں، عطائی طبیبوں، غیر سند یافتہ حکیموں اور نہری پانی چوروں کو بھی کیفرکردار کو پہنچانے سے بھی زبوں حال اور سادہ لوح عوام کے حالات میں بہتری لائی جا سکتی ہے. کسانوں کی اجناس کی قیمتوں کے تعین پر نظرثانی کرنا بہت ضروری ہے. حکومت کو شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے مسائل کو بھی سمجھنا ہوگا ورنہ اگلے انتخابات میں کسان اپنا تمام تر غصہ مسلم لیگ نون پر اتارنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن