ایک غنڈہ اگر اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی غریب کمزور کو سرعام مار رہا ہو تو اس کے جواب میں اگر وہ کمزور بھی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اپنے دفاع میں ایک آدھ مکا اس غنڈے کو رسید کرتا ہے تو یہ کوئی بڑا گناہ نہیں۔ اتنا کرنا تو اس کا حق ہے۔ ورنہ لوگ یہی کہیں گے کہ مار کھاتا رہا۔ ایک آدھ تھپڑ ہی رسید کر دیتا تو اچھا تھا۔ یہی کچھ گزشتہ دنوں فلسطینیوں نے کیا۔ بیک وقت انہوں نے بری ، بحری اور فضائی راستوں سے اسرائیل پر راکٹوں کی برسات کر دی۔ سرحدوں پر لگی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے اور گلائیڈز سے اسرائیل کے اندر گھس کر جس طرح 1100اسرائیلیوں کو ہلاک، سینکڑ وں کو زخمی کیا وہ داستان عزم و حریت میں تادیر یاد رکھی جانے والی کہانی ہو گی۔
اس کے جواب میں جارح اسرائیل نے جو ہمیشہ فلسطینی علاقوں میں گھس کر یا بمباری کر کے وہاں قتل عام کرتا ہے۔ وہی حربہ پھر استعمال کیا اور جوابی کارروائیاں کرتے ہوئے ابھی تک 800 کے قریب فلسطینیوں کو شہید اور فلسطین اتھارٹی کے زیر انتظام سینکڑوں دفاتر اور رہائشی عمارتوں کو تباہ کرچکا ہے۔ یہ وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے۔ اس کی ان کارروائیوں پر مغربی ممالک کچھ نہیں کہتے۔
ہاں اگر فلسطینی کچھ جوابی کارروائی کریں تو مغربی ممالک بھڑک اٹھتے ہیں اور اسے دہشت گردی اور ظلم سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی کچھ ایک بار پھر دہرایا گیا۔ امریکہ، برطانیہ ، سمیت نیٹو ممالک نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا، صرف یہی نہیں بھارت نے بھی اسرائیل پر فلسطینیوں کے حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔ بھارت نے اس طرز عمل سے ان عرب اور مسلم ممالک کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو اس سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے پھرتے ہیں۔ بھارت اس وقت کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ وہ اب اس طرح اسرائیل کی حمایت کر کے مغربی ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف مسلم ممالک نے جہاں فلسطینی بھائیوں کی حمایت کا عہد دہرایا وہاں عالمی برادری سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ مشرق وسطی میں موجود اس سب سے بڑے تنازعے کے حل میں آگے بڑھے اور دو ریاستی کے فارمولے پر عملدرآمد کرائے۔ پاکستان نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت اور ریاست کے قیام کے مطالبے پر زور دیتے ہوئے بیت المقدس کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے اپنے موقف کو دہرایا۔ تقریباً تمام مسلم ممالک اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے چھینے گئے علاقے واپس فلسطین کو دینے کے حق میں ہیں۔ کچھ امن پسند مغربی ، افریقی اور ایشیائی ممالک بھی اس حل کے حق میں ہیں۔ مگر اسرائیل، یورپ اور امریکہ اپنی اسرائیل دوستی کی وجہ سے اس حل کی طرف آنے کی بجائے اسرائیل کے مظالم کا دفاع کرتا ہے۔
اس وقت اسرائیل پر حملہ کرنے والے حماس کے القسام گروپ نے جس کی قیادت ہانیہ اسماعیل کر رہے ہیں، تمام مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ہماری حمایت میں آگے بڑھیں اور فلسطینیوں کی مدد کریں۔ مگر پوری مسلم امہ فلسطینیوں کی عملی مدد سے قاصر ہے۔ حتیٰ کے حزب اللہ والے بھی لبنان سے کوئی عملی کارروائی نہیں کر پا رہے۔ ہاں البتہ حزب اللہ والوں ، لبنان ،عراق اور ایران نے حماس کی کارروائیوں پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے خوب جشن منایا۔ مگر ابھی تک پوری مسلم امہ میں کوئی عمر بن خطاب جیسا جری رہنما یاصلاح الدین ایوبی جیسا غیور سپہ سالار پیدا نہیں ہوا جو ارض مقدس کو پنجہ یہود سے نجات دلا سکے۔
اب اسرائیل کو امریکہ اور نیٹو والے مزید جدید اسلحہ دے کر اس کی حفاظت کو مضبوط بنائیں گے۔ اسی مقصد کے لئے امریکہ نے اپنا جنگی بحری بیڑہ اسرائیل بھیج دیا ہے۔یہی ممالک اس کی طرف سے جوابی کارروائی کے نام پر فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز قرار دیں گے۔ یوں فلسطینی مسلمانوں پر آلام کا ایک اور کوہ گراں ٹوٹ پڑے گا۔
حماس کی اس دلیرانہ کارروائی سے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کو تقویت حاصل ہو گی جو فلسطینیوں کی طرح اپنے چھینے گئے علاقوں اور حق خودارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی تحریک میں بھی ایک نیا ولولہ پیدا ہو گا۔
مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طرح فلسطینیوں کو جن مصائب اور آلام کا سامنا ہو گا ۔ اسرائیل فلسطینی کیمپوں، تربیتی مراکز، رہائشی کثیر المنزلہ اپاٹمنٹس اور فلسطینی اتھارٹی والے علاقوں میں قائم ہر جگہ کو نشانہ بنارہا ہے۔ اس وقت اسرائیل میں ہو کا عالم طاری ہے۔ بن گوریان ائیر پورٹ پر ملک چھوڑ کر جانے والوں کا رش ہے جبکہ سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہو رہا ہے مگر غزہ و دیگرعلاقوں کی ناکہ بندی اوروہاں پانی بجلی خوراک کی بندش کے باوجود کوئی خوف نہیں۔کاش نیٹو ممالک کی طرح عرب ممالک کا یا مسلم ممالک کا بھی کوئی وسیع البنیاد فوجی اتحاد ہوتا تو وہ بھی جدید اسلحہ اور حفاظتی نظام سے فلسطینیوں کو لیس کرتے ،اس کے نقصان کا مداوا کرتے اور ا سرائیل کی طرف سے ہونے والی جنگی کارروائیوں کا مقا بلہ کرنے میں فلسطینی عوام کی مدد کرتے۔ مگر ہم صرف زبانی کلامی اخوت اور جہاد کی فضیلت بیان کرنے پر ہی زور دیتے ہیں۔