تعلیمی اداروں کو منشیات کی دھوپ سے بچائیں

عباس نامہ…عباس ملک
bureaupfficeosb@gmai.com

 لفظ "منشا" اور "منش" فارسی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی مرضی' طبیعت' رضا مندی' عادت وغیرہ کے ہیں جبکہ لفظ "م?نیش" عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی بھی طبیعت' مرضی' تسکین کے بھی ہیں الفاظ منشا اور منیش کی جمع منشیات ہے' اگر ہم منشیات کی اصطلاح میں جائیں تو اس کا مطلب نشہ آور چیز' مسکرات جس کے استعمال سے انسان اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے' جبکہ نشہ کا مسلسل استعمال انسان کو اس کا عادی بنا دیتا ہے' سوال یہ ہیکہ انسان نشہ کا استعمال کرتا کیوں ہے؟ کچھ لوگ شروع میں تو نشہ کا استعمال ذہنی سکون کے لیے کرتے ہیں اور پھر ان کا جسم نشہ کا عادی ہو جاتا ہے۔ عام طور پر نشہ آور اشیاء کے استعمال سے کچھ وقت کے لیے جسم میں کام کرنیکی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور انسان کو تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی ہے نشہ آور اشیاءکی تیاری میں زیادہ تر افہیم کا استعمال ہوتا ہے جس کے لیے پوست کی فصل کاشت کی جاتی ہے اور نشہ آور اشیاء لیبارٹری میں بھی تیار کی جاتی ہیں مگر ان سب کا استعمال انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے مگر پھر بھی دنیا کے ہر ملک میں لاکھوں افراد نشہ کے کاروبار میں ملوٹ ہیں اپنے کاروبار کو پھیلانے کے لیے یہ لوگ کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں اور ایسی جگہیں تلاش کرتے ہیں جہاں انکی نشہ آور اشیائ کی زیادہ سے زیادہ مانگ ہو' نشہ کا عادی انسان اس کے حصول کے لیے ہر وہ کام کر گزرتا ہے جو انسانیت کے منافی ہو جس کے لیے ہر چھوٹا بڑا جرم عام بات ہے جب نشہ کے مضر اثرات معاشرتی اقدار اور انسانیت کے لیے جان لیوا خطرہ ثابت ہونا شروع ہوئے تو اس کے روک تھام کے لیے سخت قوانین بنائے گئے۔ مگر پھر بھی روز بہ روز مختلف قسم کی نشہ آور اشیاجن میں شراب' چرس' ہیروئین' کوکین' کرسٹل آئس' گانجا' سیگریٹ' پان اور گٹکا وغیرہ استعمال بڑھتا جا رہا ہے' نشہ کا کاروبار کرنے والے افراد جب دیکھتے ہیں کہ پولیس۔اے این ایف یا دیگر اداروں کی جانب سے ان کیلیے گھیرا تنگ ہو گیا تو وہ پھر ایسی جگہوں کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں عوام کا رش ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اب گلی محلوں سے نکل کر یہ موت کے سوداگر تعلیمی اداروں میں بھی جا پہنچے ہیں' اقوامِ متحدہ کے ادارہ صحت کی جانب سے جاری شدہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی نشہ کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ سے بھی تجاوز کر گی ہے جن میں 78 فی صد مرد اور 22 فی صد خواتین شامل ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نشہ کی ابتدا عموماً ایلیٹ کلاس گھرانوں کے بچوں سے ہوئی جن کے والدین 24 گھنٹے میں سے 2 گھنٹے بھی اپنی اولاد کے لیے نہیں نکال پاتے انکی مصروفیت ہی ایسی ہوتی ہیں انھیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انکے بچے کیا کر رہے ہیں انکی دوستی کیسے لوگوں سے ہے وہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے وہ بچے کا مستقبل بہتر بناء رہے ہیں بچہ جتنے پیسے مانگتا ہے مل جاتے ہیں مگر جب انھیں علم ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہو جاتی ہے۔ کچھ بچے اچھے نمبر لینے کے چکر میں میں نشہ کے عادی ہو جاتی ہیں بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں اور کلبوں میں پہلے پہل شیشہ کا استعمال شروع ہوا جس میں مختلف ڈائقہ دار فلیور سے ہوا جس کو لڑکے لڑکیاں بڑے شوق سے اکیلے اور اکٹھے بیٹھ کر پیتے تھے کچھ نے کہا کہ یہ پی کر پڑھائی کریں تو اچھے نمبر آتے ہیں ذہن تروتازہ ہو جاتا ہے جو یاد کریں وہ ذہن نشین ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ جب اس کی لت پڑ گی تو شیشہ کے فلیورز میں نشہ آور فلیورز کا استعمال ہونے لگ گیا جب اس سے بھی بات آگے نکل گئی تو کرسٹل آئس کو پی کر پڑھائی کریں پھر ٹاپر بنو گے کیوں کہ آئس پی کے کم ازکم 4 روز تک دن اور رات میں انسان کو نیند نہیں آتی اور وہ جو کچھ کرئے اسے سب یاد رہتا ہے پڑھائی میں اچھے نمبرز کی گارنٹی ہے ایسی باتیں سن کر تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کی بہت بڑی تعداد نشہ کی عادی ہو گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جو نشہ آور اشیاء تعلیمی اداروں تک مہیاءکرتے ہیں؟ تو اس میں سب سے اہم اور خطرناک ذریعہ ایسے کلاس فیلوز اور دوست ہوتے ہیں جو بری صحبت رکھتے ہیں اور ان کو نشہ فروخت کرنے والے پیسوں کا لالچ دیکر زیادہ سے زیادہ طالبِ علموں کو نشہ کا عادی بنانے کا کہتے ہیں اور اکثر و بیشتر طلبہ و طالبات دوستی کے چکر میں باتوں میں آ جاتے ہیں اور غلط راستے پر چل پڑتے ہیں اس کے علاو¿ہ تعلیمی اداروں میں کنٹین سب سے بہتر جگہ ہے' پھر پک اینڈ ڈراپ کرنے والے ڈرائیور حضرات خود تعلیمی اداروں کے اندر سکیورٹی گارڈ وغیرہ تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے ریڑھی بان' نزدیکی باربر شاپ پر کام کرنے والے ملازم یا وہاں آنے جانے والے افراد اور اب تو خود تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے سٹاف میں اکثر نشہ کے عادی افراد ہوتے ہیں جو طلبہ طالبات سے قربتیں بڑھا لیتے ہیں اور جنسی تسکین کے لیے اس برائی میں مبتلاءکر دیتے ہیں۔ جن تعلیمی اداروں میں ہاسٹلز ہوتے ہیں وہاں تو اس نشہ آور اشیاءکا زیاہ استعمال ہوتا ہے اور بہت خطرناک حد تک ہوتا ہے' دوسری جانب نشہ کی روک تھام کے لیے پولیس' سپیشل برانچ'سکیورٹی برانچ' ایف آئی اے' ائیرپورٹ سکیورٹی فورس اور انٹی نارکوٹیکس فورس اپنی اپنی جگہ اس موت کے کاروبار کو روکنے کے لیے بھرپور کوششوں کیساتھ منشئیات کے خاتمہ کیلیے بھرہور کردار ادا کر رہے ہیں ان کی خدمات لائق تحسین ہیں اس سلسلے میں بہت سی کاروائیاں بھی ہوتی ہیں بہت سے لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں مگر تفتیش اس قدر سست اور ناقص ہوتی ہے کہ وہ باآسانی عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس وقت ملک میں 13 سال سے لیکر 25 سال تک کے طلبہ و طالبات مختلف قسم کی نشہ آور اشیاءکے استعمال کے عادی ہیں جن کے حصول کے لیے وہ ہر طرح کا جرم بھی کر گزرتے ہیں' میں دوسروں کی کیا بات کروں میرے اپنے بہت سے اسکول و کالج کے دوست لڑکے لڑکیاں جو کہ بہت ہی اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے نشہ کے عادی ہو گے ابتداء میں تو شوق شوق سے وہ نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے تھے مگر پھر بڑھتے بڑھتے اس قدر آگے نکل گے کہ اب اس جہنم سے واپسی کا راستہ ہی نہیں ہے اب انکی حالت یہ ہے کہ نہ تو گھر والے انھیں گھر رکھتے ہیں نہ وہ دوست جنہوں نے انھیں اس کام پر لگایا جب ان پر کہیں آتے جاتے نظر پڑ جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے انکا اب کوئی پرسانِ حال نہیں انتہائی گندگی والی جگہ پر بیٹھے ہیں پھٹے پرانے گندے لباس میں دنیا کا کوئی ہوش نہیں بس ایک ہی بات ذہن میں ہے کہ نشہ کرنا ہے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی جرم کر جاتے ہیں۔ میری معزز والدیں سے گزارش ہے کہ اس لعنت سے بچنے کے لیے سب سے پہلا کام کے والدین کو اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دینی ہو گی بچوں سے دوستانہ ماحول رکھتے ہوئے انکی ہر مصروفیت پر نظر رکھیں انکی دوستیاں کیسے افراد سے ہیں اپنے اور بچوں کے درمیان حائل دوریاں ختم کریں خاص کر 10 سے 25 سال تک بچوں کو والدین زیادہ وقت دیں تو ہر برائی سے بچے محفوظ رہ سکتے ہیں!!

ای پیپر دی نیشن