پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے فروغ کیلئے مربوط حکمتِ عملی ناگزیر،ماہرین

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)  پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے فروغ کیلئے موثر پالیسی اور معیشت و توانائی پالیسیوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔ ملک میں قابل تجدید توانائی کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لئے مرحلہ وار منتقلی، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی، اور جدید بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ناگزیر ہے کیونکہ ان اقدامات کے بغیر سستی اور پائیدار توانائی کا حصول ممکن نہیں۔ یہ بات پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی  کے زیرِ اہتمام سالانہ اسٹیٹ آف رینیوایبل انرجی (ASRE) 2025 کی افتتاحی تقریب کے دوران ماہرین نے کہی۔ اجلاس میں حکومتی، صنعتی اور بین الاقوامی ماہرین نے پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے مستقبل پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس موقع پر پالیسی اصلاحات، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور مالیاتی نظام کو درپیش چیلنجز پر بھی تبادلہ خیال ہوا تاکہ توانائی کے منتقلی کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔پبلک پرائیویٹ انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) کے ڈائریکٹر پالیسی و بین الاقوامی تعاون، عقیل جعفری نے پینل کی صدارت کرتے ہوئے حکومت کی قابل تجدید توانائی سے متعلق ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شمال اور جنوب کے درمیان توانائی کی پیداوار میں توازن حکومت کی اولین ترجیح ہے تاکہ گرڈ کو مزید مستحکم اور بجلی کی ترسیل کو موثر بنایا جا سکے۔ ایس ڈی پی آئی کے توانائی یونٹ کے سربراہ، انجینئر عبید الرحمان ضیاء￿ نے ASRE رپورٹ کو پاکستان میں پالیسی سازوں، صنعتی ماہرین، اور سرمایہ کاروں کے لئے ایک کلیدی دستاویز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2021 کے بعد سے کسی بھی قابل تجدید توانائی منصوبے کی مالی تکمیل نہیں ہو سکی جبکہ دوسری جانب چینی پی وی مصنوعات کے لئے پاکستان ایشیا کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔  

ای پیپر دی نیشن