ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
مجھے اکیسویں صدی مجال ہے جو پسند آئی ہو۔ اکیسویں صدی نے انسان کو انسانوں سے دُور ، انسانوں کو بے توقیر اور انسانیت کو بے ضمیر کر دیا ہے۔ جب انسانی زندگی کی ابتدا ہو ئی تب انسان اتنا اکیلا اور بے یارومددگار نہیں تھا جتنا آج اکیسویں صدی میں تنہا اور لاچار ہے۔ ایک بیڈ روم روم میں اکیلے بیٹھے میاں بیوی اکثر چھ سا ڑھے انچ کے موبائل میں غرق ہوتے ہیں لیکن نہ عورت کو چھ ساڑھے چھ فٹ کا مرد نظر آتا اور نہ شوہر کو اپنی خو بصورت، وفادار اور ذمہ دار بیوی اور اُسکی خدمات نظر آتیں۔ ایک ہی گھر میں لوگ چل کر ایک دوسرے کے پاس جانے کے بجائے محض کال کر دیتے ہیں۔ اتنی سہولیات، مراعات، مشینی ایجادات اور آسائشوں کے باوجود ہر شخض اندر سے دُکھی اور اُوپر سے خفا ہے۔ ہر شخض کو دوسروں سے توقعات ہیں لیکن خود وہ اپنوں کے لئے کچھ نہیں کرتے بلکہ چا ہتے ہیں کہ جو آدمی رات دن جان مار کر چار پیسے کماتا ہے تو وہ رقم بھی گھر والے ہتھیانے کی کوشش کرتے ہیں۔ در حقیقت اندر خانے شدید حسد، بُغض اور جلن کا شکار بھی ہوتے ہیں کہ فلاں کے پاس اتنا پیسہ اور آسائشیں کیوں ہیں لیکن خود محنت کرتے، ذمہ داری ادا کرتے یا جان مارتے موت پڑتی ہے لیکن چاہتے ہیں کہ بغیر کام کیئے دوسروں کی طرح پیسہ کما لیں ۔ اکیسویں صدی سے مجھے اس لیے بھی چڑ ہے کہ اس میں جلن، حسد بُغض نفرت حد سے بڑھ گیا ہے۔ کوئی کسی کی خو شی میں خوش نہیں ہوتا۔ ہر شخص اپنی اپنی آگ میں جل رہا ہے۔ اکیسویں صدی نے سب کو شرم لحاظ اخلاق مروت تہذیب تمیز سے عاری کر دیا ہے۔ ہماری روایات اور قدروں کی اتنی پامالی ہوئی ہے کہ سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا ہے۔ شارٹ کٹ نے جرائم میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اخلاقیات کی تباہی نے انسانوں کو نِراجانور بنا دیا ہے۔ اب لوگ بے حیائی کو فیشن ، زبان درازی کو بہادری، کرپشن کو حق، سفارش اور اقربا پروری کو چمتکار اورملاوٹ ریاکاری، منافقت کو ڈپلومیسی مانتے ہیں۔ مذہب کو مکمل طور پر گورکھ دھندہ بنا دیا ہے۔ حج اور عمرے کر کے سمجھتے ہیں کہ جو گناہ اور جرائم کیے ہیں۔ دس پندرہ بیس لاکھ خر چ کرکے اللہ سے گناہ معاف کرا لیے ہیں۔ کالے دھن کو وائٹ کرنے کے لیے جو لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں۔ اُس میں سے چند ہزار کی دیگیں بنوا کر مسجدوں یا یتم خانوں میں بانٹ دیں۔ لاکھ دو لاکھ کی ذکاة دیکر بلّے بلّے کرالی۔ بقر عید پر نصف یا ایک درجن مویشی دس پندرہ دن پہلے لا کر اپنی نئی نویلی امارت کی نمو د و نمائش کر دی۔ میلاد پر انڈین طرز کے گانوں پر نعتیں پڑھیں، دھمال ڈالے، رقص کئیے، روپے وارے، ویلیں ڈا لیں۔ عورتوں نے دس بیس تیس ہزار کے قیمتی جوڑے پرس خریدے۔ پارلر سے تیار ہوئیں یا گھروں میں قیمتی میک اپ کی چار چار بار منہ پر لیپا پوتی کی۔ سونے کے سارے زیورات پہنے۔ بس ٹیکا اور جھومر ہی بچ جاتا ہے۔ لیکن عورتیں اپنی پکّی عمریں تک نہیں دیکھتیں اور اللہ رسول کی محفل یعنی ختم قرآن اور میلاد شریف کی محفلوں میں دنیا جہان کے فیشن کر کے ، جھوم جھوم کر چار چھ نعتیں پڑھتی ہیں اور پھر وہی نمود و نمائش، چغلیاں، غیبتیں، بہتان تراشیاں شروع کر دیتی ہیں۔ یہ تو مذہب کے نام پر گو رکھ دھندہ ہے۔ محمدی جیولرز، مکہ ملک شاپ، مدینہ گروسری، یثرب میٹ شاپ، خضرا میڈیسن، اللہ والا شو روم، خلفائے راشدین کراکری، وغیرہ وغیرہ۔ یہی محمدی جیولرز جس نے سونے میں لوگوں سے چار تولے کا اگر سیٹ بیچا تو اس میں تین تولے سونا اور ایک تولہ چاندی پر پالش کر کے کے بیچ دیا۔پانچ تولے سونے کی چوڑیوں میں تین تولے سونا اور دو تولے چاندی ڈالدی۔ باریش دوکاندار نے سونے کے دو سیٹ، دو کڑے، ایک برسیلٹ، تین انگوٹھیاں یعنی بارہ تولے مالیت کا زیور تسبیح کے دانے گراتے، درود شریف پڑھتے اور اللہ کی بے حساب قسمیں کھاتے آٹھ تولے کی رقم ادا کی اور چار تولے پالش ، ٹانکے، ملاوٹ کے نام پر کہہ کر کھا گیا۔ سامنے خانہ کعبہ کی تصویر لگا رکھی ہے۔ فرش پر جا نماز بچھائی ہے۔ کھونٹی پر پانچ تسبیحں ٹانگی ہیں اور دو قرآن پاک شیلف پر رکھے ہیں اور بے ایمانی، بے غیرتی، بے حیائی اور ڈھٹائی دیکھیں کہ سب کچھ اللہ رسولﷺ کے نام پرہے۔ اس وقت ہم جو کیمیکل سے ملا دودھ پی رہے ہیں۔ گوشت دالیں سبزیاں پھل کھا رہے ہیں، وہ سب کیمیکل سے بھرا ہو ا ہے۔ برائلر مرغیاں ہارمونز کے انجکشن سے بھر ی ہیں۔ انڈے غلط طریقے سے پلانٹ کیے ہو ئے ہیں۔ ہمارے کھانے پینے کی ایک بھی چیزخالص نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم صاف پانی کے لیے ترس کے رہ گئے ہیں۔ اگر آپ سوات کا ٹھنڈا میٹھا پانی پئیں یا بھاولپور اور حیدرآباد کا خالص پانی پئیں تو آپکو احساس ہو گا کہ آپ پانی نہیں ، زہر پی رہے تھے۔ لاہور کراچی فیصل آباد سمیت سبھی شہروں میں نہایت ناقص، گندا، آلودہ اور نا خا لص پانی ہمارے معدوں میں جاکر ہمیں انواع و اقسام کی بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم بچپن میں نلکے سے بھی پانی پی لیا کرتے تھے۔ ہمارے سکولوں میں کسی فلٹر یا کولر کا اہتمام نہیں تھا۔ میرا چہرہ اور رنگ اسقدر گلابی تھا کہ اکثر ٹیچرز پو چھتیں کہ آپ میک اپ لگا کر کیوں آتی ہو۔ اُس وقت گھروں میں خالص کھانوں کا رواج تھا۔ یہ منحوس فاسٹ فوڈ میکڈونلڈ اور دوسرے ریسٹورینٹ نہیں کُھلے تھے تو ہم سبکی صحتیں سلامت تھیں۔ سوٹ دس سال تک ویسے ہی مظبوط اور پائیدار رہتے تھے نہ اُن کے رنگ خراب ہوتے تھے اور نہ کپڑا کم پڑتا تھا بلکہ ایک سوٹ کی سلائی کے بعد تین چار سال کے بچے کا سوٹ بھی نکل آتا تھا۔ آج اتنے مہنگے اور قیمتی برینڈیڈ سوٹ لیکر بھی ہر سال کپڑے بنانے پڑتے ہیں۔ دس بیس ہزار کا عام سا کاٹن کا سوٹ کسی برینڈ سے خریدتے ہیں جس پر چند ہفتوں کے بعد بُور آ جاتی ہے۔ رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور اکثر سوٹوں میں کپڑا کم نکلتا ہے۔ اکثر قمیض کا کپڑا لمبائی چوڑائی میں کم ہوتا ہے۔ شلواروں کی یہ حالت ہے کہ اتنے مہنگے کپڑے خریدنے کے بعد شلواریں محض چند ماہ میں پھٹ جاتی ہیں اور پہننے کے قابل نہیں رہتیں۔ اگر غلطی سے پانچ چھ ہزار کا جوڑا لے لیں یا لاہور میں افغانیوں نے جو پوری کپڑا مارکیٹوں پر مافیا کی طرح قبصہ جما رکھا ہے۔ ان سے سوٹ لے لیں تو سمجھیں کہ عزت داﺅ پر لگا لی۔ شلوار دوسری یا تیسری مرتبہ پہننے پر ’چر‘ کر کے پھٹ جاتی ہے۔ پورے پاکستان میں اتنی ملاوٹ، بے ایمانی اور دھوکہ ہے کہ اگر کوئی قرآن رسول خدا کی قسم کھا کر بھی کہے تو غلطی سے اعتبار نہ کریں کیونکہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ مذہب بیچا جارہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہر آدمی نے اپناضمیر بیچ دیا ہے خاص طو پر ڈا کٹر انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہر آدمی زہر بانٹ رہا ہے۔ امریکہ اور انڈیا ہمیں کیا نقصان پہنچائیں گے۔ ہم خود ایک دوسرے کو موت کے منہ میں دکھیل رہے ہیں۔ اسی لیے مجھے اکیسویں صدی زہر لگتی ہے کہ انسانیت کا خون کیا ہے۔ ہر شخص اس قدر ڈھیٹ ، بے شرم اور بے حس ہے کہ خدا کی پناہ۔ خدارا، اپنے ضمیروں کو جگا ئیے ورنہ اپنے ضمیر جلا دیجئیے۔