جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں !


مروہ خان میرانی

اور سنائیں کیا حال ہے آپ کا؟
سب ٹھیک ہے اللہ کا شکر ہے
 چلو اچھی بات ہے، اور پھر؟؟
 کچھ بھی نہیں کچھ خاص نہیں سب ٹھیک
اور کیا ہو رہا ہے آج کل
 وہی پرانا معمول وہی روٹین
اچھا صحیح۔ پھر بھی کوئی نئی تازی؟؟؟؟ 
کوئی نئی تازی نہیں۔
 پھر بھی کچھ تو ہوا ہوگا اور سنائیں فلاں فلاں کے کیا حالات چل رہے ہیں؟؟؟ 
اور پھر انسان یہاں سے اپنی حدود پار کر کے چغلی، گناہ، بہتان، جیسے "نو گو ایریا" میں داخل ہو جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں زندگی گزارنے کے بہت آسان اور سیدھے طریقے سکھائے ہیں پر ہم خود ان حدود کو توڑ کے اپنی مرضی سے زندگی گزار کے اپنی ہی کرنی کے زد میں آ جاتے ہیں اور ہمیں اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا۔ 
اسلام دین کامل ہے۔ اور اسلام کی خوبی کس بات میں ہے یہ سب ہم جانتے بوجھتے، نظر انداز کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: 
"کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے وہ ان باتوں کو چھوڑ دے جس سے اس کا کوئی سروکار نہیں"۔ (ترمذی)
مگر بد قسمتی سے ہم ہر اس بات سے تعلق رکھنا پسند کرتے ہیں جس سے ہمارا اپنا کوئی تعلق کوئی نہیں ہوتا۔ اور یہی طرز زندگی ہمارا مقصد بن چکی ہے۔ 
لوگوں کے بارے میں گفتگو کرنا، اپنی رائے قائم کرنا، ان کے معاملات میں دخل اندازی کرنا، اپنا وقت دوسرے لوگوں پر سرف کرنا، چغلیاں لگانا، یہ سب باتیں محفلوں اور فون کالز پہ ہمارا وتیرہ بن چکی ہیں۔ یہ سوچیں سمجھے بغیر کہ اس کا اثر ہماری اپنی زندگیوں میں کتنا ہو رہا ہے۔
"اے ایمان والو تم بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو بے شک بعض بدگمانی گناہ ہے اور دوسروں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا گوارا کرے گا۔ سو تم اس سے نفرت کرتے ہو اور ان تمام معاملات میں اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے"۔ (سورہ حجرات ایت نمبر 12) 
افسوس کے ساتھ ہم جانتے ہوئے بھی اپنے نفس کی خواہش کو تسکین پہنچانے کے لیے ایک انسان کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہیں۔ اور چغل خوری اتنی عام ہے کہ اندرونی طور پہ ہم آدم خور بن چکے ہیں۔ بچپن سے سکول میں پڑھائی گئی یہ آیت بڑے ہونے تک ہمارے ذہنوں میں اس طرح اثر نہیں کر سکی جس طرح کا احساس ہماری رگوں اور روح میں اس کا خوف ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ شاید ہمارے گھروں میں سکولوں میں اداروں میں آفیسوں میں ہر جگہ اس کا عملی مظاہرہ ہم ہوتے دیکھتے ہیں۔ اور کبھی دماغ میں ہم نے اسے تصور ہی نہیں کیا کہ کسی انسان کا گوشت کھانا ہوتا کیسے ہے؟ اگر کر لیں تو کبھی اس ناپسندیدہ عمل کو اختیار نہ کریں۔ اس بات کو ہمارے معاشرے میں روکا ہی نہیں گیا جس طرح اس کو روکنا چاہیے تھا, بلکہ ایسی گفتگو کو مذاح اور لطف اٹھانے کا باعث بنایا ہوا ہے۔ استغفر اللہ قرآن فرماتا ہے 
"تمہیں جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے"- (سورہ الشوری, آیت نمبر 30)
جب ہم کسی کے بارے میں بدگمانی کرتے ہیں تو یہ قدرت کا نظام ہے کہ وہی چیز پلٹ کے ہماری طرف لوٹتی ہے۔ آپ لوگوں کے بارے میں چغلیاں نہیں کریں گے لوگ آپ کے بارے میں نہیں کریں گے آپ بدگمانی نہیں کریں گے لوگ آپ کے بارے میں بدگمانی نہیں کریں گے آپ ٹوہ نہیں لگائیں گے لوگ آپ کے بارے میں ٹوہ نہیں لگائیں گے۔۔ کیونکہ جب آپ کسی کی پردہ پوشی کریں گے تو اللہ سبحانہ و تعالی اپنی قدر سے آپ کے کردار کی حفاظت کرے گا۔ حدیث مبارک ہے 
"جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ پاک ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا"- (ترمذی) 
اگر زندگی میں آپ کو سکون اور نیک نامی نہیں حاصل ہو رہی تو اپنے اندر جھانکیں اور دیکھیے جو آپ اپنے لیے سوچتے ہیں کیا وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی سوچتے ہیں؟ اسی لیے وہ عزت پلٹ کے آپ کی طرف نہیں آتی۔
" جب تک تم رحم نہ کرو تمہارا ایمان صحیح نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم سب رحیم ہیں۔ فرمایا یہ رحمت نہیں کہ تم کسی ایک کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ایک پر رحمت کرو بلکہ رحمت عالم ہونی چاہیے"-(طبرانی)
محفل میں بیٹھ کے اور اپنے دوستوں میں گپ شپ کرنے کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کے پاس لوگوں کو  موضوعِ گفتگو بنانے کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ایسے موضوعات ہیں جن پہ آپ بات کر سکتے ہیں سوائے انسانوں کی زندگیوں کے۔ سیاست، تعلیم، علم، کھیل، بزنس، فیشن، حالات حاضرہ الغرض ہر وہ چیز جس میں کسی انسان کی زندگی کا ذکر نہیں ہے وہ باتیں آپ کے لیے حلال ہیں۔ صرف اس صورت میں آپ ذکر کر سکتے ہیں جب کسی انسان کی وجہ سے مصیبت لاحق ہوئی اور آپ مشورے کے طور پہ اس کا ذکر کسی سے کرنا چاہ رہے ہوں تو ، حل تلاش کرنے کے لیے اس میں کوئی مزئقہ نہیں۔ تجربے کے طور پہ اگر آپ کسی ایسی محفل میں ہیں جہاں چغل خوری ہو رہی ہے آپ کے روکنے کے باوجود وہ بات چیت ختم نہیں ہو رہی تو آپ اس محفل سے اٹھ کے چلے جائیں۔ اگر آپ اس کو روک نہیں سکتے تو اس محفل کا حصہ بھی نہ بنے، یقین کریں اگلی بار جب یہی لوگ آپ سے ملیں گے تو اس ڈر سے کہ آپ خفا نہ ہو وہ ایسی باتیں ہی نہیں کریں گے ورنہ دوسری صورت میں وہ آپ کو ایسی محفل میں خود دعوت نہیں دیں گے۔ انشاء  اللہ 
حضرت علی کا قول ہے کہ جب تم کسی میں کوئی عیب دیکھو تو یہ تمہاری اچھائی کا امتحان ہے۔ 
اس عیب کو دوسروں کی نظر میں لانے کی بجائے اس پہ پردہ ڈالیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی کا کوئی عیب دیکھا اور اس کی پردہ پوشی کی تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے زندہ درگور کو زندہ کیا"-(مشکوۃ)
ہماری بے نادانی کہ ہم چھوٹی چھوٹی لذتوں کے پیچھے کیسے بڑے بڑے اجر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں منفی ماحول زیادہ اور مثبت بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ جس کا پڑلرا بھاری ہوگا وہی معاشرے کی روش بن جائے گی۔ مدینہ شریف ہجرت کرنے کے بعد بہت سی برائیاں اور حالات ایسے تھے جو کہ ایک معاشرے کی بگاڑ کا باعث ہوتے ہیں لیکن سیرت میں ان کا ذکر تک نظر نہیں آئے گا کیونکہ برائی کو دبایا جاتا ہے اور اچھائی کو پھیلایا جاتا ہے۔ مثبت سوچ مثبت بات اور مثبت رویے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا باعث بنتی ہے۔ برائی کو تو سب جانتے ہیں اور اسکو ہر طرف اچھالنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے پھر بات چاہے کسی اداکار کی ہو یا مشہور شخصیت کی ذاتی زندگی کی اس میں حصہ ڈالنا ہمارا اہم ترین فریضہ ہے، لیکن اچھائی کا ذکر کرنا اور اس کو پھیلانا ہم لوگوں کو گراں گزرتا ہے۔ قرآن پاک میں آیا ہے کہ:
"یقینا نفس ضرور اکسانے والا ہے برائی پر۔ مگر یہ کہ جس پر رحم فرمائے میرا رب بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے"۔ (سورہ یوسف آیت 53)
اسی لیے نفس میں برائی کا ذکر اس کے پھیلانے میں زیادہ شوق رکھتا ہے مگر اللہ پہ جس کی رحمت ہو اس کا نفس اس کو اچھائی کی طرف ہی لے جائے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اپنے نفس کو تم اچھائی کی طرف راغبت نہیں دلواؤ گے تو وہ تمہیں برائی کی طرف لے جائے گا۔ 
"نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو"- (سورہ مائدہ: آیت 2)
اسی لیے نیک صحبت رکھنے اور اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اچھی صحبت اچھا ماحول بری صحبت برائی کی جڑ ہوتی ہے۔  حدیث مبارکہ مفہوم ہے کہ اچھی صحبت خوشبو بیچنے والے کی طرح ہوتی ہے وہاں سے اٹھ کے جائیں تو خوشبو آپ کے ساتھ جاتی ہے اور بری صحبت بھٹی پہ کام کرنے والے لوگوں کی طرح ہیں کہ جب وہاں سے واپس لوٹیں تو چنگاری ساتھ لے کے آتے ہیں۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں جب تم کوئی عیب کسی میں دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو اور اپنے اندر پاؤ تو اسے درست کر لو یہی دین و دنیا کی فلاح ہے۔
ہم کیسے ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو اللہ کی ناپسندیدگی کا باعث بنے۔
"اور نہ کہا ماننا کسی ایسے کا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل ہے۔ طعنے دینے والا پھرنے والا چغلیاں کرنے کو۔ بخیل مال دینے میں حد سے بڑا ہوا گنہگار"۔ (سورہ قلم: 13)
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں حضرت ایوب انصاری جیسا بنا دے۔ جن کے واقعے سے ہم اپنی زندگی میں بہت مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ جنہوں نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے تہمت کے فتنہ کی خبر سنی تو جو انہوں نے فرمایا ،اللہ تعالی نے ان کے رد عمل کی تعریف میں قرآن کی آیت نازل فرمائی۔
"جب تم ایسی بات ایک دوسرے سے سن کر اپنی زبانوں پر لاتے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہتے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا تھا۔ اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اسے سنا تھا تو تم کہہ دیتے کہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں۔ اللہ تو پاک ہے اور یہ بڑا بہتان ہے۔ اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ دوبارہ کبھی اس طرح کی بات کی طرف نہ لوٹنا اگر تم ایمان والے ہو۔ (سورہ نور آیت :14_ 17)
اللہ اکبر! کیا ہی خوبصورت رویہ حضرت ایوب رضی اللہ تعالی عنہ نے اختیار کیا۔ جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کیا ہم اتنے نہ ڈر بیخوف ہو گئے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی خود نصیحت فرمائی گئی چیز کو نظر انداز کر لیں تو جو اللہ کی نصیحت کو نظر انداز کرے گا اس شخص انجام کیا ہوگا اسکا فیصلہ آپ خود کیجئے؟؟
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں حضرت ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا کردار عطا فرمائیکہ ہم ہمیشہ لوگوں کے بارے میں اچھا گمان کریں اپنے آپ کو صرف ایک بہتر مسلمان بنانے میں مصروف رکھیں اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی پردہ پوشی کرنے اور ان کے بارے میں اچھی نیت رکھنے والوں میں سے ہو جائیں کہ قیامت کے دن ہم اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ بات بتا سکیں کہ ہم نے ان کی امتیوں کی حفاظت کی نہ کہ ہم ان کے عیب چاک کرنے والوں اور ان کا گوشت کھانے والوں میں سے ہو گئے تھے۔  آمین ثم آمین

ای پیپر دی نیشن