دوستی…محبوب احسن ملک
mahboob@malik.com
ابھی تو چند لفظوں میں سیمٹا ہے تجھے میں نے
ابھی میری کتابوں میں تیری تفیسر باقی ہے
ستمبر 2016 کی سولہ تاریخ تھی 12 ربیع الاول کی اجلی' روشن اور معتبر دوپہر جب ہم شریک سفر کو مٹی کے گھروندے کے سپرد کررہے تھے۔ الم' جدائی اور وصل کے بوجھ کا ساتواں ماہ گزر گیا مگر دماغ و دل ابھی تک ''حادثہ رحلت'' کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ کریم شریک خوشی وغم اور شریک زندگی کی تمام منزلیںآسان کرے اور اسے رسول محتشم? کی محبان کے فہرست کا حصہ بنائے رکھے آمین۔5 نومبر 2001ء میں والدہ ماجدہ نے زندگی سے منہ موڑا یہ وہ جان گسل لمحہ تھا جب آسمان سر پہ آن پڑا۔ زیست کے محبوب ترین رشتے کی محرومی نے ہلا کر رکھ دیا، گجرات سے ورکشاپی محلہ راولپنڈی آئے چالیس سالہ قیام میں والدہ کی جدائی کا پہلا ناقابل برداشت حادثہ تھا جس سے زندگی اور زندگی سے جڑی خوشیاں روند ڈالیں، غم اور کرب کے اس پہاڑ نے جسم وجان کو تار تار کر دیا۔ دوسرا دکھ بیگم صاحبہ کی بے وقت جدائی کا تھا اولین کرب ،نکبت ومصائب تو اہلیہ نے بانٹ لئے مگر اس بار جدائی کا زخم اس قدر گہرا تھا کہ سنبھل نہیں پارہا '' کیا کروں اور کہاں جاؤں'' اب صبر اور دعائیں ہیں جو جینے کا حوصلہ بخش رہی ہیں۔ صبر ورضا بھی مالک کی دین ہے یہ وہ سہارا اور طاقت ہے جو بندے کا پروردگار عالم سے رشتہ مضبوط اور انمٹ بناتی ہے۔
کانٹا وہ دے کہ جس کی کٹھک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
ہم جاں گساری کرتے الم کے طوفاں بیدار کرتے ہیں آخر کا سو جاتے ہیں۔ دنیا کا کھیل ہی ایسا ہے۔ اس میں جی لگانے کا فائدہ ہی کیا ؟ ہمارے والدین ہو یا ہماری ازواج و اولاد یہاں تو بس سالوں کا پڑاؤ ہے۔ خاک چھنتی زمین پر ہم مرے تھوڑے ہیں۔ ہم تو اگلی منزل کی وہ مسافر ہیں۔ جنہوں نے ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا ہے۔ حضرت علی نے خوب فرمایا تھا :"زندگی کی حفاظت تو خود موت کرتی ہے "حوادثِ سے زندگی سے مامور یہ حیات مجبور بھی ہے اور مجہول بھی ہے۔ زندگی کو سیراب کرتے زندگی کی مشک ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کنویں کی خواہشات کو بھرتے، انسان دم بھر جاتا ہے۔ معرفات زندگی میں حقیقت تو وہ نیک اعمال ہیں جو ہمارے ہم سفر ہے۔ بالکل ایسے ہی ہم سفر جیسے کہ میری شریک حیات تھیں۔ وہ قدم قدم پر محبت احساس اور قربانی کا رشتہ جو برسوں بڑھتا رہا پھولتا رہا پھیلتا رہا۔ لیکن اللہ کریم نے فرما دیا'' انسان گھاٹے میں ہے''
میاں محمد بخش نے بھی تو یہی کہا تھا
آسے آسے عمر گزاری
جاں پھل پکن تے آیا
لیھ گئے ھور وپاری
اللہ تعالی زندگی کے معاملات میں ہمیں خوش اسلوبیاں عطا فرمائے اور ہمارے انہی محبت پیار کے جذبات کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب رکھے۔ ہمیں رشتوں کا تقدس اور ان کے حسن سلوک اور صلہ رحمی کی توفیق دے ہمارے رشتوں کا سفر ہی ہماری زندگی کو خوشگوار بناتا ہے۔ ہم سب اس راستے کے مسافر ہیں۔ میرا ''محبوب ہمسفر ''نئے سفر کے لیے کوچ کر گیا۔ کوچ تو وقت پر ہم نے بھی کر جانا ہے'' جی کا جانا ٹھہر گیا صبح گیا کہ شام گیا'' پوتیاں اور پوتے عبدالحنان ہارون' رانیہ ہارون' حفصہ دانش اور بریرہ دانش کبھی کبھی اپنی دادی ( امی جی ) کی محبت میں ایسے سوال بھی کر دیتے ہیں جن کے جواب کے لیے دادا ( داجی ) کو دیر تک سوچنا پڑتا ہے !!کہتے ہیں دادی جان واپس کیوں نہیں آتیں؟ دادی جان جنت میں کب تک رہیں گی اورکیا انہیں ہم یاد نہیں آتے؟ وہ توکہتی تھی میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں گی! ان معصوم سوالوں کے جواب کہاں سے لاؤں؟ سوالات خود اپنے اندر عقیدت' وابستگی اور اپنائیت کا سمندر لئے ہوئے ہیں۔ اپنے بچوں سے محبت سب کرتے ہیں مگر دادی کا پوتے اور پوتیوں سے ایسا پیار کم کم دیکھا گیا۔ میرا گمان ہے کہ بچے چاند لانے کی ڈیمانڈ کر دیتے تو دادی یہ فرمائش بھی پورا کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتی!!
کہاں سے تو نے اے اقبال سکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
جائے نماز کے مضبوط رشتے نے اہلیہ کی زندگی بدل کر رکھ دی۔اللہ اور اس کے رسول کریم? کی طرف لو ایسی لگی کہ پھر واپس پلٹ کر نہیں دیکھا ،ایک بار گھر اور بچوں کو شدید ترین نقصان پہچانے والے نے دعا کی درخواست کی تو اہلیہ نے اشک بھری آنکھوں سے وعدہ کرلیا اور پھر بڑے دل اور حوصلہ سے اس کی پریشانی کے خاتمے کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے!! مجھے اس روز امیر المومنین حضرت علی کے قول کی حقیقت سمجھ آئی، امام علی فرماتے ہیں'' عادتوں میں سب سے اچھی عادت معاف کر دینا ہے'' امیر المومنین کا ہی فرمان ہے'' لوگوں کو اس طرح معاف کرو جیسے خدا سے تمہیں معافی کی امید ہے ''
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرش پر
ہم نے اپنی اپنی زندگیوں کو حسد' جلن اور انتقام کے کانٹوں سے چھلنی کر رکھا ہے جس نے صبر' شکر اور اللہ کی رضا کو اپنی حیات میں شامل کیا وہ عزت پاگیا۔ اللہ کریم ہم سب کو اسلام کو سمجھنے اور صاحب اسلام? کی مبارک زندگی سے روشنی لینے کی ہمت اور توفیق عطاء فرمائے آمین