نسیم گْل خٹک
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز یوکرائن کے صدر ولادومیر زیلنسکی کی پریشانیوں میں ایک اور پریشانی کا اضافہ کر دیا، امریکہ نے ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم بین الاقوامی مرکز برائے جرائم بابت جارحیت برخلاف یوکرائنInternational Center for the Prosecution of the Crime of Agression against Ukrain ICPA سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ دراصل ICPAیوکرائن میں روسی افواج کے جنگی جرائم کے شواہد اکٹھے کر رہی ہے، مذکورہ تنظیم کو یورپین یونین کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس مرکز میں امریکہ سمیت کئی یورپین یونین ممالک کے تحقیقاتی نمائندے شامل ہیں۔ یورپی یونین کے عدالتی ادارے Eurojust کے صدر مائیکل شمڈ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا ICPAکو چھوڑنا افسوسناک ہے لیکن ہم اپنے کام کو جاری رکھیں گے۔ گروپ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ روس کے خلاف جنگی جرائم کے تین ہزار سے زائد ثبوت اکٹھے کر چکا ہے۔امریکہ اس کو مالی معاونت بھی فراہم کرتا تھامگر اب امریکہ نے اس سے ناطہ توڑ لیا ہے اور اس طرح سے صدر ٹرمپ نے زیلنسکی اور یورپین یونین کو ایک اور صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ ہاں تو جناب بات ابھی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ صدر ٹرمپ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو خوش کرنے کے لئے RFE/RL ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کی روس میں بھیجے جانے والی نشریات کو روک دیا ہے اور جس سیارے کے زریعہ RFE/RLروسی پروگرام کی نشریات روس بھیجی جاتی تھی اْس سیارے کا رابطہ ہی ختم کر دیا۔ RFE/RLکا قیام سرد جنگ کے دوران عمل میں آیا تھا، جس کا بنیادی مقصد سوویت یونین کے خلاف پروپیگینڈا کرنا اور اْس کے پروپیگنڈا کو روکنا تھا۔ امریکہ اسے بھی ڈالر دیتا تھا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امسال مارچ کے وسط میں RFE/RLکی امداد منجمد کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر ادارے کو عبوری ریلیف حاصل ہو گئی مگر RFE/RLکے لئے تاحال ٹرمپ انتظامیہ نے قسط جاری نہیں کی۔ کرنٹ ٹائم ٹیلی وڑن اپنی روسی زبان کی نشریات روس کے علاوہ وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور یوکرائن سمیت کئی دیگر علاقوں کو بھی بھیجتا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کا معاہدہ بھی منسوخ کردیا ہے۔صدر ٹرمپ نے اب تک کئی ایسے فیصلے کئے ہیں جن کا تعلق بہر صورت روس کے ساتھ ثابت ہوتا ہے مثلا اْنھوں نے روس کے صدر ولایمیر پیوٹن کو اچھا شخص کہہ کر پکارا، اس کے برعکس زیلنسکی کے ساتھ سختی سے پیش آئے بلکہ اْسے جھڑکا بھی اور اسی پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ یوکرائن کی فوجی اور مالی امداد دونوں روک دی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر زیلنسکی پر یہ بھی واضح کر دیاکہ وہ روس سے جنگ نہیں کر سکتا۔ یوکرائن کو شکست ہو جائے گی اور روش اس پر قبضہ کر لے گا، لہٰذا تمہیں چاہئے کہ جنگ کرنے کے بجائے جنگ بندی کی طرف توجہ دو۔ صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاوس میں کی گئی ملاقات صدر زیلنسکی کے لئے خفت اور مایوسی کا باعث بنی، خفت اس لئے کہ صدر ٹرمپ نے اْسے بارہا جھڑکا اور مایوسی اس لئے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرائن کی امداد بھی بند کر دی۔ بعد ازاں زیلنسکی نے ٹرمپ کے برتاو پر ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن یورپین سربراہان کے حمایت نہ ملنے اور سمجھانے پر خاموش ہو گیا۔ غالبا زیلنسکی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ صدر ٹرمپ سے پرخاش کی قیمت اہل مغرب کی حمایت سے محرومی بھی ہو سکتی ہے جس کا متحمل زیلنسکی کسی بھی صور ت نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اہل مغرب بھی امریکی چھتری کے بغیر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور یہ بات ہے بھی درست۔ بھئی امریکہ واقعی اہلیان یورپ کا محافظ ہے، اسی لئے تو جہاں حملہ کرنا ہوتا ہے وہاں انھیں ساتھ لے کر جاتا ہے اور انھیں جانا پڑتا ہے۔ وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ اگر ہم ساتھ نہیں جائیں گے تو کل ہماری مدد کرنے امریکہ بھی نہیں آئے گا۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ اور یورپ کے مفادات تقریبا مشترک ہیںمگر ان کے اتحاد کی بنیادی وجہ ہم مذہب ہونا ہے۔
صدر ٹرمپ بھی تمام معاملات سے یقینا بخوبی آگاہ ہوں گے، اْنھیں یہ بات اچھی طرح سے یاد ہو گی کہ جب یورپ اور امریکہ نے روس پر پابندیاں لگائیں تھیں مگر ولادیمیر پیوٹن نے ان پابندیوں کو بے توقیر کر دیا تھا کیونکہ روس نے پابندیوں کے بعداپنے تیل کی قیمت کم کر کے پابندیوں کو غیر موثر کر دیا۔ چین نے کبھی بھی روس کی مذمت نہیں کی بلکہ روس سے اپنے تعلقات کو پہلے سے بھی زیادہ گہرا اور مضبوط کر لیا اور وہ ہر طرح سے روس کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہندوستان نے بھی روس سے بے تحاشہ تیل خریدا، اپنی عوام کو سہولت دی اور امریکہ پر واضح کر دیاکہ اْس کے تعلقات روس سے بہت دیرینہ ہیںلہٰذا وہ روس کے خلاف بننے والے کسی بلاک میں شامل نہیں ہو گا۔پس ثابت ہوا کہ روس اکیلا نہیں ہے بلکہ کئی طاقتور ممالک اس کی صف میں شامل ہیں۔