تکلم برطرف | مشتاق اے سرور
ملکی معاشی صورت حال، افراطِ زر، مہنگائی اور عوامی مسائل پرہماری باہمی گفتگو اداروں کی زبوں حالی پر آن منتج ہوئی۔ پاکستان سٹیل، پی آئی اے، پاکستان ریلوے اور خساروں کا شکار رہنے والے دیگر اداروں کی طرف جیسے ہی میں نے توجہ دلائی تو اسلام آباد کے سینئر صحافی ممتاز احمد بھٹی نے مجھ سے اختلاف کرتے ہوئے متعدد ایسے ادارے گنوا دیے جو خسارے کے بجائے نہ صرف منافع بخش ہیں بلکہ انتظامی اعتبار سے ملک و ملت کی خدمت میں کوشاں ہیں۔ وہ کچھ لینے کے بجائے دینے کی روش پر گامزن ہیں۔ یہ ایسے ادارے ہیں جنہوں نے نہایت منظم انداز میں ملک کو بتدریج خوشحالی کی ڈگر پر ڈال رکھا ہے۔ ملکی خوشحالی کا باعث بننے والے ادارے وہ ہوتے ہیں جو معاشرے کی فلاح و بہبود، معیشت کی ترقی، اور ریاستی نظام کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے ادارے کئی مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں، اور ان کی مضبوطی اور شفافیت ملک کی مجموعی ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
اگر معاشی اداروں کو دیکھا جائے تو یہ ادارے ملک کی مالی پالیسی، مہنگائی پر قابوپانے، کرنسی کی قدر اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں اسٹیٹ بینک کا کردار معاشی استحکام میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے، تحقیقی اور سائنسی ادارے، احتساب و شفافیت کے ادارے، میڈیا اور آگاہی کے ادارے، مالیاتی کمیشن، تجارتی بورڈ، زرعی اور صنعتی ادارے سب اپنی اپنی ڈومین میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی کے راستے ہموار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ممتاز احمد بھٹی نے زرعی ترقیاتی بینک کو ایک مثال کے طور پر ہمارے سامنے پیش کیا تو میں نے عرض کیا کہ، کچھ برس قبل میں زرعی ترقیاتی بینک کی مختلف برانچوں کا وزٹ کر چکا ہوں جہاں مجھے انتظامی امور کی گراوٹ کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر مسائل بھی دیکھنے کو ملے، تو وہ گویا ہوئے کہ آپ اب جا کر دیکھئے، آپ کو بہت سی مثبت تبدیلیاں نظر آئیں گے، اْن کے اصرار پر جب ہم نے دوبارہ انہی برانچوں کو وزٹ کیا تو بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں، جس سے ثابت ہوا کہ جب کسی ادارے کو اچھا سربراہ میسرآ جائے تو ادارے میں جان پڑ جاتی ہے۔ ادارے کی حالت بدلنے کے پیچھے جو محرکات ہیں ان میں زرعی ترقیاتی بینک کے صدر اور سی ای او طاہر یعقوب بھٹی کی محنت، لگن اور پیشہ ورانہ مہارت شامل ہے۔ اس وزٹ سے ایک حقیقت یہ کھل کر سامنے آئی کہ اگر زرعی ترقیاتی بینک فعال اور شفاف طریقے سے کام کرے تو غربت میں کمی آئے گی، دیہی زندگی بہتر ہوگی اور معاشی خوشحالی کا جو خواب ہم نے دیکھ رکھا ہے اس کی تعبیر حاصل ہوگی۔ زرعی ترقیاتی بینک جیسے ادارے کسی بھی زرعی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت کا ایک بڑا انحصار زراعت پر ہے۔ یہ بینک کسانوں کو مالی سہولیات فراہم کرتا ہے تاکہ وہ جدید زرعی طریقوں کو اپنا کر پیدا وار میں اضافہ کر سکیں، اور قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں فعال کردار ادا کریں۔
گزشتہ اکیس برس میں زرعی ترقیاتی بینک نے مجموعی طور پر اٹھارہ ارب روپے کا منافع کمایا۔ تاہم، صرف پچھلے دوبرس میں، بینک کا منافع متاثر کن 45.3 بلین روپے تک بڑھ گیا۔ بینک نے سرکاری خزانے میں 16.7 بلین روپے ٹیکس کی مد میں جمع کرائے۔ اس ادارے کی خدمات چھ لاکھ کسانوں کی مدد کا ذریعہ ہیں۔ پچھلے دو برسوں میں اضافی چالیس ہزار کسان بینک کے نیٹ ورک میں شامل ہوئے ہیں۔ 37ارب روپے وزیر اعظم کسان پیکج کے تحت اور163 ارب روپے آسان قرضہ جات کی مد میں کسانوں میں تقسیم کئے گئے،600 سے زائد گریجویٹس کو ملازمتیں میسر آئیں۔ یہ ادارہ بینکنگ خدمات کے معاملے میں پاکستان کے صف اول کے بینکوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ 501 برانچوں کے وسیع نیٹ ورک اور تربیت یافتہ موبائل کریڈٹ افسران کی ایک ٹیم کے ساتھ، بینک نے ملک کے زرعی شعبے کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ ادارے کی آفیشل ویب سائٹ اس کی خدمات، کارپوریٹ ڈھانچے، اور مختلف مالیاتی مصنوعات کے بارے میں معلومات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زرعی شعبے کے بارے میں قابل قدر معلومات فراہم کرتی ہے۔ کسانوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے، بینک نے خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے پر خصوصی توجہ کے ساتھ، کئی اختراعی مصنوعات اور خدمات متعارف کرائی ہیں۔ تعلیمی اداروں اور زرعی تحقیقی اداروں کے ساتھ شراکتیں، کاشتکاری کے طریقوں میں پیشرفت کو فروغ دینے اور پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اس شعبے کے مجموعی تعاون کو بڑھانے کے عزم کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کی خدمات مسابقتی اور قابل رسائی رہیں، اپنی تاریخ میں پہلی بار بینک کو جدید مالیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ بینک کی ویب سائٹ مختلف برانچوں اور اے ٹی ایم کے مقامات کے ساتھ ساتھ اس کے کارپوریٹ ڈھانچے، مالیاتی مصنوعات اور خدمات کی پیشکش کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس پلیٹ فارم میں سرمایہ کاروں کے تعلقات کا ڈیٹا اور اقتصادی آگاہی شامل ہے۔ بینکنگ آپریشنز میں ٹیکنالوجی کو ضم کر کے، ZTBL نے خود کو ایک آگے کی سوچ رکھنے والے مالیاتی ادارے کے طور پر کھڑا کیا ہے، جو آج کے تیزی سے ابھرتے ہوئے مالیاتی منظر نامے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہے۔ بینک کی جانب سے جدید بینکنگ طریقوں کو اپنانا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ آپریشنل کارکردگی کو برقرار رکھتے ہوئے زرعی برادری کو بے مثال مدد فراہم کرتا رہے گا۔
یہ بہت اہم اور بصریت افروز سوال ہے کہ ملکی معاشی ترقی میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے وطنِ عزیز کے اداروں کو کیا تدابیر اختیار کرنا چاہئیں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معاشی ترقی کے لئے اداروں کا فعال، شفاف اور دوراندیش ہونا لازمی ہے۔ اداروں کی اصلاح اور ان کی کارکردگی میں بہتری کے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی ممکن نہیں۔ اگر اداروں کو بدعنوانی سے پاک رکھنے کے لئے سخت احتسابی نظام وضع کیا جائے، مالی شفافیت کو یقینی بنایا جائے، اداروں کی آڈٹ رپورٹیں وقت پر شائع ہوں، سیاسی اثرورسوخ کا خاتمہ کر کے تقرریاں میرٹ پر ہوں، ڈیجیٹل نظام اپنایا جائے، نجی شعبے کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے، بجٹ کی تقسیم میں ترجیحات درست ہوں، فضول اخراجات کی روک تھام کی جائے، اداروں کے ملازمین کی تربیت کے لئے باقاعدہ پروگرامز ہوں، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر زور دیا جائے، قانون کی بالادستی، معاہدوں کا احترام، اور بزنس فرینڈلی پالیسیاں اپنائی جائیں، غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جائے، معاشی منصوبہ بندی میں ڈیٹا اور تحقیق کو بنیاد بنایا جائے، طویل مدتی وڑن اپنایا جائے، وقتی فیصلوں کے بجائے پائیدار ترقی کو ترجیح دی جائے، قومی سطح پر صنعتوں کو فروغ دیا جائے، مقامی پیداوار میں اضافہ کیا جائے، زرعی اصلاحات کے ذریعے چھوٹے کسانوں کی معاونت کی جائے، ISO اسٹینڈرز، ESG ضوابط اور عالمی مالیاتی شفافیت جیسے ماڈلز اپنائے جائیں اور پروفیشنل افراد کو اداروں کی سربراہی سونپی جائے تو صحیح معنوں میں ملک کو معاشی ڈگر پر رواں دواں کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مضبوط ادارے ہی مضبوط معیشت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ریاست کی مضبوطی محض اس کے وسائل، جغرافیائی محلِ وقوع یا قدرتی ذخائر پر نہیں بلکہ اس کے اداروں کی شفافیت، فعالیت اور دور اندیشی پر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ادارے اکثر سیاسی مداخلت، کرپشن، اور میرٹ سے انحراف کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت مسلسل دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اداروں کو ملکی ترقی کا حقیقی محور بنایا جائے۔