سفینہ سلیم
تنقید ایک فن ہے، ایک ہنر، ایک نازک عمل۔ یہ نہ صرف شعور کا امتحان ہے بلکہ ظرف کا پیمانہ بھی۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں فرد، معاشرہ اور قوم اپنی خامیوں کو دیکھ کر اصلاح کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ آئینہ اب خنجر میں ڈھل چکا ہے۔ وہ خنجر جس کی دھار تلوار سے تیز، اور جس کی چبھن سمندرسے گہری ہوتی ہے۔ آج کی تنقید، اصلاح کا وسیلہ کم، اور تضحیک کا آلہ زیادہ بن گئی ہے۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہاں تنقید کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس نے تہذیب کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ اختلاف رائے کا احترام، اندازِ بیان کی شائستگی، اور زبان کی لطافت یہ سب وہ اقدار تھیں جو کبھی تنقید کا حسن سمجھی جاتی تھیں، مگر اب یہ فقط کتابوں میں باقی رہ گئی ہیں۔ تنقید اب فکری مکالمے کا دروازہ کھولنے کے بجائے شخصی تضحیک اور ذاتی حملوں کا ہتھیار بن چکی ہے۔ تہذیب سے خالی تنقید صرف شور پیدا کرتی ہے، شعور نہیں۔ جب الفاظ تہذیب سے عاری ہوں تو وہ دلیل نہیں، دھمکی بن جاتے ہیں، اور جب نیت میں اصلاح کی جگہ انتقام ہو، تو تنقید انسانیت کے بجائے انا کی ترجمان بن جاتی ہے۔ یہی وہ تہذیبی بحران ہے جس نے تنقید کو ایک سنجیدہ عمل کے بجائے جذباتی ہتھیار میں بدل دیا ہے۔
تنقید، اگر اخلاص اور فہم کے دائرے میں ہو تو یہ اصلاح کا ذریعہ بنتی ہے، مگر جب یہی تنقید ذاتی عناد، تعصب یا تلخی کی آمیزش سے آلودہ ہو جائے تو یہ شخصیت کے تانے بانے کو بکھیر دینے والا ایک بیرحم ہتھیار بن جاتی ہے۔ آج کا انسان، تنقید کے نشتر سے صرف زخمی نہیں ہوتا، بلکہ اکثر روح تک لہولہان ہو جاتا ہے
جب زبان زہر سے بھری ہو اور نیت میں کجی ہو، تو تنقید ایک ایسی چنگاری بن جاتی ہے جو شخصیت کی فصل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ وہ تنقید جس کا مقصد صرف کسی کو نیچا دکھانا ہو، ایسے ہی ہے جیسے کوئی شعلہ فقط جلا دینے کے لیے اٹھے، نہ روشنی دے، نہ گرمی۔ تنقید برائے تنقید، ایک ایسی آگ ہے جس میں صرف دوسروں کو نہیں، خود تنقید کرنے والا بھی جھلس جاتا ہے، البتہ وہ اسے دیر سے محسوس کرتا ہے۔
انسان کی شخصیت ایک نازک مجسمہ ہے۔ یہ تجربات، احساسات، رشتوں اور اعتماد کی مٹی سے تراشا گیا ہوتا ہے۔ جب اس پر بیرحمانہ تنقید کی ضرب پڑتی ہے تو وہ چٹخنے لگتا ہے۔ زبان کا ایک تلخ جملہ، ایک استہزائیہ لہجہ، ایک طنزیہ مسکراہٹ، کبھی کبھار اتنا کاری وار کرتی ہے کہ سننے والا اپنی ذات کے اندر چھپنے لگتا ہے۔ وہ خوداعتمادی جسے بنانے میں برسوں لگے، لمحوں میں بکھر جاتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ تنقید کی زبان لمبی ہوتی ہے، جو انسان کا کلیجہ چیر دیتی ہے۔ اس کے ناخن تیز ہوتے ہیں، جو روح تک نوچ لیتے ہیں۔ یہ وہ ضرب ہے جو جسم پر نہیں، ذہن اور دل پر لگتی ہے۔ ایک خاموش اذیت جو سننے والے کو ٹوٹے بغیر جینے پر مجبور کرتی ہے۔ اور جب یہ تنقید بار بار ہو، بلاوجہ ہو، بغیر فہم و شعور کے ہو، تو وہ انسان کے اندر ایک خلا پیدا کر دیتی ہے۔ وہ خلا جس میں نہ روشنی داخل ہوتی ہے نہ امید۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تنقید ہمیشہ مضر ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ تنقید اگر آئینے کی طرح ہو، تو انسان کو خود سے آشنا کرتی ہے۔ جب استاد محبت سے شاگرد کی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے، جب والدین خیرخواہی کے جذبے سے اولاد کو آئندہ کی راہ دکھاتے ہیں، جب دوست بغیر حسد کے آئینہ دکھاتے ہیں، تو یہ تنقید نہیں بلکہ رہنمائی ہوتی ہے۔ ایسی تنقید زہر نہیں، تریاق ہے۔ وہ تریاق جو اصلاح پیدا کرتا ہے، سوچ جگاتا ہے، اور شعور کو جلا بخشتا ہے۔
مگر اس تنقید کے لیے درکار ہے فہم، خلوص، تہذیب اور نرمی۔ یہ وہ پھول ہے جو کانٹے کے بغیر بھی اثر کرتا ہے۔ یہ وہ ہوا ہے جو آندھی بنے بغیر تبدیلی لا سکتی ہے۔ تنقید کا حق وہی رکھتا ہے جو خود بھی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، جو خود آئینے میں جھانکنے کی جرات رکھتا ہو۔
بدقسمتی سے آج کا دور برداشت سے خالی ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر چند الفاظ، چند تبصرے، لمحوں میں کسی کی برسوں کی محنت کو پامال کر دیتے ہیں۔ ہم اظہارِ رائے کے نام پر زبان کی آزادی کو بیلگام کر بیٹھے ہیں۔ رائے دینا اور کسی کو روند دینا، دو الگ باتیں ہیں۔
تنقید اگر خلوص سے کی جائے، تو وہ دل میں اتر جاتی ہے۔ لیکن اگر اس میں زہر شامل ہو تو وہ صرف زخم دیتی ہے، مرہم نہیں۔ ہمیں اپنے الفاظ کی تپش، اپنی زبان کے تیور، اور اپنے اندازِ بیان کی تاثیر کا شعور پیدا کرنا ہوگا۔ کیونکہ الفاظ کبھی کبھار گولی سے زیادہ مہلک ثابت ہوتے ہیں۔
تنقید کا مقصد اصلاح ہو تو وہ دعا کی طرح اثر کرتی ہے، اور اگر نیت فقط جلا دینا ہو تو وہ بددعا بن جاتی ہے۔ لہٰذا یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم تنقید کو آئینہ بناتے ہیں یا خنجر۔ مرمت کا آلہ یا مسمار کرنے کا ہتھیار۔
تنقید، اگر خلوص نیت اور مثبت ذہن کے ساتھ کی جائے، تو یہ شخصیت کی تعمیر میں اینٹ کا کام دیتی ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو انسان کو اپنی خامیوں کا ادراک دلاتا ہے، اور اسے بہتر بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ تعمیری تنقید انسان کو نہ صرف آگے بڑھنے کی راہ دکھاتی ہے بلکہ اسے شعور، برداشت اور خود احتسابی کے زیور سے آراستہ کرتی ہے۔ ایک مہذب معاشرے کی پہچان یہی ہے کہ وہاں تنقید کو ذاتی حملہ نہیں، بلکہ سیکھنے کے ایک عمل کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ یہی تنقید جب تہذیب، دلیل اور محبت کے ساتھ کی جائے تو وہ دل کو ٹھیس نہیں پہنچاتی بلکہ ضمیر کو جگاتی ہے۔
جب بولیں تو ایسا بولیں کہ سننے والا جھنجھوڑا ضرور جائے، ٹوٹے نہیں؛ بدلے ضرور، مگر بکھرے نہیں۔