بلڈنگ نیشن تھرو ایجوکیشن

قرةالعین شعیب 

علم پر لکھنا اور بات کرنا اب ایک مشکل ترین کام بنتا جا رہا ہے. کیونکہ ہمارا عمومی رویہ بھیڑ چال کا شکار ہو چکا ہے۔ سنجیدہ موضوعات پر لکھنے اور سوچنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم جیسے بنیادی مسئلے پر بھی سطحی بحثوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن کیا ہم لکھنے والوں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم ان اہم موضوعات کو اجاگر کریں جو قوم کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں؟
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد شعور کی بیداری، اخلاقی اقدار کی تشکیل اور ایک باوقار شہری کی تربیت ہونا چاہیے، مگر ہمارے معاشرے میں اسے محض نوکری حاصل کرنے یا بیٹیوں کے "اچھے رشتے" حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ اس سے بڑا زوال اور کیا ہوگا کہ ہمارا نظام تعلیم ٹک ٹاکرز پیدا کر رہا ہے؟ سکول اور کالجز کے طلبہ کے نزدیک دولت کا حصول، خواہ کسی بھی ذریعے سے ہو، کامیابی کی واحد علامت بن چکا ہے۔
تعلیم صرف تعلیمی ادارے فراہم نہیں کرتے بلکہ یہ ایک اجتماعی قومی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں جو تعلیمی نظام رائج ہے، وہ درحقیقت دیگر اقوام کے مسترد شدہ ماڈلز کا مجموعہ ہے۔ دنیا جہاں تعلیم میں نت نئے تجربات کر رہی ہے، مصنوعی ذہانت (AI) تیزی سے زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر رہی ہے، وہاں ہم آج بھی فرسودہ نصاب اور دقیانوسی تدریسی طریقوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ حکومت اور نہ ہی سنجیدہ علمی حلقوں میں اس حوالے سے کوئی ٹھوس بحث سننے کو ملتی ہے۔یہ بچے جو مستقبل میں قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے، ان کی مستقبل کی لیڈرشپ کی تیاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بجٹ میں تعلیم کو کتنا حصہ دیا جاتا ہے؟ نصاب کی تشکیل کن معیارات پر کی جا رہی ہے؟ کیا ہمارا نصاب اور تدریسی طریقے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں؟ اور اساتذہ کی کپیسٹی بلڈنگ پر کتنا خرچ کیا جا رہا ہے؟ 
گزشتہ چودہ سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بڑے پلیٹ فارم پر تعلیم کے بحران پر اس قدر سنجیدگی سے بات کی گئی ہو۔ تاہم، ہفتہ 1 فروری کو مجھے ایک ایسی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس کا نام میرے لیے پرکشش تھا "پہلی قومی تعلیمی کانفرنس"
یہ کانفرنس بلاشبہ ایک غیرمعمولی کاوش تھی تھی، اور پہلی قومی تعلیمی کانفرنس تھی جس میں مختلف تعلیمی ماہرین، پالیسی ساز، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، پبلشنگ ہاوسز کے مالکان، وزارت تعلیم کے نمائندے , وزیر تعلیم گلگلت بلتستان ، دیگر وزرا اور ملک کے 500 سے زائد بڑے اسکول سسٹمز کے پرنسپلز، ڈائریکٹرز ، ریسرچرز ، ایجوکیشنسٹ ،اساتذہ اور علم سے محبت کرنے والے افراد ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ اس کانفرنس میں نہ صرف موجودہ تعلیمی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی بلکہ ان خامیوں کو دور کرنے اور ایک نیا، جدید اور مو¿ثر تعلیمی ماڈل متعارف کرانے پر زور دیا گیا۔ مکالمہ کی فضا پیدا کی گئی جہاں ماہرین نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے سب کو آگاہ کیا۔ 
اس کانفرنس کا انعقاد منہاج ایجوکیشن سوسائٹی نے کیا، جس کا مرکزی خیال "Building Nation Through Education" یعنی تعلیم کے ذریعے قوم کی تعمیر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی قیادت میں یہ ایک مثبت اور دوررس قدم ہے، جو تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر حیسن محی الدین قادری جو منھاج ایجوکیشن سوسائیٹی کے چئیرمین ہیں ان کی طرف سے ایک ڈکلیریشن پیش کیا گیا۔ انھوں نے حکومت سے درخواست کی کہ تعلیمی نظام کی تبدیلی کو قومی ایمرجنسی قرار دیا جائے۔ یہ وقت تعلیمی نظام میں اصطلاحات کا نہیں بلکہ اس نظام کی مکمل تبدیلی کا ہے۔ ان کا کہنا تھا سنگل نیشنل کریکولم نظام میں پیوند کاری ہے۔ اس وقت کی ضرورت پیوند کاری نہیں بلکہ نئے نظام کی ضرورت ہے۔ 
کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ تعلیم کو قومی ترجیح کے طور پر اجاگر کیا گیا۔ شرکا کا اتفاق تھا کہ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو ہمیں تعلیمی نظام کی مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ وقت صرف اصلاحات کا نہیں بلکہ ایک نئے، جدید اور قابل عمل تعلیمی نظام کے نفاذ کا ہے۔ تعلیم کے معاملے میں مزید غفلت کی گنجائش نہیں۔ اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کریں۔
اگر آج ہم نے تعلیمی بحران پر قابو نہ پایا، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں اس سسٹم کو جڑ سے بدلنے کے لیے متحد ہونا ہوگا، تاکہ ہمارا تعلیمی نظام ایسے افراد پیدا کرے جو صرف ڈگری ہولڈر ہی نہ ہوں، بلکہ باشعور، باعمل اور باوقار شہری بھی ہوں۔کیا ہم اس چیلنج کے لیے تیار ہیں؟

ای پیپر دی نیشن