بین الاقوامی انصاف کی موت

تاریخ انسانی کے ہر موڑ پر انصاف اور طاقت کے درمیان مسلسل جنگ جاری رہی ہے۔ کبھی بابل کے شہنشاہ حمورابی نے پتھر کی تختیوں پر قانون کندہ کرکے دنیا کو بتایا کہ ’’آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کا اصول ہی معاشرے کو بچاتا ہے، تو کبھی روم کے شہنشاہ جسٹینین نے ’’قانونِ فطرت‘‘ کا نعرہ لگا کر ظلم کی چکی میں پستے انسانوں کو یقین دلایا کہ انصاف کا کوئی نہ کوئی دیوتا ضرور ہوتا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی طاقت اور انصاف کا ٹکراؤ ہوا، طاقت کے ہاتھوں انصاف کی چادر نوچی گئی۔ آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کا تازیانہ اٹھنا، دراصل طاقت کے اس قدیم کھیل کا نیا باب ہے، جہاں ’’بین الاقوامی قانون‘‘کا لبادہ اوڑھ کر مظلوموں کی آہیں دبائی جاتی ہیں۔
سن 2002 میں جب اقوامِ متحدہ کے زیرِ سایہ آئی سی سی کا قیام عمل میں آیا، تو دنیا نے سمجھا کہ شاید اب وہ وقت آگیا ہے جب جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف مظالم، اور نسل کشی جیسے سنگین جرائم کرنے والے سرپھرے لیڈر بے خوف و خطر گھوم نہیں سکیں گے۔ مگر یہ خواب دیکھنے والوں نے یہ بھول کر آنکھیں موند لیں کہ یہ عدالت بھی اسی عالمی نظام کا حصہ ہے جو مغربی طاقتوں کے ہاتھوں ڈور سے بندھا ہوا ہے۔ 
آئی سی سی نے اپنی تاریخ میں جتنے بھی وارنٹ جاری کیے، وہ افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، یا ایشیا کے ممالک کے خلاف تھے۔ کبھی کسی امریکی صدر، برطانوی وزیراعظم، یا اسرائیلی لیڈر کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آئی سی سی نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواف گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے، تو امریکہ نے فوراً اپنے ’’مقدس اتحادی‘‘ کو بچانے کے لیے بین الاقوامی قانون کو ہی کچل ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔
واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والا یہ بیان کہ ’’آئی سی سی کی تحقیقات میں امریکی شہریوں یا اتحادیوں کے خلاف مدد کرنے والوں پر ویزا اور مالی پابندیاں عائد کی جائیں گی‘‘، دراصل ایک واضح اعلان ہے کہ امریکہ کے نزدیک بین الاقوامی قانون صرف اْس وقت تک قابلِ احترام ہے جب تک وہ اس کے مفادات کی نفی نہ کرے۔ 
صدر ٹرمپ کا یہ اقدام صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر نہیں، بلکہ عالمی انصاف کے نظام پر طاقت کی بالادستی کا اعلانِ جنگ ہے۔ کیا یہ وہی امریکہ نہیں جس نے 2003 میں عراق پر چڑھائی کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کو نظرانداز کیا تھا؟ جس نے افغانستان کے پہاڑوں کو ڈرون سے اْڑاتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کو روند ڈالا تھا؟ مگر جب آئی سی سی نے اسرائیل کے جنگی جرائم کی طرف انگلی اٹھائی، تو مشرق وسطیٰ کا یہ غنڈہ اپنے ہتھیار لے کر عدالت کے دروازے پر کھڑا ہوگیا۔
امریکہ اور اسرائیل کے تعلق کو محض ایک سفارتی اتحاد سمجھنا غلطی ہوگی۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کی جڑیں امریکی سیاست، معیشت، اور مذہبی انتہا پسندی میں پیوست ہیں۔ کانگریس میں اسرائیل کی حمایت ایک ’’مقدس گائے‘‘ بن چکی ہے، جہاں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں ہی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ 
ٹرمپ کا یہ فیصلہ بھی اسی روایت کا تسلسل ہے۔ جب آئی سی سی نے غزہ کی ویرانیوں، بچوں کی لاشیں اٹھاتی ماؤں، اور ہسپتالوں پر بمباری کی تصویروں کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی لیڈروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا، تو امریکہ نے اپنے اتحادی کو بچانے کے لیے عدالت کو ہی نشانہ بنانے کا راستہ اختیار کیا۔ کیا یہ وہی ’’جمہوریت‘‘ ہے جس کی صدا لگا کر امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرتا ہے؟
مغربی ممالک کی تاریخ دوہرے معیاروں سے بھری پڑی ہے۔ جب سرب لیڈر سلوبودان میلوسووچ کو جنگی جرائم کے الزام میں ہیگ کی عدالت میں کھڑا کیا گیا، تو مغرب نے اسے ’’انصاف کی فتح‘‘ قرار دیا۔ جب روانڈا کے مجرموں کو انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل میں سزائیں سنائی گئیں، تو یورپ نے تالیاں بجائیں۔ مگر جب فلسطینی بچوں کی چیخیں آئی سی سی تک پہنچیں، تو مغرب کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ کیا یہی وہ انصاف پسندی ہے جس کا درس دینے والے ممالک آج خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں؟ امریکہ کا یہ کہنا کہ ’’آئی سی سی کی تحقیقات میں مدد کرنے والوں کو سزا دی جائے گی‘‘، دراصل اعلان ہے کہ طاقتور قومیں اپنے جرائم چھپانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔
اس سارے بحران میں سب سے افسوسناک پہلو مسلم ممالک کی خاموشی ہے۔ جن فلسطینیوں کے لیے آئی سی سی نے آواز اٹھائی، وہ اسی امت کے بھائی ہیں جس کا دعویٰ ہم کرتے ہیں۔ مگر آج جب امریکہ نے کھلم کھلا بین الاقوامی قانون کو پامال کیا ہے، تو اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہیں۔ کیا یہ خاموشی ڈالر کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے؟ یا پھر یہودی لابی کے خوف نے ان کی رگوں میں خون جمادیا ہے؟ ترکی کے صدر ایردوان نے اگرچہ آئی سی سی کے فیصلے کی حمایت کی ہے، مگر دیگر اسلامی ممالک کی طرف سے کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔
امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے نے بین الاقوامی قانون کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ آج سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ آئی سی سی جیسی عدالتیں صرف کمزور ممالک کو سزا دے سکتی ہیں، جبکہ طاقتور قومیں اپنے جرائم کو قانونی جواز دے کر انصاف کے ہاتھوں کو باندھ سکتی ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کا یہ غرور ہمیشہ سے زوال کا شکار رہا ہے۔ روم کی سلطنت، برطانیہ کا سورج، اور سوویت یونین کا شیرازہ، سب وقت کی دھول میں مل گئے۔ آج کے عالمی استعمار کا یہ تکبر بھی ایک نہ ایک دن خاک میں ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم ممالک اس وقت تک اپنی غیرت کو فروخت کرتے رہیں گے؟ یا پھر وہ ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد رکھیں گے، جہاں انصاف کا ترازو طاقت کے پلڑے سے نہیں، بلکہ حق کے پلڑے سے تولا جائے گا؟

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن