ہمیں علاقائی اور عالمی ایشوز پربہرصورت واضح‘ ٹھو س اور دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے

امریکہ کا شام پر میزائل حملہ‘ سعودی عرب کی حمایت‘ روس کی سنگین نتائج کی دھمکی اور پاکستان کا بے جان ردعمل

امریکہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اسلامی ملک شام پر پہلی یکطرفہ فوجی کارروائی کرتے ہوئے 59 ٹام ہاک کروز میزائلوں سے شامی ایئربیس پر حملہ کردیا جس سے فوجی اڈہ اور کئی طیارے تباہ ہوگئے جبکہ اس امریکی کارروائی میں پانچ شامی فوجی جاں بحق ہوئے۔ غیرملکی خبررساں اداروں کے مطابق امریکہ نے بحیرۂ روم میں موجود اپنے بحری بیڑے سے شامی فضائیہ کے طیاروں اور ایندھن کے سٹیشن کو نشانہ بنایا۔ شامی مبصر تنظیم کے مطابق حملے کے نتیجے میں ایئرکموڈور سمیت پانچ فوجی جاں بحق ہوئے جبکہ ایئربیس مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور ایئربیس کا رن وے‘ ایندھن کے ٹینکس اور فضائی دفاعی نظام ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا۔ پینٹاگون حکام نے امریکی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ روس کو حملے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ صدر ٹرمپ کے بقول شام کے صدر بشارالاسد کا رویہ کئی بار تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے اپنے لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جو ناقابل قبول ہے۔ شام میں حملہ امریکی مفادات کے پیش نظر کیا گیا اور صرف ٹارگٹڈ فوجی کارروائی کا حکم دیا گیا۔ دوسری جانب یواین سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں روس نے دھمکی دی ہے کہ دوبارہ ایسی کارروائی کے امریکہ کو سنگین نتائج بھگتنا ہونگے۔
شامی حزب اختلاف نے امریکی حملے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے شام میں جاری حکومتی بے خوفی کے خاتمہ کی نوید قرار دیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بقول وہ مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں امریکہ کے واضح اور مضبوط پیغام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ امریکی کانگرس نے بھی عراق کیخلاف متذکرہ کارروائی سے متعلق صدر ٹرمپ کے فیصلہ کی حمایت کی ہے‘ اسی طرح ترکی کے صدر رجب طیبت اردوان اور فرانسیسی وزیرخارجہ نے بھی شام میں امریکی حملے کی حمایت کی ہے جبکہ یواین سیکرٹری جنرل انتونیوگٹریس نے شام میں کیمیائی حملے کے ذمہ داروں کو جلدازجلد کٹہرے میں لانے کا تقاضا کیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی امریکی حملے کی حمایت کی ہے تاہم روس کے صدر پیوٹن نے اس امریکی فضائی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور ایرانی وزارت خارجہ نے بھی اس معاملہ میں روس کے موقف کی تائید کی ہے جس کے بقول اس قسم کے یکطرفہ حملوں کا استعمال انتہائی خطرناک ہے۔ عرب ممالک میں سعودی عرب نے بھی امریکی حملے کی حمایت کی ہے جبکہ لبنان کی حزب اللہ تنظیم نے امریکی حملے کو احمقانہ قرار دیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر اور فرانس کے صدر نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اس حملے کی ساری ذمہ داری شام کے صدر بشارالاسد پر عائد ہوتی ہے تاہم چین اور پاکستان نے اس حملے میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ چین کے بقول اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جائے۔ اسی طرح دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے اس امر پر زور دیا گیا کہ تمام فریقین مسئلہ کا پرامن حل تلاش کریں۔ امریکہ نے شام پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
شام کے صدر بشارالاسد کی آمرانہ پالیسیوں کیخلاف وہاں کے عوام نے گزشتہ چار سال سے علم بغاوت بلند کیا ہوا ہے اور بعض حلقوں کی یہ رائے ہے کہ بشارالاسد کیخلاف شامی عوام کی تحریک کو امریکہ نے سہارا دیا ہوا ہے جس نے عراق میں کھڑی کی گئی داعش تنظیم کو شام میں بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جبکہ شام کے صدر اب اپنے مخالف عوام پر فضائی حملوں او ردوسری کارروائیوں کیلئے یہی جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرے کا باعث بنی ہوئی داعش تنظیم کے ٹھکانوں پر کارروائی کررہے ہیں۔ روس‘ ایران اور لبنان بھی اسی تناظر میں بشارالاسد کے ساتھ ہیں اور اس سلسلہ میں روس کی جانب سے گزشتہ سال شام میں کی گئی فضائی کارروائی پر اسکی ترکی اور امریکہ کے ساتھ سخت کشیدگی بھی پیدا ہوئی جبکہ ترکی اور روس نے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی منقطع کئے اور روس نے امریکہ کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ امریکہ درحقیقت شام کے صدر بشارالاسد کو بھی مصر کے صدر حسنی مبارک اور لیبیا کے صدر کرنل قذافی والے انجام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور عرب مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اپنے اپنے مفادات کے تحت امریکہ کی اس پالیسی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایران اسی تناظر میں شام کے صدر کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے اور مسلم ممالک کی باہمی چپقلش کے باعث لبنان بھی شامی صدر کا دم بھررہا ہے۔ پاکستان نے اب تک اس چپقلش میں غیرجانبدارانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے جس نے سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں بھی کسی ایک کے حق میں فریق بننے سے گریز کیا اور دونوں مسلم ممالک کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تاہم سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو اس معاملہ میں مثبت جواب نہ ملا۔
یقیناً مسلم دنیا کی اندرونی کمزوریوں اور ایک دوسرے کے مخالف مفادات کے باعث ہی اسلام دشمن قوتوں کو مسلم امہ کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے اپنی سازشیں پھیلانے اور کسی نہ کسی مسلم ملک کو اپنے ہدف پر رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس فضا میں شام کے صدر کا اپنے اقتدار کو طول دینے کے معاملہ میں چاہے جو بھی ایجنڈا ہو‘ انکے سپرپاور امریکہ کو آنکھیں دکھانے اور اسکے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کے باعث بالخصوص پاکستان کے عوام میں انکے ساتھ ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے جبکہ داعش کیخلاف اقدامات پر بھی بشارالاسد نے بیشتر مسلم ممالک کے عوام کے دل جیتے ہیں اور اسی تناظر میں روس کی بشارالاسد کو حمایت حاصل ہونے سے خطے میں امریکہ مخالف ایک نئی قوت بھی ابھرتی نظر آئی ہے جو پاکستان کو اپنی سلامتی کے حوالے سے زیادہ سوٹ کرتی ہے۔ اس پس منظر میں تو پاکستان کو بھی اپنا وزن باضابطہ طور پر شام کے صدر کے پلڑے میں ہی ڈالنا چاہیے تاہم کسی دوسرے مسلم ملک کو ناراض نہ کرنے کی پالیسی کے تحت پاکستان اب تک کھل کر بشارالاسد کا ساتھ دینے سے گریز کرتا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے جب شام کے شمال مغربی شہر اولب کے علاقے خان الشبخون میں ہونیوالے کیمیائی حملے میں بیسیوں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں تو امریکہ‘ سعودی عرب اور بشارالاسد مخالف دوسرے ممالک کی قیادتوں نے براہ راست بشارالاسد کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا اور پاکستان نے بھی کھل کر اس حملے کی مذمت کی۔ شام کے شہریوں پر جو پہلے ہی خاک و خون میں نہلائے جارہے ہیں‘ کیمیائی حملہ بلاشبہ انتہائی ظالمانہ فعل ہے جس کی ہر عالمی اور علاقائی سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ نے بھی اسی تناظر میں اس حملے پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بشارالاسد کو سبق سکھانے کا پیغام دیا گیا اور پھر اسکے دو روز بعد شام کا ایئربیس امریکی فضائی حملے کی زد میں آگیا۔ اس سلسلہ میں روس کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ امریکہ نے شام پر براہ راست جارحیت مسلط کرنے کا جواز پیدا کرنے کیلئے خود ہی شام کے شمال مغربی شہر میں کیمیائی حملہ کیا اور اس کا بشارالاسد پر الزام دھر کر اسکے ایئربیس پر حملہ کیا جس کے سنگین نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ بشارالاسد نے خود بھی ابھی تک کیمیائی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی جس سے اس حملے کے بارے میں ابھی تک ابہام موجود ہے کہ یہ کس کی جانب سے کس نیت سے کیا گیا مگر اس سے شام کے بے گناہ شہریوں کی جانیں تو ضائع ہو گئی ہیں جبکہ اب شام کی ایئربیس پر امریکی طیاروں کے حملے سے علاقائی اور عالمی امن کو بھی سخت خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور اگر روس اور امریکہ کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا تو کوئی بعید نہیں کہ شام میں ہونیوالے کیمیائی اور اسکے ایئربیس پر فضائی حملے ہی تیسری عالمی جنگ کی نوبت لے آئیں کیونکہ امریکہ ہر صورت بشارالاسد کو کچلنے کیلئے کمربستہ ہے اور متعدد عرب ممالک بھی اس معاملہ میں اسکے ساتھ ہیں جبکہ روس اور ایران بشارالاسد کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ اگر یہ کشیدگی عالمی جنگ پر منتج ہوئی تو یقیناً وہ روایتی نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی جس سے دنیا کی کتنی تباہی ہوگی‘ اس کا شاید کشیدگی بڑھانے والوں کو اندازہ نہیں۔
ہمارے لئے سوچنے کی یہ بات ہے کہ پاکستان کو اس معاملہ میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔ اسکی جانب سے شام میں ہونیوالے کیمیائی حملے کی مذمت کرکے عملاً بشارالاسد کیخلاف امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونے کا پیغام دیا گیا جو یقیناً پاکستان کے عوام کے جذبات سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ عوام امریکہ کی مزاحمت پر اب تک ڈٹے ہوئے شام کے صدر بشارالاسد کو مسلم دنیا کا ہیرو سمجھ رہے ہیں۔ اب پاکستان نے شام کی ایئربیس پر امریکی فضائی حملے پر کسی باضابطہ ردعمل سے گریز کرتے ہوئے محض یہ مشورہ دینا ضروری سمجھا ہے کہ تمام فریقین اس مسئلہ کا پرامن حل نکالیں۔ دفتر خارجہ کے اس بیان میں درحقیقت حکومت کی مصلحت کیشی لپٹی ہوئی نظر آرہی ہے حالانکہ ایک آزاد اور خودمختار مملکت ہونے کے ناطے اقوام عالم بالخصوص مسلم دنیا کے ایشوز میں ہمیں ٹھوس‘ واضح اور دوٹوک پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ اگر آج ہمیں امریکہ کے مقابل روس کے ساتھ سازگار تعلقات زیادہ سوٹ کرتے ہیں تو شام کے ایشو پر ہمیں کھل کر روس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ بے شک یہی ہماری ضرورت اور ملکی مفادات کا تقاضا ہے۔

ای پیپر دی نیشن