پنجاب پولیس نے مقدمات کے اندراج کیلئے ’’اپنا قانون‘‘ بنا لیا

لاہور (مرزا رمضان بیگ/ وقت نیوز) پنجاب پولیس نے مقدمات کے اندراج کے سلسلہ میں مروجہ قانون کے متوازی اپنا قانون بنا لیا۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت اگر کوئی شہری قابل دست اندازی جرم کا مقدمہ درج کرانے کیلئے تھانہ میں جائے تو ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر پابند ہے کہ وہ بلا توقف مقدمہ درج کر کے ایف آئی آر کی نقل مدعی کے حوالے کرے اور تفتیشی افسر فوری طور پر تفتیش کیلئے جائے وقوعہ پر روانہ ہو گا تاہم اگر شکایت کے مندرجات مشکوک ہوں تو پولیس افسر 24.4 پولیس رولز کے تحت شکایت کی انکوائری کر کے مقدمہ کے اندراج کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ایسا مقدمہ درج ہونے کی صورت میں پولیس افسر ایف آئی آر کے مقررہ خانہ نمبر 5 میں درج کرے گا کہ مقدمہ انکوائری کے بعد درج ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب پولیس درج ہونے والے کل مقدمات میں سے 80 فیصد انکوائری کے بعد درج کرتی ہے لیکن ایسے مقدمات کے اندراج کے وقت مقررہ خانہ میں یہ قطعاً درج نہیں کیا جاتا مقدمہ بعد انکوائری درج ہوا بلکہ تحریر کیا جاتا ہے کہ بلاتوقف درج ہوا۔ پنجاب میں پولیس افسر مشکوک شکایت کی انکوائری کیلئے 24.4 پولیس رولز کی بجائے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 157(2) کا سہارا لیتے ہیں جو سراسر غیرقانونی طریقہ ہے کیونکہ 157(2) ض۔ف کے مطابق پولیس افسر مشکوک شکایت کی انکوائری نہیں کر سکتا بلکہ مقدمہ درج کرنے کا پابند ہے تاہم اسے اس دفعہ کے تحت رعایت دی گئی ہے کہ وہ مقدمہ درج کرنے کے فوراً بعد تفتیش کیلئے موقع پر پہنچنے کا پابند نہیں۔ آئی جی پولیس پنجاب، سی سی پی او/ ریجنل پولیس افسران اور ڈی پی اوز نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 ہوا میں اڑا کر رکھ دی ہے اور ضابطہ فوجداری کی اس دفعہ کے مقابلہ میں اپنی قانون سازی کر رکھی ہے۔ یوں ملکی قانون کے مقابلہ میں پنجاب پولیس کا ایک اپنا خودساختہ قانونی نظام ہے۔ اعلیٰ پولیس افسران نے اپنے ماتحت ایس ایچ اوز کو حکم دے رکھا ہے زیردفعات 354, 406, 408, 420, 447, 448, 452, 468, 471, 489F, 506 ت۔پ اور ایسے کئی دوسرے مقدمات متعلقہ ایس پی آپریشنز کی اجازت کے بعد درج نہیں ہونگے۔ ان مقدمات کا تھانے میں اندراج نہ ہونے کی صورت میں کوئی متاثرہ فریق سیشن کورٹ یا ہائیکورٹ چلا جائے تو متعلقہ ایس ایچ او عدالت میں موقف اختیار کرتا ہے کہ شکایت کنندہ مقدمہ کے اندراج کیلئے تھانہ میں آیا ہی نہیں، وہ کبھی یہ نہیں مانتا مقدمہ ایس پی کی اجازت کے بغیر درج نہیں ہو سکتا چونکہ مقدمہ بروقت درج نہ ہونے کی صورت میں فائدہ ہمیشہ ملزم/ ملزمان کو پہنچتا ہے لہٰذا پولیس مقدمات کے اندراج کے موقع پر ہی ملزمان کی درپردہ اعانت شروع کر دیتی ہے۔ اس بارے میں جب سی سی پی او/ ڈی آئی جی آپریشنز سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا پولیس کی اعلیٰ قیادت کا ہمیشہ منشا رہا ہے کہ جھوٹے مقدمات کے اندراج کی حوصلہ شکنی کی جائے اور بے گناہ شہریوں کو کسی بھی صورت ناکردہ گناہ کی سزا نہ بھگتنا پڑے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ایس پی حضرات سے کہا جاتا ہے کہ وہ بعض خاص قسم کے جرائم کے واقعات کا خود جائزہ لے کر مقدمہ کے اندراج کا حکم دیں۔ ماہر قانون خالد بشیر چیمہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کسی پولیس افسر کو اختیار نہیں کہ وہ قابل دست اندازی جرم کی صورت میں پہلے ایس پی آپریشنز کی انکوائری کو لازم قرار دے اور پھر مقدمہ درج کیا جائے، یہ سراسر غیرقانونی فعل ہے اور ملکی آئین و بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ای پیپر دی نیشن