جرمنی پھر سے جرمنی

ایک بہت بڑی خبر کو دنیا والوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی اور پاکستان والوں نے تو بالکل ہی نہیں دی۔ یہ ہفتہ عشرہ پہلے کی بات ہے۔ خبر کیا تھی، یہ جاننے سے پہلے اس افواہ کا ذکر مناسب رہے گا جو جرمنی میں نہ جانے کس نے پھیلائی۔ افواہ یہ تھی کہ روس جرمنی پر حملہ کرنے والا ہے۔ 
افواہ بے بنیاد لیکن نہایت بامعنی تھی۔ بے بنیاد اس لئے کہ لولا لنگڑا روس اس قابل نہیں رہا کہ کسی ملک پر حملہ کر سکے۔ برّی حملہ کرنے کیلئے اسے بالٹک ریاستوں اور پھر پورے پولینڈ سے اپنی فوج اتارنا پڑے گی جو محال ہے اور فضائی حملوں کا جواب دینے کی جرمنی میں طاقت ہے۔ خود ’’زارِ روس‘‘ پیوٹن نے اس کی تردید میں بیان جاری کیا لیکن اپنا پلڑا بھاری رکھنے کیلئے یہ کہا کہ جرمنی کی معیشت بوجھ میں دبی ہے، ہمیں حملہ کر کے کیا ملے گا۔ ظاہر ہے زار ِ روس یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ حملہ کیا تو تمہیں بہت جوتے پڑیں گے۔ جتنے یوکرائن میں پڑ رہے ہیں، اس سے بھی زیادہ۔ روس کہاں حملہ کر سکتا ہے، وہ تو چین، کوریا، بھارت اور افریقہ سے فوجی بلا رہا ہے کہ ہمارے لئے لڑو، ہم خود لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ 
افواہ نہایت بامعنی اور بامقصد تھی۔ جرمنی نے قانون اور آئین میں ترمیم کر کے دفاعی اخراجات میں بے حساب اضافے کا اعلان کر دیا۔ کتنا اضافہ؟ جی، پورے 547 ارب ڈالر۔ ارب روپے نہیں، ڈالر۔ اسے پونے تین سو سے ضرب دے دیجئے، روپے نکل آئیں گے۔ 
ٹرمپ دنیا کانقشہ بدل رہا ہے اور جرمنی کا یہ فیصلہ اسی نقشے کی بدولت ممکن ہوا۔ ٹرمپ نے اعلان کیاکہ جرمنی اور دوسرے ملک اپنا دفاع خود کریں، ہم نے کوئی ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ اس کے بعد جرمنی ہی نہیں، دوسرے ملک بھی دفاعی اخراجات اور صلاحیتوں میں اضافہ کرنے لگے ہیں لیکن جرمنی کا معاملہ باقی سب سے الگ ہے۔ 
جرمنی کو دو عالمی جنگوں میں شکست ہوئی یا دی گئی اور دونوں موقع پر اس کا کچومر نکال دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جرمنی پر اتنی زیادہ بمباری کی کہ اسے موہنجو داڑو یا آج کے غزہ کا نمونہ بنا دیا۔ اس کی ساری صنعت اور انفراسٹرکچر کا مکمل صفایا کر دیا گیا لیکن جب جنگ ختم ہوئی تو جرمنی محض دس سال کے اندر پھر سے جیتا جاگتا، ترقی یافتہ ملک بن گیا اور اگلے برسوں میں پھر سے صنعتی ویو میں تبدیل ہو گیا۔ 
سوویت یونین ختم ہوئی تو مشرقی جرمنی بھی آزاد ہوا۔ پھر دیوار برلن ٹوٹی اور مشرقی و مغربی جرمنی متحد ہو گئے۔ بھوکے ننگے، مفلوک الحال، پسماندہ اور دق زدہ رکھے گئے مشرقی جرمنی کے مغربی جرمنی میں انضمام پر مغربی تجزیہ کاروں نے لکھا کہ اب مالدار اور ترقی یافتہ مغربی جرمنی کا توازن بگڑ جائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، متحدہ جرمنی نے بہت جلد مشرقی جرمنی کو مالدار اور ترقی یافتہ بنا دیا۔ 
جرمنی میں نازی جماعت کے فلسفے کی حمایت کرنے والے اب بھی ہیں لیکن اقلیت میں البتہ ان لوگوں کی بھاری اکثریت ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں جنگوں میں ان کے ملک کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ 
جنگ عظیم کے بعد جاپان اور جرمنی دونوں کو فوج رکھنے سے منع کیا گیا اور ماضی کی دونوں سپرجنگی طاقتیں لاچار ملک بن کر رہ گئیں۔ پھر محدود فوج رکھنے کی اجازت ملی۔ آج جرمنی کی فوج کی کل تعداد محض پونے دو لاکھ ہے۔ اور اس کی ائر فورس کے پاس محض 138 لڑاکا طیارے ہیں۔ ہاں، طیارہ شکن میزائل مناسب تعداد میں ہیں۔ مجموعی طور پر یہ فوج اور فوجی نفرت بہت کم ہے۔ اور جرمنی عوام کیلئے تکلیف دہ۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے اسے پھر سے سپرطاقت بننے کا موقع دے دیا۔ یوں دنیا کا نقشہ بدلنے جا رہا ہے۔ 
افواہ بامعنی تھی اور بامقصد بھی۔ جرمن عوام کو دفاعی صلاحیت بڑھانے کیلئے ذہنی طور پر تیار کر لیا گیا۔ جرمنی پھر سے فوجی طاقت بنے گا یہ ایک ماہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ٹرمپ نے یہ کر دکھایا۔ نجومی کہتے ہیں، ٹرمپ ابھی اور بھی بہت کچھ کر دکھائیں گے۔ خدا خیر کرے۔ 
____
ٹرمپ نے بہت سے ملکوں پر بھاری ٹیرف لگا دیا۔ یعنی امریکہ میں ان کے برآمدات اتنی مہنگی کر دیں کہ ان سب ملکوں کو تجارتی گھاٹا ہو گا لیکن اس گھاٹے نے سب سے زیادہ امریکی معیشت ہی کو متاثر کرنا ہے۔ ایک اخبار میں چھوٹی سی خبر تھی کہ امریکی معاشی ماہرین نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو امریکہ کیلئے تباہ کن قرار دیا ہے۔ 
ایک صاحب نے تو ٹرمپ کو امریکہ کا گوربا چوف قرار دے دیا۔ یعنی گوربا چوف کی وجہ سے سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا، ویسے ہی ٹرمپ امریکہ کی توڑ پھوڑ کر دیں گے لیکن یہ موازنہ پوری طرح درست نہیں۔ 
ٹرمپ امریکہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور مزید پہنچائیں گے لیکن اس کا انجام امریکہ کی کمزوری کی صورت نکلے گا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی شکل میں نہیں__ امریکہ اس لئے کہ امریکہ ایک ملک ہے، سوویت یونین ملک نہیں تھا، ملکوں کی یونین تھا۔ 
یونین آف سوشلسٹ سوویت ری پبلکن یعنی یو ایس آر آر۔ 
یہ مختلف نسلوں اور زبانوں کے ملک تھے۔ کوئی ترک زبان بولتا تھا تو کوئی یوکرائنی تو کوئی کاکشیانی، زار نے ان ملکوں پر فوجی طاقت سے قبضہ کیا تھا۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو ان ملکوں کو آزاد اور خودمختار ملک تسلیم کر کے ان کی یونین بنا دی گئی یعنی قبضہ برقرار رکھا گیا اور قبضہ مستحکم رکھنے کیلئے  ایک ویٹو طاقت ، تین ملکوں یعنی روس، بیلاروس اور یوکرائن کو دے دی گئی کہ جب تک یہ تین ملک نہیں چاہیں گے، کوئی ’’آزاد‘‘ ملک سوویت یونین سے الگ نہیں ہو سکتا۔ گورباچوف کے دور میں یہ ویٹو پاور استعمال کر کے سرے سے یونین ہی کو ختم کر دیا گیا۔ 
امریکہ کمزور تو ہو جائے گا، ایسا لگ رہا ہے لیکن ٹوٹ کر بکھر جائے گا، فی الحال ایسا نہیں لگ رہا ہے۔ 
____
گزشتہ روز نیٹ پر کوئی ویڈیو تلاش کرتے ہوئے ایک بھارتی فلمی گانے کی وڈیو کلک ہو گئی۔ بول تھے زندگی لگنے لگی ہے زندگی۔ بہت نفیس، بامحاورہ اردو میں لکھا گیا گیت تھا، دھن اور گائیگی بھی پراثر تھی۔ بھارت میں اکثر بامحاورہ اردو فلمی گیت مسلمان شاعروں سے لکھوائے جاتے ہیں تاکہ مقبول ہو سکیں۔ گلزار صاحب یا ان جیسے چند ایک کا استثنا اپنی جگہ۔ اس گانے کی غیر معمولی اردو سے متاثر ہو کر ڈسکرپشن دیکھی تو پتہ چلا کہ شاعر صاحب ہندو ہیں۔ 
ان کا نام سدھارکر شرما ہے۔ 
بھارت میں، ہر صوبے یعنی ریاست سے اردو کے ایسے رسالے نکلتے ہیں جن کے ایڈیٹر ہندو ہیں اور قارئین کی معتدبہ تعداد بھی ہندو۔ خوشگوار حیرت والی بات ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی، فی الوقت بتانا یہ ہے کہ ان جریدوں اور شاعروں کی زبان بھی اردو ہے۔ 
اردو بھارت میں نہیں، پاکستان میں ختم ہو رہی ہے۔ ہمارے اخبارات رسالوں اور میڈیا میں جو اردو پڑھنے اور سننے میں آتی ہے وہ ٹیکسٹ بک اردو ہے۔ یہ کوئی اور ہی زبان ہے جس کا ڈکشن اردو ہے نہ لہجہ__ 
بھارت میں اب بھی اردو شاعری ہو رہی ہے، پاکستان بننے کے بعد یہاں اردو کا کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا۔ حفیظ سے فیض تک سبھی پاکستان بننے سے پہلے کے ہیں۔ پاکستان کے بعد بہت سے اچھے شعرا پیدا ہوئے لیکن وہ اردو کے نہیں تھے اگرچہ شاعری اردو میں کرتے تھے۔ وہ پنجابی، انگریزی، سرائیکی ، سندھی، پشتو، بلوچی، فارسی میں سوچتے تھے، پھر اس کا منظوم اردو ترجمہ کر دیتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے شاعروں میں ایک  آدھ ناصر بشیر بامحاورہ ، اردو میں شاعری کرتے ہیں، اردو کا روزمرہ بھی استعمال کرتے ہیں، باقی اللہ اللہ خیر سلّا۔

ای پیپر دی نیشن